ہر بات کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے ، کوئی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے مگر بعض باتیں ایسی بھی ہیں جن کا کوئی سبب نہیں ہوتا، کوئی بنیاد نہیں ہوتی ، بس وہ ہوتی ہیں۔ماہرینِ فعلیات ، جنہیں عرف عام میں ’’کرتوتیات کے ماہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ وہ باتیں جو بلا وجہ ہوتی ہیں اور جن کی کوئی دلیل و تاویل نہیں ہوتی انہیں ہمارے اساتذہ نے ’’قدرتی امر‘‘ کہہ کر جان چھڑانے کو ہی بہتر جانا ہے۔
کل ہی کی بات ہے ، ہمارے ایک دوست جو ہمارے ’’گائوں‘‘ کے معروف ماہر کرتوتیات ہیں، انہیںلوگ ’’ایم کے ‘‘کہہ کر پکارتے ہیں، وہ فرما رہے تھے کہ جنوب مشرقی ایشیاکے خطے میں بود و باش رکھنے والے مردوں کی اکثریت کا وتیرہ یہی ہے کہ انہیںاپنے والدکے رشتہ داروں کے مقابلے میں اپنی والدہ کے اعزہ سے محبت زیادہ ہوتی ہے۔اسی لئے آپ اپنے خاندان پر نظر دوڑائیں تو یہ عقدہ وا ہوگا کہ آپ کے ہاں ہونے والی پسند کی شادیوں میں بیاہ کر لائی جانے دلہنوں کی 99فیصد تعداد ایسی ہو گی جو پیدائشی طور پردولہا کی خالہ کی بیٹی ہوگی اور وہ دولہا کے ساتھ چھن چھپائی، برف پانی، ایکسپریس اور اگر یہ نہیں تو ’’باندرکلا، کوکلا چھپاتی، چور سپاہی‘‘ اور اگر یہ بھی نہیں تو حویلی کے باہر بھینسوں کے باڑے کے پاس دولہا کے ساتھ ’’کنچے‘‘ یا پھر ’’گلی ڈنڈا‘‘ کھیلتی دکھائی دے گی ۔پھوپھی یا چچا تایا کی بیٹی خال خال ہی دکھائی دے گی اور ایسی دلہن زیادہ تر دولہا سے ناراض، ناک چڑھائے، تیوری پر بل ڈالے ، بڑبڑاتی دکھائی دے گی اور آپ اس سے ہمدردی کے دو بول بولیں تو وہ شوہر کے خلاف شکایات کی پٹاری کھول کر بیٹھ جائے گی۔
’’ایم کے ‘‘مذکورہ خطے کے دولہوں میں ایک بات اور ہے جو فطری وصف کے طور پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ایسے دولہے ہمیشہ اپنے ابا جی کو زیادہ عقلمند اور اماں جان کو کسی حد تک یہ کہہ کر کم عقل سمجھتے ہیں کہ ’’میری ماں بہت ہی سادہ ہیں۔‘‘بہر حال یہ وہ امور ہیں جنہیں ہمارے خاندان کے بزرگ ’’قدرتی امر‘‘ سے معنون کرتے چلے آئے ہیں۔اس ’’مختصر‘‘ تمہید کے بعد ’’ایم کے ‘‘نے اپنا مدعا بیان کرنا شروع کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے ابا نے مجھے تعلیم کی غرض سے کراچی بھیجا۔ وہاں میرے اباکے ماموں بھی مقیم تھے انہیں جب علم ہوا کہ میں حصول علم کے لئے کراچی پہنچ گیا ہوں تو انہوں نے ہمارے ابو سے کہا کہ تمہارا بیٹا کراچی آئے اور میرے گھر کی بجائے کہیں اور قیام کرے یہ تم نے کیسے ممکن سمجھ لیا۔ اسے فوری فون کرو کہ وہ اپنا سامان لے کر میرے گھر پہنچ جائے ورنہ میں خود اسے جوتے مارتا مارتا گھر لے کر آئوں گا، آخر کو میں سگا نہ سہی رشتے کاتودادا ہوں ناں؟
ماموںکی ’’تحکمانہ ڈپٹ‘‘ سن کر میرے ابا نے فون کر کے کہا کہ فوراً اپنے داداماموں کے ہاں چلا جا ورنہ تیری پٹائی ہوگی اور میری کھنچائی۔بس ابا کا حکم تھا، میں اپنی پٹاری اٹھا کر ابا کے ماموں کے ہاں پہنچ گیا۔ انتہائی رعب دار قسم کا استقبال ہوا۔ مجھے ایک کمرہ دے دیا گیا جو سطح زمین سے 2فٹ نیچے تھا۔ مجھے یہ کمرہ اس لئے دیاگیا تھا کیونکہ اونچائی والے 3کمرے پہلے سے ہی آباد تھے۔ ایک میں دادا ماموں اور انکی دلہن تھیں، دوسرے کمرے میں ان کی 2صاحبزادیاں رہتی تھیں اور تیسرے کمرے پر ان کے منہ زور اکلوتے صاحبزادے کا قبضہ تھا۔ ان کے گھرکی روایات بالکل ہی الگ تھیں۔ میں ا کثر سوچا کرتا تھا کہ ماموں اور بھانجے کے گھریلو ماحول میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے ۔مجھے تو ابا اپنے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر ناشتہ کراتے تھے اور ماموں بالکل اکیلے ناشتہ کیا کرتے تھے۔ کیا مجال کہ ان کے ساتھ کوئی بچہ تو کیا، ان کی دلہن بھی ناشتہ کرنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی۔ماموں کے دفتر چلے جانے کے بعد بھی باورچی خانہ خالی نہ ہوتا بلکہ اب ان کی صاحبزادیاں اپنی پسند کے ناشتے تیار کرتیں ۔ وہ دونوں بہنیںہی نہیں بلکہ بہت اچھی سہیلیاں بھی تھیں چنانچہ ناشتے کے دوران باورچی خانے سے نسوانی قہقہوں کے ساتھ ساتھ چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اور پازیبوں کی جھنجھناہٹ بھی سنائی دیتی تھی۔ان سماعتوں کے باعث ہمارا دل چاہتا تھا کہ کاش ہم طالب علم کی بجائے برسرروزگار ہوتے تو اس گھر میں ہماری حیثیت بالکل ہی مختلف ہوتی مگر ایسا قسمت میں نہیں تھا۔
داداماموں کے گھر میں قیام کے دوران ایک اور منظر میں نے تسلسل کے ساتھ دیکھا۔ جو آج بھی نہ صرف مجھے بار بار یاد آتا ہے بلکہ دن میں کئی بار یاد دلایاجاتا ہے ۔ اس منظر کی لفظ بندی آپ کی نذر ہے:
سہ پہر کے 3بج رہے ہیں، دادا ماموں کی دلہن’’دادی ممانی‘‘ اپنے کمرے میں جناتی جسامت کے پلنگ پر لیٹی ہیں، ماتھے پر دوپٹہ کس کر باندھ رکھاہے،ایک جانب چھوٹی میز پر پانی کی بوتل اور گلاس رکھا ہے جس کے پاس گولیاں، شربت اور مرہم وغیرہ بکھرے پڑے ہیں۔ کمرے میں اینٹوں کے فرش پر چھڑکائو کیا گیا ہے، بید کی آرام کرسیاں ایک جانب دیوار سے لگی ہیں۔انگریز کے زمانے کا پنکھا کھپریل سے لٹکا ہوا جھوم جھوم کر گھوم رہا ہے اور اس سے ’’غوئیں، غوئیں‘‘ کی پر کیف صدا بلند ہو رہی ہے جو نہ صرف پنکھا چلنے کااحساس دلاتی ہے بلکہ اس کی رفتار کا بھی پتا دیتی ہے۔دادی ممانی کا انتہائی سخت حکم تھا کہ میں ان کے پاس اس وقت تک آرام کرسی پرموجود رہوں جب تک گھر کی نگرانی کے لئے دادا ماموں نہیں آجاتے۔ ایسا ہی ’’کرخت حکم‘‘ انہوں نے اپنی صاحبزادیوں کو بھی دے رکھا تھا کہ خبر دار جو تم اپنے باوا کی آمد سے پہلے اپنے کمرے سے باہر دکھائی دیں۔یہ سب انتظامات بالکل ایسے تھے جیسے شیر اور بکری کو ایک کشتی میں سوار کرانے کے بعد دریا عبور کیا جائے ۔بہر حال داداماموں5بجے کے قریب گھرآتے۔ سب سے پہلے اپنی دلہن سے دریافت کرتے کہ طبیعت کیسی ہے؟ جواب ملتا کہ ’’مر رہی ہوں۔‘‘ وہ کہتے کھانسی ہے، جواب ملتا جی ہاں، وہ کہتے بلڈپریشر، جواب ملتا جی ہاں، وہ پوچھتے اختلاج ہو رہا ہے ، جواب ملتا جی ہاں، وہ کہتے سر میں درد ہے ، جواب ملتا جی ہاں، وہ کہتے گردے میں درد، جواب ملتا جی ہاں، وہ کہتے سینے میں دکھن ہے ، جواب ملتا جی ہاں۔ وہ کہتے پتے میں درد ہے، جواب ملتا جی نہیں۔ یہ سن کر دادا ماموں قہقہہ لگاتے کہ بس پھر کس بات کی فکر ہے، اٹھو اور چائے بنا کر پلائو۔
ہم نے’’ایم کے ‘‘سے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ یہ منظر آج تمہیں بار بار یاد دلایاجاتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے ؟ اس نے کہا کہ آج ہمارے صاحبان ٹی وی پروگراموں میں آتے ہیں، انہیں بتایا جاتا ہے کہ جناب ملک کے 3صوبوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، جعلی دوائوں سے لوگ مر رہے ہیں، عوام کو دودھ کے نام پر کیمیکل پلایااور گوشت کے نام پر گدھا اور نامعلوم افراد کے نام پر لوگوں کو موت کی نیند سلایا جار ہا ہے ، شہروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، قتل، چوری اور زیادتی کے واقعات عام ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ متاثر ہونے والے خواص نہیں عوام ہیں۔ یہ سن کر ہمارے صاحبان پوچھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے، اینکر کہتا ہے کہ ہاں ہے، تودادا ماموں کی طرح قہقہہ مار کر کہتے ہیں کہ بس پھر کوئی فکر نہیں ، ایک مرتبہ پھر ووٹ دے کر 5سال کے لئے جمہوریت کو حکمرانی کا موقع دیں۔