Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیٹس کو

محمد مبشر انوار
پاکستانی سیاست کے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی کہ اس کا چلن اس کی اجازت ہی نہیں دیتاگو کہ سیاست میں نہ تو کوئی بات حرف آخر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مستقل حریف یا حلیف لیکن اس مسلمہ حقیقت کے باوجود پاکستانی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا۔ اصولوں یا نظریات کی سیاست عرصہ ہوا کہیں دفن ہو چکی اور اس کی جگہ فقط ذاتی مفادات ہیں جن کی نگہبانی خواہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف ،پوری تندہی سے کر رہی ہیں جبکہ غریب عوام کے لئے زمین اس قدر تنگ ہو چکی ہے کہ نہ ان کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ ان کی عزتیں ،نہ ان کے بچے محفوظ ہیں اور نہ عورتیں۔جس عوام کی بہتری کی خاطر سیاسی جماعتیں اور ان کے نامزد کردہ امیدوار ووٹ مانگتے ہیں،اس عوام کی حالت یہ ہے کہ فقط چند دن کا کھانا،ایک ووٹ کے بدلے کچھ نوٹ اور پھر وہی استحصال۔ جس بہتر مستقبل کی خاطر ان نمائندوں کو ووٹ دئیے جاتے ہیں،ان دو نمبر اور جعلی عوامی نمائندگان کی نظر فقط اپنے بہتر اور محفوظ مستقبل پر مرکوز رہتی ہے،عوامی ٹیکس کے پیسے اللوں تللوں میں اڑانے کے باوجودیہ دو نمبر عوامی نمائندے بڑے بڑے منصوبوں میں لمبی دیہاڑیاں لگانے سے بھی نہیں چوکتے کہ در حقیقت یہی ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہیں جبکہ چھوٹی موٹی دو نمبریاں تو دال روٹی کو رواں دواں رکھنے کے کام آتی ہیں،ٹور ٹپا ،شپ شپا قائم رکھنے میں اڑ جاتی ہیں۔ ایک مہذب اور مسلمہ جمہوری معاشرے میں یقینی طور پر ادارے کسی بھی خلاف قانون کام پر بروئے کار آتے ہیں اور حکمرانوں کو نکیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں مگر تیسری دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص ایسے اداروں سے محروم ہے جو شہ زور حکمرانوں کو نکیل ڈال سکے بلکہ الٹی گنگا بہنے کے مصداق اب اداروں میں موجود افسر شاہی کی اکثریت بھی ان حکمرانوں کی ہم نوالہ و ہم پیالہ بن چکی ہے کہ افسر شاہی کا حلف نامہ ریاست کی بجائے شاہی خاندانوں کے ساتھ ہے۔ یہ شاہی خاندان خواہ شریف ہوں یا زرداری،افسر شاہی کی اکثریت نے اپنی خدمات ان کے سپرد کر رکھی ہیں کہ کیرئیر میں ترقی اسی صورت ممکن ہے جب آپ کسی ایک خاندان کے ساتھ نتھی ہوں، آپ کی وفاداریاں بلا شک و شبہ کسی ایک خاندان کے ساتھ غیر مشروط ہوں،آپ کی تمام تر مہارت سے فیضیاب صرف سیاسی خانوادے ہوں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر افسر شاہی نے حلف ریاست کی وفاداری کا اٹھا رکھا ہے،ریاست میں ہے کون جو آپ کی حیثیت پر سوال اٹھا سکتا ہو؟ آپ ہی کا کوئی پیشہ ور بھائی،جو خود کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہو گا کہ کب کوئی خانوادہ اسے ذاتی احسان کا موقع دے اورکب وہ اس موقع کو آئندہ کے لئے بطور سیڑھی استعمال کر سکے۔ اس صورتحال کو چور اور چوکیدار کی دوستی سے تشبیہ نہ دی جائے تو اور کیا کہا جائے؟
نظام میں موجود اس خامی کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں جب میرٹ کو سرعام قتل کیا جا رہا ہو، افسر شاہی میں ادارتی انتظام حکمران اشرافیہ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہو،ترقیاں اور تعیناتیاں ذاتی وفاداری سے مشروط ہوں،ایسے میں کون مائی کا لعل ایسا ہے جو محمد علی نیکوکارا یا شارق کمال صدیقی جیسی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو؟اکثریت واجد شمس الحسن یا فواد حسن فواد جیسے افسروں کی ہے ،جو ہر صورت اپنا تعلق اور مہارت اشرافیہ کے پاس گروی رکھ کر فقط ذاتی ترقی کے خواہشمند ہیں۔ سیاسی میدان میں حال اس سے بھی کہیں برا ہے کہ لوٹ مار کو بچانے کی خاطر سابقہ حریف سیاسی جماعتیں کیسے کیسے گھناؤنے کھیل رچاتے ہوئے،عوام کی امیدوں پر پانی پھیر رہی ہیں۔ مانا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر اس کا اطلاق حصول اقتدار کے لئے مخصوص تھا، نہ کہ عوام الناس کے خوابوںسے کھیلنا،پاکستانی اشرافیہ نے تو اس محاورے کی روح تک کو چیر ڈالا ہے کہ سیاست کا مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا ہے مگر اقتدار کے بعد تو عوام کے لئے کام کیا جاتا ہے،ملک کی ترقی کے لئے کام کیا جاتا ہے مگر سیاست کے نام پر تجارت کرنے والوں نے سب روایتوں کو ہی بدل ڈالا ہے۔ آفرین ہے ان سیاستدانوں پر جنہوں نے انتہائی مہارت سے وہ تمام کل پرزے اپنے ہاتھ میں کر لئے ہیں،جو کبھی یا کہیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے تھے،شریک اقتدار ہونے کے نشہ نے افسر شاہی کو اپنی اوقات ہی بھلا دی،ایک عرصے تک عدلیہ میں موجود ججز تک اپنی تقرریوں اور تبادلوں کے معاملے میں اشرافیہ کے اشارہ ابرو کے منتظر بے دریغ حکمرانوں کی من مرضی کے فیصلے صادر کرتے رہے۔ بے قصور کو قصوروار ٹھہراناان کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا اور قصور وار کو مکھن سے بال کی طرح نکال لینا ان کی پیشہ ورانہ معراج ٹھہری،اندھیر نگری چوپٹ راج،یہ وہ پاکستان تو نہ تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور نہ یہ وہ پاکستان تھا جس کے لئے بابائے قوم نے جدوجہد کی تھی،وہ یقیناافسردہ ہوں گے کہ وہ کس پاکستان کے لئے جدوجہد کرتے رہے!
بغل میں چھری منہ میں رام رام کرتے سیاستدانوں کی ایک اور چال کا مظاہرہ اہل وطن اور بالخصوص اہل لاہور نے 17جنوری کو دیکھا،جب شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی خاطر ملک کی درجنوں سیاسی جماعتوں نے ایک فلاپ شو کا مظاہرہ کیا۔ 30 ہزار کرسیاں حاضرین کے لئے پنڈال میں سجائی گئی مگر ان کرسیوں کی اکثریت سیاسی کارکنوں کی ’’تشریف‘‘ سے محروم رہی،حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں میں اتنی سکت نظر نہیں آئی کہ ان کرسیوں کو بھر نے میں کامیاب ہو سکتے۔ جلسے کا جو انتظام کیا گیا،وہ سیاسی بصیرت سے عاری نظر آیا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک جلسے میں قائدین آتے اور جاتے رہیں اور ساتھ ہی ان کے کارکنان بھی رخصت ہوتے رہیں۔ دوسری بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ ہر سیاسی جماعت اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھی کہ دوسری سیاسی جماعت کے کارکنان جلسے کو رونق بخشیںتو ہمارے جانے کی کیا ضرورت،تیسری اہم چیز کہ کل تک انفرادی جلسوں میں یہی قائدین اور ان کے کارکنان دوسری سیاسی جماعت کو گالیاں تک دیتے تو آج کیسے ممکن تھا کہ اسی سیاسی جماعت کے قائد کے لئے زندہ باد کے نعرے لگاتے ؟اس ناکام شو نے نہ صرف حکمران جماعت کو مضبوط کیا بلکہ آنے والے وقت میں اس امر کی بھی نشاندہی کر دی کہ اگر یہی صورتحال رہی تو عین ممکن ہے مسلم لیگ ن دوبارہ انتخابات جیت لے،جس کا اظہار میں پہلے ہی اپنی ایک تحریر بعنوان ’’متوقع انتخابی نتائج‘‘ میں کر چکا ہوںکہ جب تک انتخابی اصلاحات نہیں ہوتی اور حزب اختلاف انتخابی معرکہ آرائی سے نا بلد رہی،تو فیصلہ مسلم لیگ ن کے حق میں ہی ہو گا۔ اس شو کو ناکام کرنے میں زرداری صاحب کا کتنا کردار رہا یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پنجاب میں پارٹی کو زندہ کرنے کی بجائے انہوں نے درپردہ مسلم لیگ ن کے ہاتھ ہی مضبوط کئے کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ آنے والا وقت اسی صورت ان کے لئے بہتر ہو سکتا ہے اگرحکومت ان کی اپنی ہویا مسلم لیگ ن حکومت بنائے،کسی دوسری سیاسی جماعت کے بر سر اقتدار آنے پر انہیں سخت حالات کا سامنا کرناپڑے گا۔درحقیقت اشرافیہ اور سول افسر شاہی کا یہ گٹھ جوڑ اس وقت انتہائی مضبوط نظر آ رہا ہے اور اس گٹھ جوڑ کے قائم رہنے پر ہی اشرافیہ اور افسر شاہی اپنے مفادات کا تحفظ بخوبی کر سکتے ہیں۔ا سٹیٹس کو کے اس گٹھ جوڑ کو تیسری دنیا میں توڑنے کی ایک ہی صورت ہے کہ نظام عدل بلا امتیازاس گٹھ جوڑ میں شریک ہر اس ہرکارے کے خلاف بروئے کار آئے جو عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے کہ ا سٹیٹس کو ،کو قائم صرف اسی صورت رکھا جا سکتا ہے جب قوانین کی خلاف ورزی ہو اور قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں صرف عدلیہ دے سکتی ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں