سیرت مطہرہ کے چند روشن پہلو
میرا رب تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ،اگر تُو رب ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا! یہ بات سن کر بادشاہ لاجواب ہو گیا
* * * عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض* * *
اللہ کے رسولکی سیرت پاک بڑی پیاری‘ خوبصورت اور منفرد سیرت ہے۔ دنیا میں یہ اعزاز صرف اللہ کے رسولکو حاصل ہے کہ آپ کی حیاۃ طیبہ اور آپ کی سیرت پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر مؤلف‘ مصنف اور مترجم نے اپنے اپنے انداز میں اللہ کے رسولکی پاکیزہ سنہری سیرت کو بیان کیا ہے۔اس کے باوجود آج تک کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے کما حقہ آپکی سیرت کو لکھ دیا ہے یا بیان کر دیا ہے۔ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں رسول اللہ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے لئے سراپا رحمت بن کر تشریف لائے۔اسی مناسبت سے میں نے ارادہ کیا کہ اپنے قارئین کے سامنے سیرت مطہرہ کے چند روشن پہلو رکھوں۔ ممکن ہے ہمارے بہت سے قارئین نے یہ واقعات پہلے سے پڑھ یا سن رکھے ہوں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے رسول کی سیرت کو جتنا بھی لکھا پڑھا اور بیان کیا جائے وہ کم ہے۔آئیے ابتداء میںایک مختصر تذکرہ آپ کے جد امجد سیدنا ابراہیم ؑکے حالاتِ زندگی کا کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا،اللہ کے رسولکے جد امجد سیدنا ابراہیم ؑتھے۔ یہ گھرانہ بڑاہی مبارک ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑوہ شخصیت ہیں کہ جنہیں مسلمان،عیسائی اور یہودی سبھی تسلیم کرتے اور مانتے اور ان کی عزت واحترام کرتے ہیں۔
سیدناابراہیم ؑکے خاندان کی تاریخ آج سے کم و بیش4 ہزار سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ وہ عراق کے ایک شہر’’اُور‘‘کے باشندے تھے۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر واقع تھا۔ اس زمانے میں سلطنت بابل عروج پر تھی۔ سلطنت کی مالی حالت مستحکم اور فوجی طاقت زبردست تھی۔ دولت کی کثرت نے بادشاہ کے دماغ میں اس قدر غرور بھر دیا تھا کہ اس نے سلطنت کے بڑے معبدخانے میں اپنی سونے کی مورتی رکھوا کر حکم دیا کہ سب لوگ میری مورتی کو سجدہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے سیدنا ابراہیم ؑ کو مبعوث کیا۔ ان کا سلسلۂ نسب 9واسطوں سے سیدنا نوح ؑ سے جا ملتا ہے۔
سیدنا ابراہیم ؑ نے جب توحید کا درس دینا شروع کیاتو اس کا آغاز اپنے باپ اور گھر سے کیا۔دعوت کے کام کی ہمیشہ یہی ترتیب رہی ہے کہ اس کا آغاز اپنے سب سے قریبی رشتہ سے کیا جائے ۔ سیدنا ابراہیم ؑکے گھر والوں اور قوم نے شدید مخالفت کی۔ ایک وقت آیا جب بادشاہ کو بھی دعوت توحید پیش کی مگر بادشاہ کو دعوتِ توحید پسند نہ آئی کیونکہ اسے قبول کرنے کی صورت میں بادشاہ کو خد ائی کے درجے سے اتر کر مالک حقیقی کا بندہ بننا پڑتا تھا۔
سیدنا ابراہیم ؑنے گزر اوقات کیلئے بھیڑ بکریاں پال رکھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مال میں برکت دی اور وہ بڑھ کر بہت بڑے بڑے ریوڑ بن گئے۔ ابراہیم ؑ انتہائی مہمان نواز تھے۔ ان کی کنیت ابو ضیفان (مہمانوں والا، مہمان نواز) تھی۔ان کے بار ے میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنے مہمان نواز تھے کہ کھانا تیار ہوتا تواس بات کا شدت سے اہتمام کرتے کہ کھانے کے وقت کوئی ایک یا ایک سے زیادہ مہمان لازماً ان کے دستر خوان پر موجود ہوں۔ آپ مہمان کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے۔ اگر کسی وقت گھر پر مہمان موجود نہ ہوتا تو کھانا مؤخر کر کے مہمان کا انتظار کرتے۔ جب تک ان کے دستر خوان پر کوئی مہمان آ نہ جاتا وہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ والد کا نام آزرتھا۔ آزر کی عمر اس وقت 75سال تھی جب اس کے ہاں ابراہیم ؑپیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ ناحور اور ہاران بھی آپ کے بھائی تھے جو آزر کے بیٹے تھے۔
یہ کلدانیوں کا علاقہ، یعنی بابل کی سرزمین تھی۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی شکل وصورت کے حوالے سے حدیث میں آتا ہے : اللہ کے رسولنے معراج کی رات عیسیٰ ابن مریم، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا۔ عیسٰی ؑسرخ فام، گھنگریالے بالوں اور چوڑے سینے والے تھے اور موسیٰؑ گندمی رنگ کے فربہ بدن تھے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اور ابراہیم ؑ کی شکل و صورت کیسی تھی؟ ارشاد ہوا :
’’اپنے ساتھی (محمد) کو دیکھ لو۔‘‘
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول کی شکل وصورت اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم ؑسے ملتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے سیدنا ابراہیم ؑ کو عقل سلیم اور رشدو ہدایت سے نواز دیا تھا۔ بڑے ہوئے تو انہیں رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور اپنے خلیل یعنی گہرے دوست کا منصب عطا فرمایا۔ سیدناابراہیم ؑکا قصہ قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر مختلف انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اپنے والد کو جس عمدہ انداز میں انہوں نے توحید کی دعوت دی ، آئیے اسے قرآن کریم میں سورۃ مریم ،آیت 41سے 48تک کا ترجمہ پڑھتے ہیں:
’’(اور ان کو اے نبیؐ!) اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بھی پڑھ کر سنائیے ‘بلاشبہ وہ بڑے ہی راست باز اور عظیم الشان پیغمبر تھے،وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب انہوں نے درد بھرے انداز میں اپنے باپ سے کہا: ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ آپ کے کسی کام آ سکتی ہیں، اباجان ! میرے پاس ایسا علم آگیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ،لہٰذا آپ میرے کہنے پر چلئے میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا، ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کیجیے کیونکہ شیطان تو بلاشبہ اللہ رحمان کا نا فرمان ہے، ابا جان! مجھے تو اس بات کا شدید ڈر ہے کہ کہیں اللہ رحمان کی طرف سے آپ پر کوئی ایسا عذاب آ پڑ ے کہ آپ ہمیشہ کے لئے شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں،یہ سب کچھ سن لینے کے بعد باپ نے کہا: ابراہیم! کیا تم میرے معبودوں سے منکر ہورہے ہو؟ سن لو! اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا، تم اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو ہمیشہ کے لئے میری نگاہوں سے دور چلا جا، ابراہیم ؑنے جواب دیا :اچھا تو سلام ہو آپ پرالبتہ میں اپنے رب سے آپ کے لئے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا کہ بلاشبہ میرا رب مجھ پر مہربان ہے،میں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں توبہر حال اپنے رب کو ہی پکارتا رہوں گا،مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر محروم نہ رہوں گا۔‘‘
سیدناابراہیم ؑکی قوم کے لوگ سال میں ایک بار شہر سے نکل کر عید (قومی جشن) منانے جایا کرتے تھے۔ ان کے والد نے ان کو بھی جشن میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ قارئین کرام! باپ نے انہیں جشن میں شرکت کی دعوت تودی مگر ابراہیم ؑانتہائی بردبار، متحمل مزاج اور اپنی قوم کے خیر خواہ تھے۔سیدنا ابراہیم ؑ کہنے لگے : میں تو بیمار ہوں۔ واقعی قارئین! جس قوم میں شرک ہو وہاں مصلح اپنی قوم کی بری عادتوں اور غلط کاموں کو دیکھ کر بیمار ہی تو رہے گا۔
لوگ عید منانے کے لئے شہر سے باہر چلے جاتے ہیں اور سیدناابراہیم ؑ شہر میں اکیلے رہ گئے تو آپ ؑ جلدی سے بتوں کے پاس پہنچ گئے۔ ان کو خوب سجا بنا کر ایک کمرے میں رکھا گیا تھا۔ ان کے سامنے طرح طرح کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔سیدنا ابراہیم ؑ نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے بطور استہزا پوچھا:ارے! تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم بولتے کیوں نہیں؟
قارئین کرام ! بھلا کبھی پتھر اور لکڑی کی بے جان مورتیاںبھی سنا کرتی ہیں یا کھایا کرتی ہیں؟!وہ تو خود بے بس ہیں۔ ان کو تو کسی کاریگر نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہوتا ہے۔
سیدناابراہیم ؑنے ایک کلہاڑا ہاتھ میں لیااور سوائے بڑے بت کے باقی تمام بتوں کوکلہاڑے کی ضربیں مار مار کرٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ قرآن پاک میں آتاہے کہ سوائے بڑے بت کے سب کو توڑ دیا کہ شاید وہ اس سے آ کر پوچھیں کہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ بعض روایات کے مطابق انہوں نے کلہاڑا بڑے بت کے ہاتھ میں رکھ دیا تاکہ یہ تاثر ملے کہ اسے اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی عبادت ہوتے دیکھ کر غصہ آگیا، اس لئے ا س نے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔
جب لوگ جشن سے فارغ ہو کر آئے اور اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا تو کہنے لگے : ہائے ہماری بربادی! ہمارے معبودوں کا یہ ذلت آمیز حشر کس نے کیا ہے؟ کون انہیں توڑ پھوڑ کر چلا گیا؟جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے، اس نے ہمارے خداؤں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا : ہم نے ایک جوان کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا ، اُسے ابراہیم کہتے ہیں۔ وہ ان کے عیب بیان کرتا اور ان کی تحقیر و تذلیل کرتارہتا ہے۔ اسی نے پیچھے رہ کر انہیں توڑا ہوگا۔ قوم کے بڑے کہنے لگے: اسے لوگوں کے سامنے لاؤتاکہ وہ گواہ رہیں۔
سیدنا ابراہیم ؑیہی چاہتے تھے کہ سب لوگ جمع ہو جائیں تو تمام بت پرستوں کے سامنے ان کا عقیدہ غلط ہونے کی دلیل پیش کی جائے، چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے۔سیدنا ابراہیم ؑ بھی اس مجمع عام کے سامنے آگئے۔بت خانے کے مجاوروں نے سیدنا ابراہیم ؑسے پوچھا: ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حشر تم نے کیاہے؟
آپ ؑنے جواب دیا: یہ کام ان کے اس بڑے بت نے کیا ہوگا۔اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ اب قوم نے غور وفکر کیا۔ اپنے سر جھکا لئے، پھر اپنے آپ کو خودہی ملامت کرنے لگے کہ افسوس! ہم ہی سے غلطی ہوگئی کہ ان کے پاس کوئی چوکیدار اور محافظ نہیں چھوڑا۔ حیرت زدہ ہو کر ابراہیم ؑسے کہنے لگے:تمہیں اچھی طرح معلوم ہے یہ بُت باتیں نہیں کرتے ،پھر ہم سے کیوں کہتے ہو کہ انہی سے پوچھ لو۔
چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ میں سیدنا ابراہیم ؑنے انہیں جو جواب دیا وہ اس طرح تھاـ:
’’ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو تمہیں کچھ فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان ، تف ہے تم پر اور جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، اُن پر بھی ، کیا تم عقل سے بالکل محروم ہو چکے ہو؟ ‘‘(الأنبیاء 67,66)۔
قوم نے لاجواب ہونے پر وہی رویہ اپنایا جو ہر سرکش اور متکبر شکست کھانے پر اپناتا ہے۔مشرک قوم نے اکٹھے ہوکر سیدنا ابراہیم ؑکو نشانِ عبرت بنانے کا پروگرام بنا لیا۔ بت پرست کہنے لگے:جو تمہارے معبودوں کی اس طرح توہین کرتا ہے اس کی سزا یہ ہونی چاہئے کہ ایک چاردیواری بناؤ،اس میں آگ جلاؤ، پھر اس کو آگ کے ڈھیرمیں ڈال دوچنانچہ انہوں نے ہر ممکن جگہ سے ایندھن جمع کرنا شروع کیا اور ایک مدت تک اکٹھا کرتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اگر کوئی عورت بیمار ہو جاتی تو نذر مانتی کہ اگر مجھے شفا ہو گئی تو ابراہیم کو نذر آتش کرنے کے لئے اتنا ایندھن دوں گی۔ پھر ایک وسیع ہموار جگہ میں وہ تمام ایندھن جمع کیا گیا اور اس کے گرد چار دیواری تعمیر کر دی گئی۔ بالآخر اس ایندھن کو آگ لگا دی گئی۔ آگ جلی ،بھڑکی، اس کے شعلے بلند ہوئے اور اس سے اتنی چنگاریاں اڑنے لگیں جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہ دیکھی تھیں۔چونکہ آگ کے شعلے بہت بلند تھے لہٰذا کسی انسان کے بس کی بات نہ تھی کہ سیدنا ابراہیم ؑکو اٹھا کر آگ کے اس الاؤ میں ڈال دیتاچنانچہ انہوں نے اس مذموم مقصد کے لئے منجنیق بنائی کہ اس میں بٹھا کر انہیں گھما کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ منجنیق تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بنائی گئی۔ اس کا بنانے والا عراق کے علاقے کردستان سے تعلق رکھنے والا ہیزن نامی ایک شخص تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔ وہ قیامت تک دھنستا ہی چلا جائے گا۔ لوگوں نے سیدنا ابراہیم ؑ کو پکڑ کر باندھ دیا اور مشکیں کس کر انہیں منجنیق میں ڈال دیا۔جب آگ میں پھینکنے لگے تو اس وقت سیدنا ابراہیم ؑ کی زبان پر ’’حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ‘‘کے الفاظ جاری تھے، یعنی’’ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے‘‘۔
انہوں نے اپنا مکرو فریب آزمایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر نافذ فرما ئی۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:
یَانَارُ کُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیمَ۔
’’ آگ سرد ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی والی بن جا۔ ‘‘
سلامتی والی سے مراد یہ کہ اتنی ٹھنڈی نہ ہوجانا کہ ہمارے بندے ابراہیم کو اس کی ٹھنڈک سے تکلیف محسوس ہو۔
حضرت کعب احبار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آگ نے سیدنا ابراہیم ؑکی صرف وہ رسیاں جلائیں جن سے وہ باندھے گئے تھے۔
بہر حال کفار نے سیدنا ابراہیم ؑپر فتح پانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ خائب وخاسر اور ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصافات میں فرمایاہے:
’’ ان لوگوں نے تو ابراہیم کا برا چاہا تھا مگر ہم نے انہی کو ذلیل ورسوا کردیا۔ ‘‘
بلا شبہ یہ ایک کڑی آزمائش تھی جس میں ابراہیم ؑ پورے اترے اور کامیاب ہوئے۔
قرآن پاک نے ابو الانبیاء کے ایک سرکش اور ظالم بادشاہ کے ساتھ مناظرے کا ذکر بھی کیا ہے ،وہ بابل کا بادشاہ تھا۔ اس کانام نمرود بن کنعان تھا۔ یہ شخص پوری دنیا پر حکومت کرتا تھا۔ علماء کے قول کے مطابق پوری دنیاپر صرف 4 بادشاہوں نے حکومت کی ہے۔ ان میں سے 2 مؤمن اور 2کافر تھے۔ مؤمن تو ذوالقرنین اور سلیمان ؑتھے اور کافر نمرود اور بخت نصر تھا۔ تاریخ کے علماء کہتے ہیں: نمرود مسلسل 400 سال تک بادشاہ رہا۔سلطنت کی وسعت اور اقتدار کی طوالت نے اس کا دماغ خراب کر دیا۔وہ خود کو رب کہلوانے لگا۔ بعض روایات کے مطابق سیدنا ابراہیم ؑاور نمرود کے درمیان مناظرہ اُس روز ہوا جس دن وہ آگ سے نکلے۔
امام قرطبی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ نمرود نے اشیائے خوردنی کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ لوگ غلہ لینے اس کے پاس جاتے تھے۔سیدنا ابراہیم ؑبھی اس کے پاس غلہ لینے چلے گئے۔ اس سے پہلے ان دونوں کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔لوگ جب بادشاہ کے ہاں داخل ہوتے تو اسے سجدہ کرتے تھے مگرسیدنا ابراہیم ؑ نے سجدہ نہیں کیا۔ اس نے کہا: کیا بات ہے تم نے مجھے سجدہ نہیں کیا؟ سیدنا ابراہیم ؑنے فرمایا: میں تو صرف اپنے رب کو سجدہ کرتا ہوں۔ اس نے کہا: تمہارا رب کون ہے؟ فرمایا: میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔نمرود نے کہا: یہ زندہ کرنے اور مارنے والا کام تو میں بھی کر لیتا ہوں۔
اس کے سامنے 2 آدمی پیش ہوئے جن کے لئے سزائے موت کا حکم ہو چکا تھا۔ اس نے ایک کو قتل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کو معاف کردیا۔ اس طرح اس نے یہ فریب دینے کی کوشش کی کہ اس نے ایک کو موت دے دی ہے اور دوسرے کو زندگی بخش دی ہے۔ یہ بے کار بات تھی۔ اس کا موضوع مناظرہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
سیدنا ابراہیم ؑ نے اس بات میں الجھنے کے بجائے فورا ہی اُسے ایک اور دلیل دیدی کہ میرا رب تو وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ،اگر تُو رب ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا! یہ بات سن کر بادشاہ ششدر رہ گیا‘ وہ لاجواب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ نمرود نے سیدناابراہیم ؑ کو غلہ دینے سے انکار کر دیا۔ آپ ؑ واپس گھر کے قریب پہنچے تو دونوں بورے مٹی سے بھرلئے۔ دل میں سوچا کہ جب میں گھر پہنچوں گا تو کم از کم بچے خوش ہو جائیں گے۔ گھر پہنچے تو بھرے ہوئے بورے دیکھ بچے خوش ہوئے اور کھیلنے لگے۔آپ نے بورے اتارے اور سو گئے۔ آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ اٹھ کر بوروں کے پاس گئیں تو دیکھا کہ وہ عمدہ غلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کھانا تیار کیا۔سیدنا ابراہیم ؑبیدار ہوئے تو دیکھا کہ کھانا تیار ہے۔ آپ ؑنے پوچھا: یہ کھانا کہاں سے آیا ہے؟ زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ آپ جو غلہ لائے تھے اسی سے تیار کیا ہے۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ رزق اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر عطا فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ظالم نمرود کا خاتمہ اس طرح کیا کہ اس کی فوج پر اتنے مچھر بھیج دئیے کہ ان کی چھائوں میں سورج چھپ گیا، پھر ان مچھروں کو لشکر پر مسلط کردیا۔ انہوں نے ان کا گوشت اس طرح نوچا کہ صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں۔ ایک مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا۔ اللہ نے اس کے ذریعے اسے ایک مدت تک عذاب میں مبتلا رکھا۔ اس کے سر پر ہتھوڑے سے ضربیں لگائی جاتی تھیں جب وہ تھوڑا سا افاقہ محسوس کرتا۔ضربیں بند ہوتیں تو مچھر پھر اپنا کام شروع کر دیتا۔ یہ سلسلہ جاری رہاحتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم سے ہلاک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے ایک متکبر اور جبار بادشاہ کو بدترین انجام سے دو چار کیا۔
(جاری ہے)