شعرائے کرام میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا شعر کہہ بیٹھتے ہیں کہ جس کا گاہے مصرعہ اولیٰ، گاہے مصرعہ ثانی اور کبھی کبھار تو پورا شعر ہی مثال بن جاتا ہے اور زباں زدِ عام ہو جاتا ہے۔پھر زبان داں اور زبان دار سب کے سب جیسے ہی اس مصرعے یا شعر کے مصداق کوئی حرکت یا بیان، کوئی واقعہ یا گمان دیکھتے ہیں تو فوراً ہی اپنی بات کے ساتھ اس مصرعے کو نتھی کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مصرعہ ہم نے اس وقت دے مارا جب مس شکیلہ کے نواسے نے ہم سے سوال کیا کہ آپ اگر اخبار میں نہ ہوتے تو کس میدان میں بر سر روزگار ہوتے؟ ہم نے کہا کہ ’’دشت اگر دشت نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا‘‘۔ میاں اگر ہم اخبار میں نہ ہوتے توخبر میں ہوتے۔ وہ انگشت بدنداں رہ گئے اور بولے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست داں ہوتے؟ ہم نے کہا بالکل درست سمجھے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’بزرگوار‘‘ یہ فرمائیے کہ آپ کو بچپن سے ہی کس میدان عمل کا جنون تھا، سیاسیات کا یا اخباریات کا ؟ ہم نے کہا کہ آپ کی نانی اماں ، مس شکیلہ ہمارے بچپن سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ جب ٹاٹ اسکول نے ہمیں گود لیاتو مس شکیلہ نے ہمیں لکھنا پڑھنا سکھانا شروع کیا تھا۔ وہی بتاتی تھیں کہ روز اول سے ہی ہم پر سیاستداں بننے کی دھن سوار تھی ۔ ہم سیاست چلا کرتے تھے ، سیاست میں پلا کرتے تھے ، سیاست میں ڈھلا کرتے تھے۔آپ کی نانی نے متعدد بار کہا کہ سیاست تم جیسوں کے بس کا روگ نہیں مگر ہم نہ مانے اور اسی لکیر کے فقیر بنے رہے۔
اب کالج اور جامعہ کا دور آیا، ہم نے سیاست میں استادی کے درجے کو پہنچنے کیلئے ماسٹرز کا ارادہ کیا۔ ہمارے استاد محترم نے ہمیں آداب سیاست سے آشنا کیا اور فرمایا کہ ’’پارلیمان‘‘اس مسقف چہار دیواری کانام ہے جس میں سیاسی ہستیاں عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے سر جوڑکر بیٹھتی ہیں۔آپس میں انتہائی شستہ ، مردف و مقفیٰ زبان میں گفتگو کرتی ہیں۔ ان کی زبان دانی اس قدر معیاری ہوتی ہے کہ وہ اس پارلیمان کے باہر کہیں بھی سننے میں نہیں آتی اسی لئے اسے ’’پارلیمانی زبان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی لفظ معیار سے گرا ہوا، گھٹیا ،سوقیانہ یا جاہلانہ ہو تو اسے ’’غیر پارلیمانی‘‘کہہ کر خواندگی اور کارروائی سے خارج کر دیاجاتا ہے۔
ہمارے استاد محترم ہمیںکہتے کہ آپ سب خود کو رکن پارلیمان سمجھیںاور پھر وہ ہمیں ایک لفظ، اصطلاح یا جملہ دے دیتے کہ اس پر پُرمغز اور سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ ایک روز انہوں نے ہمیں ’’بارش‘‘ پر گفتگو کرنے کے لئے کہا اور خود وہ کسی میٹنگ میں شرکت کے لئے چلے گئے۔ ہم سب طلبہ و طالبات نے بارش پر بحث شروع کی ۔ اس دوران پہلے تو الفاظ کی شستگی میں کمی واقع ہوئی پھر لفظوں میں گھٹیا پن در آیا ۔ ایک ’’معزز‘‘ رکن اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ہم لوگ بارش پر بحث فرما رہے ہیں۔ یہ لفظ ’’ب ، ا، ر، ش‘‘ کا مرکب ہے ۔ آپ اگر ان حروف کو دائیں سے بائیں پڑھیں تو یہ ’’بارش‘‘ بنتا ہے اور اگر اسے بائیں سے دائیں پڑھیں تو ........یہ سنتے ہی طالبات نے شرم کرو، شرم کرو، کے نعرے لگانے اور ڈیسک بجانے شروع کر دیئے ۔سارا ’’پارلیمان‘‘ پہلے مچھلی مارکیٹ‘‘ اور بعد ازاں ’’مویشی منڈی‘‘ کا منظر پیش کرنے لگے۔ بات تُو تکار تک جا پہنچی۔’’معزز اراکین پارلیمان ‘‘کہیں لٹھم لٹھا دکھائی دے رہے تھے اور کہیں گتھم گتھا۔ اسی دوران استاد محترم ’’پارلیمان‘‘ قرار دیئے جانے والے ہال میں داخل ہوئے اور مائیک پر انتہائی غصے میں گرجے کہ یہ پارلیمان ہے ، تقدس کا خیال رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بارش پر سیر حاصل بحث کرنے کے لئے پارلیمان سجایا تھا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان میں سالانہ کتنی بارش ہوتی ہے، بارش کا کتنا پانی سمندر برد ہو کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ ہم اس پانی کو کس طرح ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ ہر سال ملک میں بارش سے ہونے والی تباہ کاریوں کوفوائد میں کس طرح بدل سکتے ہیں؟ایسے کون سے اقدامات ہیں جن کے ذریعے ملک میں ہونے وا لی بارش کی مقدار میں ا ضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کہہ کر استاد محترم نے ’’پارلیمان ‘‘ میں موجود ایک قدرے معزز طالب علم کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ آپ روسٹرم پر آکر بیان کریں کہ آج کی بحث سے آپ نے کیا سیکھا؟وہ طالب علم اسٹیج پر آیا، روسٹرم کی جانب بڑھا، اس نے مائیک قریب کیا اور گویا ہوا کہ سر! آج کی بحث سے ہم نے سیکھا ہے کہ بارش درحقیقت 4حروف کا مجموعہ ہے۔ اگر ان حروف کو دائیں سے بائیں پڑھیں تو یہ لفظ بارش بنتا ہے اور بائیں سے دائیں پڑھیں تو لفظ ’’شراب‘‘ بنتا ہے جو حرام ہے ۔ اس کے علاوہ آج پارلیمان میں ہونے والی بحث کے دوران ہمیں یہ حقیقت بھی باور کرائی گئی کہ بارش وہ صورتحال ہے جب بلندی پر ہوا میں تیرتے بادل سے قطروں کی شکل میں پانی زمین کی جانب برستا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ بارش وہ ماحول ہے کہ جس میں اگر ہیرو اور ہیروئن کو ئی نغمہ عکس بند کرائیں تواس فلم کی کامیابی کے امکانات دو چند ہو جاتے ہیں۔ ’’ہالی، بالی اور لالی‘‘ تینوں ’’جنگلوں‘‘ کی تاریخ گواہ ہے کہ فلم میں ’’بارشی نغموں‘‘کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، فلم کی کامیابی اسی اعتبار سے یقینی ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک اور بات یہ سیکھی.......ابھی وہ طالبعلم مزید بتانا چاہتا تھا کہ استاد محترم اپنی نشست سے اٹھے اور گرجدار آواز میں بولے کہ بس کرویہ بکواس!اے ’’پارلی مان‘‘، آج میں نے ’’ہار لی مان‘‘، میں یہ پارلیمان ختم کرتا ہوں اور تم سب کو سیاست کے لئے تا دم مرگ نا اہل قرار دیتا ہوں۔ اگر تم میں سے کسی نے زندگی میں سیاست کا نام بھی لیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔آپ لوگوں کے لئے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ جھاڑو لے کر گلی محلوں کی صفائی کرنا شروع کر دیں یا کہیں پکوڑے سموسے فروخت کرنا شروع کر دیں۔
استاد محترم کے اس دھمکی آمیز مشورے کے بعد کس کی جرأت تھی کہ وہ سیاستداں بننے کا تصور بھی کرتا۔ کسی نے سموسوں کی ریڑھی لگائی تو کسی نے دہی بڑوں کی دکان کھول لی۔ ہم اخباریات کی دنیا میں آگئے۔یہ سن کر مس شکیلہ کے نواسے نے فرمایا کہ جناب آپ کو علم ہے اسی ہفتے ہمارے وطن کے معزز ایوان میں ا جلاس جاری تھا جس میں بحث کی جا رہی تھی کہ کچی شراب اور پکی شراب میں فرق کیا ہے ؟ اس دوران ایوان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین دونوں قسم کی شرابوں میں فرق بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی معلومات کے مطابق خیالات کا اظہار کرنے کی خواہش ظاہر کر رہا تھا مگر اونٹ تھا کہ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پارلیمان فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کچی اور پکی میں اصل فرق کیا ہے۔ اس پر ایوان کے نگراں محترم نے انتہائی اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں جو رسٹریشن کے بعد تیار کی جائے وہ پکی ہوتی ہے اور جو رجسٹریشن کے بغیر بنائی جاتی ہے اسے کچی کہا جاتا ہے ۔ قبل ازیں انہوں نے ایک رکن کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جناب اس حوالے سے آپ اپنے تجربات وغیرہ سے آگاہ فرمائیں، یہ کہتے ہی شاید انہیں خیال آگیا کہ کچھ ’’غیر پارلیمانی ‘‘ گفتگو ہوگئی ہے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی کہا کہ میرا مطلب ہے کہ معلومات سے آگاہ کریں۔
مس شکیلہ کے نواسے نے فرمایا کہ کاش ! آپ کے ا ستاد محترم آج پارلیمان میں ہوتے اور نعرہ لگاتے کہ ’’ہار لیمان‘‘۔