حنا صالح۔۔۔ الشرق الاوسط
امریکہ کے معاون وزیر خزانہ برائے انسداد مالی اعانت کے دورہ لبنان نے خطرے کا الارم بجادیا۔ انہوں نے لبنان کے بڑے سیاستدانوں اور بینکوں کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کئے۔ مذاکرات نے یہ با ت باو ر کرادی کہ امریکہ کے معاون وزیر خزانہ کا دورہ لبنان اس سطح کے امریکی عہدیداروں کے معمول کے دوروں سے مختلف ہے۔ امریکی عہدیدار کے نئے دورے نے لبنان کے اعلیٰ اداروں کو دو ٹوک الفاظ میں ایک پیغام دیا ہے۔ امریکہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حزب اللہ کے سرمائے کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھی جائیگی۔ دراصل حزب اللہ لبنانی انتظامیہ کی بنیادی شریک ہے بلکہ لبنان کی فیصلہ سازی میں اسکا کردار کلیدی ہے۔
لبنان کے سرکاری اداروں کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ 2015ء کے دوران امریکہ نے سزائوں کا جوقانون مقرر کیا تھا اس کا ہدف ’’حزب اللہ‘‘ تھی۔ امریکہ اس جماعت کو دہشتگرد تنظیم قرار د ے چکا ہے۔ امریکہ نے 2017ء کے دوران قانونِ مذکور میں جو ترامیم کی ہیں ، امریکہ انہی کی بنیاد پر اقدامات کریگا۔ ایسے بینکوںکو نشانہ بنایا جائیگا جن پرحزب اللہ کی سرگرمیوں کو بجٹ فراہم کرنے کے الزامات ہیں۔ ایسے افراد اور ایسے اداروں کو ہدف بنایا جائیگا جو حزب اللہ کی سرگرمیوں کو سائبان فراہم کررہے ہیں۔ امریکہ حزب اللہ کی سرگرمیوں کو ’’مجرمانہ عمل‘‘ کے خانے میں رکھے ہوئے ہے۔ اس قانون کے تحت امریکہ کی مالی پابندیوں کی تلوار ان تمام ممالک اور مالیاتی اداروں کے سروں پر لٹکا دی گئی ہے جن پر الزام ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وفد دورہ لبنان کے موقع پر ایسی دستاویزات لیکر آیا تھا جن میں حزب اللہ کی مالیاتی سرگرمیوں کو پانی دینے میں مخصوص بینکوں کے رویئے پر شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ امریکی وفد کے دورہ لبنان کے موقع پر ذرائع ابلاغ کو جان بوجھ کر اطلاعات جاری کی گئی ہیں۔جن کا خلاصہ یہ تھا کہ لبنان کے 4بینک شک کے دائرے میں ہیں۔ ان میں سے دو ، 10بڑے بینکوں میں شامل ہیں۔ یہی بینک حزب اللہ کی مالیاتی سرگرمیوں کو سہارا دے رہے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ امریکی وفد نے لبنان کا دورہ کرکے آتشیں گولہ لبنانی عہدیداروں کے ہاتھوں میں دیدیا ہے۔لبنان کیخلاف کسی بھی سزا کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل یہ انتباہی کارروائی کی گئی ہے۔ اس موقع پر لبنان -کینیڈین بینک کا وہ تجربہ بھی مد نظر رکھا جائے جب اس پر 100ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ بینک کی بساط لپیٹ دی گئی تھی او رمالکان کو دیا گیا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت رائج سزائو ںکے قانون کے بموجب کیاگیا تھا۔ مذکورہ بینک کے مالکان کو لبنان کے اندر یا باہر کسی قسم کی مالیاتی سرگرمی سے روک دیا گیا تھا۔
معاملہ نہایت پُرخطر ہے۔ اس سے لبنانی بینکاری خطرات کے دائرے میں آگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر لبنانی بینکوں کیخلاف رپورٹیں درست ہیں تو کیا یہ بینک انجانے میں سب کچھ کرتے رہے ہیں یا جان بوجھ کر مذکورہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لبنان کے سینٹرل بینک کو سب کچھ پتہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ تو پھر امریکی وفد کے دورہ لبنان سے قبل اس نے صورتحال کا تدارک کیوں نہیں کیا؟ سرکاری بیان میں دہشتگردی کیخلاف عالمی مہم میں لبنان کے کردار کے تذکرے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب امریکہ نے اپنا مالیاتی وفد روانہ کرنے سے قبل اسکے اصل مقصد سے لبنان کو آگاہ کردیا تھا تو لبنان کے مالیاتی حکام نے مالیاتی پابندیوں پر عمل درآمد کا اہتمام کیوں نہیں کیا۔ امریکی وفد نے لبنانی میزبانوں کو یہ بات صاف الفاظ میں بتا دی کہ دنیا بھر میں لبنانی حزب اللہ کے مالیاتی اثاثے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ جو مالیاتی ادارہ یا بینک کہیں بھی حزب اللہ کی مالیاتی سرگرمیوں کا حصہ بنے گا اس کا سنجیدگی سے تعاقب ہوگا۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی وفد کا دورہ لبنان غیر معمولی تھا۔ امریکی انتظامیہ ایرانی حکمرانوں کے اثرو نفوذ سے نمٹنے کا انتباہ دیئے ہوئے ہے۔ امریکی حکومت ایرانی نظام کے اہم رہنمائوں اورتنظیم فیلق القدس پر پابندیاں عائد کئے ہوئے ہے۔ حزب اللہ کو مجرمانہ تنظیم قرار دے چکی ہے اور توجہ دلا چکی ہے کہ وہ دنیا بھر میں دہشتگرد گروہوں کے قیام ، منشیات کے دھندے اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ لبنانی حکمرانوں کے ایسے اقدامات جو سطحی نوعیت کے ہوں کارگر ثابت نہیں ہونگے۔ اگر ماضی میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے انتباہ کو مضحکہ خیز انداز میں اڑا دیا گیا تواب یہ رویہ امریکی سزائوں سے نہیں بچا سکے گا۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ طوفان کی آمد پر شتر مرغ ریت میں اپنا سر ڈال کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ طوفان نہیں آرہا ۔لبنانی حکمرانوں کو منشیات کے دھندے اور کئی عرب ممالک کیخلاف لبنانی حزب اللہ کی جارحانہ سرگرمیوں کے حوالے سے دوٹوک فیصلہ کرنا ہی ہوگا۔