قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔درحقیقت متحرک اور فعال قانون ہی پر امن معاشرے کا ضامن ہوتا ہے ۔ ایسے معاشرے جہاں قانون ،با اثر افراد کے گھر کی لونڈی اور موم کی ناک بنا ہوبے پناہ مواقع ہونے کے باوجود ملکی ترقی کا گراف ہمیشہ نیچے کی جانب ہوتا ہے ۔ ملکی عدالتیں کام کر رہی ہوں۔عوام کو انصاف مل رہا ہو تو جنگ میں برسر پیکارملک کا وزیراعظم بھی با اعتماد لہجے میں جنگ جیتنے کی نوید سناتا ہے کہ کفر کا پیروکار معاشرہ تو قائم رہ سکتاہے مگر ظلم پر کھڑا معاشرہ نیست و نابود ہو جاتاہے۔ اس لحاظ سے ،عدلیہ کسی بھی ریاست کا وہ مرکزی ستون ہے،جس کا ہمہ وقت متحرک،فعال اور بروئے کار رہنا نہ صرف ملک کی سالمیت کے حق میں ہے بلکہ معاشرے میں سزا کا خوف برقرار رکھنے میں بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ منصفین کا اہل و قابل ہونااگر بنیادی شرط ہے تو ان کا غیر جانبدار ہونااس سے کئی گنا زیادہ اہم ہے کہ اگر منصفین غیر جانبدار ہوں گے تو کوئی بھی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا اور نہ ہی ان کے فیصلوں پر شک کریگا۔اگر منصفین کی غیر جانبداری کے باوجود ان پر انگلی اٹھے تو انکے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ اس اٹھنے والی انگلی کو توڑ کر اس قماش کے باقی افراد کو تنبیہ کر سکیںلیکن اس عمل میں بھی فوقیت صرف عدلیہ کی توقیر ہی کو دی جانی چاہئے نہ کہ ذاتی حیثیت میں کسی عناد یا بدلے کی بو آئے۔عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنا اور عدلیہ کی بحیثیت ادارہ تذلیل کرنا 2الگ موضوع ہیں ۔اول الذکر کی صورت کسی قانونی نقطہ کے حوالے سے تنقید نہ صرف مثبت ہے بلکہ اصلاحی پہلو لئے ہوتی ہے جبکہ مؤخرالذکر میں بد نیتی شامل ہوتی ہے۔ اس بدنیتی کا مقصد صرف اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل سے ہوتا ہے ،ایسے افراد کو اسکی چنداں کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس امر سے ایک ریاستی ادارہ اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں کس قدر دباؤ محسوس کرتا ہے،گھناؤنے مقاصد کی تکمیل میں عام آدمی تو کسی صورت دباؤ پیدا نہیں کرسکتاجبکہ یہ کام صرف اور صرف خواص ہی کرسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر خواص ریاستی ادارے کو دباؤ میں لانے کی تدبیریں کرتے ہیں تو کیا اس سے فائدہ فقط خواص اٹھاتے ہیں یا کوئی دوسرے عناصر بھی اس سے فیضیاب ہوتے ہیں؟کیا اداروں کو اس طرح دباؤ میں لانے سے ریاست مضبوط ہوتی ہے یا کسی انتشار کا شکار ہوتی ہے؟کیا’’مخصوص افراد ‘‘کا یہ گروہ اپنے مقاصد کی خاطر ریاستی سطح پر انتشار پھیلا کر ،ریاستی سالمیت کو داؤ پر لگا کر اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کرنے سے نہیں چوکتا ؟کیا ایسے افراد کو ریاست کا وفادار تسلیم کیا جا سکتا ہے؟جن کی نظر میں ذاتی مفاد ،ریاستی مفاد پر ترجیح رکھتا ہو؟ کیا پاکستانی ایسے افراد کا ساتھ دینے میں تامل کا شکار ہوں گے یا اندھے مقلد بن کر ایسے افراد کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر ریاست پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازش میں شریک ہو جائیں گے؟کیا اندھی تقلید کرنے والے ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچنے کے روادار ہوں گے کہ اس سر زمین کے حصول میں ان کے اپنے اسلاف کا خون،اپنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں اور اپنے بچوں کی شہادتیں شامل رہی ہیں،کیا وہ ان قربانیوں سے منہ موڑ سکتے ہیں؟کیا چند افراد کی محبت میں عظیم قربانیوں سے حاصل شدہ آزادی کی عظیم نعمت کو گنوانے کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟مجھے کم ازکم اس حقیقت کا یقین ہے کہ کوئی بھی ذی فہم ،جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہو سکتا لیکن کیا کریں کہ شخصیت پرستی کے اس ماحول میں ہمارے ہی بھائی بند اس کھلی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔آج ملک کے طول و عرض میں ’’سیاسی قیادت‘‘کے دعویدار بجائے قانون کی پیروی کرنے کے چیخ و پکار کررہے ہیں ،معزز ججوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔عدلیہ کو بے توقیر کر رہے ہیں۔ججوں کو اپنے فرائض انجام دینے پرسنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں،انکے اختیارات پر سوالیہ نشانات اٹھا رہے ہیں۔ انتخابی عمل اور جرائم کو گڈ مڈ کرتے ہوئے ،عوام کو گمراہ کر رہے ہیں،تسلیم کہ منتخب نمائندے عوامی ووٹ کی اکثریت سے پارلیمنٹ میں آتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود (معاشرے کے وسیع تر مفاد میں)قانون سازی ان کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے عوض ملکی وسائل کی لوٹ مار کرنے کا حق ان عوامی نمائندوں کو قطعاً نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قانون سازی کے نام پر جس آزادی (مغربی طرز کی آزادی)کے طلبگار یہ عوامی نمائندے ہیں،انہیں اس کا حق تو دے دیا جائے مگر اسی مغربی طرز حکومت کی طرح عوام اپنے منتخب نمائندوں سے جواب طلبی کا حق نہ رکھتے ہوں۔میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو ،ہو نہیں سکتا۔ بعینہ مغربی طرز جمہوریت میں اگر کوئی منتخب نمائندہ اختیارات سے تجاوز کرے،اپنی حیثیت کا نا جائز استعمال کرے،اپنی حکومتی حیثیت میں ناجائز دولت بنائے،اثاثوں کے بارے متعلقہ قوانین اور اداروں کو مطمئن نہ کرسکے،تو اس کی حیثیت قانون کو بروئے کار آنے سے کسی صورت نہیں روک سکتی اور نہ ہی وہ عوام الناس میں جا کر اس بنیاد پر انہیں گمراہ کرسکتا ہے کہ مجھے منتخب تو آپ نے کیا مگر عدالت نے مجھے نکال باہر کیا کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیںاور ان پر دو مختلف قانون بروئے کار آتے ہیں۔
کسی بدعنوانی پر بروئے کار آنے والے قانونی فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ،اپنی سیاسی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے،عوام کو اداروں کے خلاف سڑکوں پر لانے کی شعوری کوشش ،درحقیقت اندرونی انتشارو خلفشار پیداکرنے کے برابر ہے اور کوئی بھی ذی فہم ایسی کوشش نہیں کر سکتا کہ ایسی کوششیں تو اس وقت بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف کر رہی ہیںتا کہ انہیں پاکستان کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی کا موقع مل سکے۔ سابق وزیراعظم کا رویہ نہ صرف ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان بن رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کو ایسے مشوروں سے نوازنے والے،ان کے دست و بازو بننے والے کہیں نہ کہیں بیرونی رابطوں میں ہے اور بیرونی دشمنوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے میں ممدومعاون بن رہے ہیں ۔ بعینہ یہی صورتحال بانی ایم کیوایم کی آخری دنوں میں تھی۔وہ مسلسل ریاستی اداروں کیخلاف ہذیان بک رہے تھے تا وقتیکہ عدالتوں نے پابندی نہیں لگائی ۔ آج وہ تاریخ کے ’’کوڑے دان‘‘ کا شکار ہیں۔3 مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے سے قانون کی پاسداری کے حوالے سے بہتر روئیے کی توقع تھی مگر بصد افسوس چوری کھانے والے مجنوں کی طرح وہ سخت حالات میں بری طرح پھٹ پڑے ہیں ۔ ماضی کی ایسی نظیروں کا حوالہ دے رہے ہیں جن کا موجودہ صورتحال سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
بہر کیف اس وقت عدلیہ اور قانون اپنی طاقت کیساتھ بروئے کار آ رہے ہیں اور کسی بھی عوامی و ریاستی معاملے پر ان کی گرفت نہ صرف مضبوط نظر آتی ہے بلکہ ان معاملات پر وقت کا تعین بھی انتہائی مناسب نظر آ رہا ہے۔ عدالت عظمی نے ہنگامی حالات کے پیش نظر اپنی سرکاری چھٹیوں تک کو قربان کر دیا ہے۔ ہفتہ بھر مسلسل عدالتیں لگی ہوئی ہیں۔انتہائی اہم اور بنیادی مقدمات کی شنوائی ان دنوں میں ہو رہی ہے۔ملک بھر میں شہریوں کے بنیادی حقوق،جن کے لئے عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرتی ہے،بچوں کی غذا،تعلیم و تربیت،بچوں کا ہمہ جہتی استحصال،صاف ماحول،امن عامہ کے مسائل،جو پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار ہے مگر پارلیمنٹ ان سے عہدہ برآء ہونے میں بری طرح ناکام کہ بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ پارلیمنٹ شتر بے مہار کر طرح کام کرنا چاہتی ہے اور مخصوص افراد کے لئے قوانین بنانا چاہتی ہے۔ عدالت عظمی،ریاست کا ایک اہم ترین ستون،بروئے کار آنے پر یہی پارلیمینٹرینز نہ صرف بلبلا رہے ہیں بلکہ اسے اپنے دائرہ کار میں مداخلت قرار دیتے ہوئے ،عدالت عظمی کے خلاف صف آراء ہیں لیکن عدالت عظمی نہ صرف ملکی سلامتی بلکہ آئین و قانون کی بالا دستی کے لئے غیر مشروط طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے،وہ افراد جو اس کے خلاف صف آراء ہیںاور کل تک اس کو تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے،ایک فیصلے کے بعد نہ صرف بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں بلکہ اب انہیں اس کے دائرہ اختیا ر میں’’ کوئی شک‘‘ بھی باقی نہیں رہنا چاہئے۔