امت کیلئے نور مبین… صلہ رحمی اور اسکے دنیوی واخروی ثمرات
قریبی محتاج کو صدقہ کرنا ، اسکی احتیاج کیلئے فکر مند ہوناصلہ رحمی ہے، یہ صدقہ بھی ہے ، رشتوں کو جوڑنا بھی صلہ رحمی ہے
* * *
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * *
سیرت رحمت للعالمین کے جن منور پہلوؤں کوجامع سنت امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف صحیح البخاری کے شروع میں کیفیت ِ وحی ربانی کے آغاز کے عنوان سے بحوالہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری اور بروایت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر فرمایا، یقینا وہ اخلاق عالیہ حضرت رحمت للعالمین کی رحمت کے عظیم الشان مظاہر ہیں جو فرد یا امت انہیں اپنالے یقینا وہ مکرم فرد اور معززِ امت بن جائے ۔ان شمائل محمدیہؐ اور صفات محمودہ کی قرآن وسنت کی نظر میں خصوصی اہمیت وعظمت ہے اور ان کے دنیوی اور اخروی بیش بہا منافع وثمرات ہیں ۔انہی کے پیش نظر ہم سیرت طیبہ سے ان صفات کو بالترتیب نفع عام اور اصلاح احوال کی خاطر اپنے مقالات کا موضوع سخن بنائیں گے۔ام المؤمنین نے حضرت رحمت للعالمین کا اولین مظہر یا پہلا وصف ’’صلہ رحمی‘‘ بتایا ہے اس پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
عربی زبان میں صلہ یا وصل کا معنیٰ’’ جوڑنا‘‘ ہے ۔جس کی ضد قطع اور توڑنا ہے ۔
قرآن حکیم میں صالحین ِ امت کی صفات کا بیان ہوا ،تو فرمایا : امت کے ارباب عقل ودانش وہ لوگ ہیں جو ان رشتوں کو جوڑتے ہیں جنہیں جوڑنے کا خالق نے حکم دیا ہے ۔نیز ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ : ایسے صلہ رحمی کرنے والے لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ انسانی ناطوں کا جوڑ یا وصل مادی مفاد ات یا دنیوی منفعت کے پیش نظر نہیں کرتے بلکہ وہ ایسا محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور یوم حساب کے ڈر سے کرتے ہیں ۔گویا مؤمن کو خشیت ربّ تعالیٰ اور خوف یوم حساب ، یہ دو ایمانی صفات اس امر کا باعث بنتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں رشتوں ناطوں کی پاسداری کرے ۔ کیا خوبصورت رجحان ہے ، کتنی عالی فکر ہے ، کتنی پاک سوچ ہے جوکہ ربّ تعالیٰ اپنے بندوں کے اندر پیدافرمارہے ہیں کہ انہیںدنیا، مادّہ اور مصلحت ومنفعت اور لینے دینے کا تصور نہیں کرنا ،انہیں تو انسانی رشتوں کو ملانے میں ، خشیت رحمان اور خوف یوم الحساب کو مدّ نظر رکھنا ہے ۔
سیرت سید المرسلین اور تربیت ربّ العالمین کا اصل ہدفِ عالی انسانی قلوب کا اخلاق رذیلہ سے تزکیہ اور انکی مادی آلودگیوں سے طہارت ہے جبکہ عام انسانوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان کا مطمح نظر انسانوں سے تعلقات قائم کرنے اور اپنے اقارب وارحام سے صلہ رحمی میں باہمی مفادات اور مشترکہ مادی منفعت کا حصول ہوتاہے اور اللہ اور رسول کی نظر میں یہ نقطۂ نظر اخلاقی پستی شمار ہوتی ہے اس لئے صلہ رحمی اور رشتوں کے جوڑ کے بیان میں باری تعالیٰ نے خشیت ِ ربانی اورخوف آخرت کا تصور دیا کہ بندہ مؤمن کو ہمیشہ اپنی نگاہ بلند اور فکر عالی رکھنی ہوگی اور وہ انسانی رشتوں کو رحمن کی خشیت اور یوم الحساب کے خوف کو ہی مدّ نظر رکھتے ہوئے استوار کرے۔
ایک بااخلاق بندۂ مومن ربّ تعالیٰ کا طالب ہوتا ہے اور آخرت کی فلاح اس کی مطلوب ہے ۔ ایسی صلہ رحمی جس میں دنیا کے بجائے آخرت پر نظر ہو، جہاں مخلوق کی بجائے خالق پر نگاہ ہو۔یہ طہارت باطنی اورتزکیہ قلبی کا وہ معیاری مقام ہے جسے ہمیں انسانی تعلقات سے کماناہے۔ہماری کمائی ، ہمارا ہدف ہمارا مقصد گھٹیا اور خسیس دنیوی منفعت نہ ہو ۔ یہ کوتاہ نظر اور مریض دل لوگوں کی سوچ ہے ۔
آج ہم اپنے قلوب پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچ لیں کہ کیا ہمارے تعلقات رحمانی اور آخرت کی بنیادپر قائم ہیں؟ یا خسیس مقاصد اور مادّی مفادات کی بنیاد پر قائم ہیں ؟ خیر امت کی سوچ پہلی ہے دوسری نہیں ۔صلہ رحمی کے بارے میں اس قرآنی بیان کی روشنی اور اپنے محاسبہ کی فکر کے بعد ہم صلہ رحمی کی حقیقت ،اسلام میں اس کی قدروقیمت اور قرآن وسنت کے بیان میں اسکے اہتمام میں بھی تامل کرتے ہیں کہ اولاً ہم رشتوں کو جوڑنے والے ہوں ، توڑنے والے نہیں ۔ پھر اس کریمانہ صفت کو ہم شوق ورغبت سے اختیار کریں کہ اس میں رحمان کی رضا اور آخرت کی فلاح ہے۔حدیث قدسی میں ارشاد نبویؐ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ رحم کا نام میں نے رحمان سے نکالا ہے، جو صلہ رحمی کرے گا ، میں اسے جوڑوں گا اور جو قطع رحمی کرے گا میں اسے توڑوں گا۔‘‘
اب کون عقل وشعور والا صاحب ایمان ہوگا جو اپنے رشتوں کو توڑکر،اور قطع رحمی کرکے العیاذ باللہ رحمان کا مقابلہ کرنا چاہے گا؟
ایک حدیث میں ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں روایت کرتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: ’’رحم(رشتہ) عرش سے معلق ہے ،وہ کہتاہے جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑا اللہ اسے توڑے۔‘‘
کون ذی عقل وشعور بندہ ایسا بدقسمت ہوگا جو العیاذ باللہ رحمان کے عرش عظیم سے ایسی بد دعا کا مستحق اپنے آپ کو بنائے۔
صلہ رحمی کی اس اہمیت کے بعد اس کی حقیقت کو بھی جان لیں نبی کریمنے ارشاد فرمایا :صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو ادلہ بدلہ کرے کہ اگر دیگر اس سے جوڑتے ہیں تو وہ ان سے جوڑرکھے بلکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو اس سے توڑے وہ اس سے جوڑلے۔‘‘
گویاکہ اسلام میں صلہ رحمی کے باب میں بندۂ مومن سے مطلوب ہے کہ اس کا مطمح ِ نظر خالص للہیت اور آخرت کا ہی تصور رہے ، مکافات اور بدلے کی توقع ہرگز ہرگز نہ ہو۔ حق تعالیٰ شانہ ہمیں یہ مقام عطافرمائیں آمین۔
ہم تو بغرض اصلاح نفوس یہ سطور ترتیب دے رہیں اسی لئے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے اور ہر قاری اور ہر سامع کیلئے توفیق کی دعا بھی کرتے ہیں ۔صلہ رحمی کے وہ منافع اور ثمرات جو شارع کی مبارک زبان سے واردہوئے ہیں اور وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں یہ ہے ۔ایک حدیث جسے امام بخاری ومسلم دونوں روایت فرماتے ہیں ،میں ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ جو اس امر سے مسرور ہوتاہے (یعنی اس کی خواہش ہے)کہ اسکے رزق میں وسعت ہو، اسکا ذکر خیر لوگوں میں رہے ، اسے صلہ رحمی کو اختیارکرنا ہوگا۔‘‘
صلہ رحمی ہم اختیار کریں ، رحمان اپنے ہاں سے ہمارے رزق میں وسعت اور ہمارے، لوگوں میں تذکرے باقی رکھنے کے فیصلے غیبی طورپر فرمادے ۔ ہمیں اس غیبی نظام کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہوگا ۔بدقسمتی سے اس سے غفلت عام ہوچکی ہے ۔اللہ کا غیبی نظام رحمن کی رحمات اور اسکے آخرت کے انعامات، یوم الحساب کا وجود۔ان سب امور کا استحضار رہنا چاہئے مگر بدقسمتی سے اس کی کمی ہے ۔یہی ہمارا ضعف الا یمان ہے کہ مادہ، منفعت دنیوی اور ظاہری اسباب تو ہمیں نظر آئیں ، مگر خالق کا وہ غیبی اور طاقتور نظام جو در اصل اس کائنات میں حقیقی طورپر کارفرما ہے ، ہماری کو تاہ نظر یںاس کا ادراک نہ کرسکیں۔
ہمارا معاملہ کچھ ایسا خراب ہوچکا ہے کہ سود سے (معاذ اللہ) مال کا بڑھنا ہمیں نظر آئے مگر اس کی تباہی کے ادراک سے ہم کوتاہ رہیں۔زکوۃ جو مال کی طہارت اور برکت اور بڑھاؤ کا سبب ہے وہ ہمیں نظر نہ آئے مگر ڈھائی فیصد کی کمی پر ہماری کوتاہ نظریں اٹک جائیں۔
آج ہمیں اللہ اور رسول کے فرامین میں ایمان کی نظروں سے تامل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس پر پختہ یقین ، یہ ہماری حاجت ہے اور آج ہم اپنی اس شدید ترین حاجت سے غافل ہیں ۔ہمارے اندر کا تزکیہ اورطہارت ہی ہمیں اس میدان کا کامیاب راہی بناسکتاہے ۔
بہر حال ارشاد پیغمبر ہے کہ صلہ رحمی سے رزق بھی بڑھے گا ،عزت وتکریم بھی اور ذکر خیر بھی اس جہان میں باقی رہے گا۔
صلہ رحمی کی برکات میں سے قریبی محتاج کو صدقہ کرنا ، اسکی احتیاج کیلئے فکر مند ہوناہے۔ یہ صدقہ بھی ہے اور رشتوں کو جوڑنا بھی ہے ۔یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے ۔ بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں:سیدنا ابو طلحہؓ مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھے ، وہ کھجوروں کے باغات کے مالک تھے اور ان کا محبوب باغ وہ تھا جو بئر حاء کے نام سے معروف تھا۔وہ مسجد نبویؐ کے بالکل سامنے تھا نبی کریم اس باغ میں جایا کرتے ،وہاں کا پانی پیتے اور وضو فرماتے تھے ،تو جب یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ ’’ تم اس وقت تک نیکی نہیں پاسکتے ہو جب تک اپنی محبوب ترین چیز کو خرچ نہ کرو، اور تم جو خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے ‘‘۔حضرت ابو طلحہ نے جب یہ آیت سنی تو فرمایا : میرا محبوب ترین مال میرا یہ باغ ہے ۔یہ اللہ کیلئے صدقہ ہے ۔میں اس کی خیر اور ذخیرہ کو اللہ کی بارگاہ میں دیکھنا چاہتاہوں ۔یا رسول اللہ! آپ اس میں جیسا چاہیں تصرف فرمالیں جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو دکھائیں آپ اسے وہاں صرف فرمادیں،تو آپ نے فرمایا :اے ابو طلحہ ! تیری خوش بختی ہو، یہ تونفع والا اور نفع بخش مال ہے اورتُو نے جو کہاہے وہ میں نے سن لیا۔اب تو اسے اپنے اقارب اور رشتہ داروں کیلئے خاص کردے۔اقارب کا خیال رکھنا اور ان کی رعایت کرنا ۔یہ جناب رسول اللہ کی نظر میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اس باب میں یہی تربیت نبوی ہے ، جو آپ نے اپنے صحابہ کرام کی براہِ راست فرمائی اور اپنی تمام امت کی اپنے ان مبارک ارشادات کی روشنی میں فرمائی ہے ۔
اگر اسلام میں اقارب سے تعلق قائم کرنے کی ،ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کی یہی فضیلت ہے ، اس کے یہی دنیوی اور اخروی منافع ہیں توپھر ہمیں قطع رحمی کے مضرات اور دنیوی واخروی نقصانات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔اپنی ایمانی نگاہ سے ان میں بھی ہمیں تأمل کرنا چاہئے۔وہ بھی ہمیشہ ہمارے مد نظر رہیں تاکہ نفس وشیطان کے دھوکے سے ہم محفوظ رہیں ۔امام ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ روایت فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم نے فرمایا :بندے کو اس کے گناہ پر جلد ہی اس دنیا میں ہی آخرت کی سزا کے ساتھ ساتھ ، بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کسی دیگر گناہ پر نہیں ہوتی ۔ یہ دنیوی جلد سزا جس کا آغاز قطع رحمی کرنے پر اسی دنیا میں ظاہر ہوجاتاہے وہ اس کے اعمال صالحہ کا ردّ ہوجاناہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:بنی آدم کے تمام اعمال ہر جمعرات یعنی جمعہ کی رات کو پیش ہوتے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا(مسند احمد)۔
اس سے بڑھ کر ایک مسلمان کا اور کیا خسارہ ہوسکتاہے کہ وہ عمل کی مشقت بھی برداشت کرے اور معاذ اللہ اسکا عمل صالح اللہ کے ہاں مقام ِقبولیت سے بھی ردّ کردیاجائے ۔اور یوں وہ مشقت کرنے والا مزدور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے کیونکہ بندے کے کسی عمل اور کسب میں کوئی بھی خیر نہیں رہتی اگر وہ اللہ کے مقام رحمت سے دور ہو ،اور وہ اس کی عنایت وحفاظت اور برکت سے بعید ہو ۔
نبی کریم کا ارشادگرامی ہے : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ، جب اس کی خلقت سے فارغ ہوا تو ’’رحم‘‘ رشتہ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا : قطع رحمی سے تیری پناہ چاہنے والے کا یہ مقام ہے ، تو بار ی تعالیٰ نے فرمایا : ہاں ۔کیا تُو اس پر راضی ہے کہ میں اس سے جوڑ دوں جو تجھے جوڑے اور اس سے قطع کروں جو تجھے توڑے۔تو رشتے نے کہا : ہاں میں اس پر راضی ہوں۔ تو باری تعالیٰ نے فرمایا: یہ تیرا مقام ہے ۔پھر نبی کریم نے ارشاد فرمایا : اگر چاہتے ہو تو اس ارشاد ربانی کو پڑھ لو ’’تم پر تعجب نہیں تو تم والی ہوجاؤ اورز مین پر فساد کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑنے لگو،یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہوئی تو اللہ نے انہیں گونگااور بہرہ بنادیا‘‘۔
رحم اور رشتہ کو جب اللہ تعالیٰ نے یہ مقام عطافرمایا اور خود رسول اللہ نے اس کی شرح فرمائی تو اللہ کے ماننے والے کی نگاہ میں بھی تو اس کی قدر ومنزلت اور اہمیت ضرور رہنی چاہئے ۔اس ایمانی نظر سے ہم میں سے ہر شخص ذرا اپنا محاسبہ کرے کہ کیا اس کی عملی زندگی میں صلہ رحمی کی وہ اہمیت ہے اور اسے وہ مقام حاصل ہے جو اسے باری تعالیٰ نے عطا فرمایا اور جس کی رسول اللہ نے تصدیق فرمائی ؟
یقینا ہماری زندگیوں میں جو پریشانیاں ہیں اور ہمارے نظام زندگی کو جن امور نے مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اورتباہی کی طرف اسے دھکیل دیاہے، اسکے اسباب وعوامل میں غور کرنیوالے اہل حل وعقد آخر کیونکر اپنی ذاتی ، معاشرتی اور عمومی زندگی میں ان ارشادات حقہ ، ان فرامین ربانیہ اور ارشادات نبویہؐ میں کیوں غور نہیں کرتے ؟ وہ حضرات پریشانی اور بے اطمینانی کے ان ربانی عوامل واسباب میں کیونکر تامل نہیں کرتے؟ ابھی تو یہ دنیوی عقوبت کی بات تھی ۔رہی اخروی عقوبت تو اس قطع رحمی پر تو جنت سے محرومی اس کی سزا ہے ، اور اس سے بڑھ کر بندے کیلئے کیا محرومی ہوسکتی ہے؟صلہ رحمی سے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیوی عقوبت ، دنیوی پریشانی، دنیوی بے سکونی اور عمومی معاشرتی اور زمینی فتنہ وفساد سے بھی تحفظ ملے گا اور اخروی دائمی سزا سے بھی اس میں تحفظ ہے ۔
یہی ثمرات ہیں صلہ رحمی کے اور یہی نقصانات ہیں قطع رحمی کے لہذا ہمیں قطع رحمی سے ہر حال میں اجتناب کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری انفرادی اور اجتماعی خیر ہے ۔اسی میں ہماری دنیوی اور اخروی بھلائی بھی ہے،نیز رشتوں کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی نجات کی خاطر ہی ہمیں جوڑنا ہوگا۔ہمیں دنیوی غرض ، مالی منفعت اور ادلہ بدلہ والی سوچ کو اپنے اندر سے کھرچ کھرچ کر نکال دینا ہوگا ۔شارع کو بندہ مؤمن سے صلہ رحمی کے باب میں یہی خُلقِ حمید مطلوب ہے ۔یہی سیرت طیبہ میں نورِ مبین ہے۔
(جاری ہے )