Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قائدِ عالم

***جاوید اقبال***
تو 1940ء کے 23مارچ کا وہ طلوعِ آفتاب صرف منٹو پارک پر نہ تھا، لاہور کے منٹو پارک پر نہ تھا، آفتاب کی وہ کرنیں صرف لاہور، پشاور ،کراچی، حیدرآباد، چٹاگانگ اور ڈھاکا کی مساجد کیلئے پیام سحر نہ لائی تھیں۔تو جب اُس 23مارچ کے دن منٹو پارک میں لیاقت علیخان ، چوہدری خلیق الزمان ، مولانا شوکت علی، راجہ غضنفر علی خان،  ظفر علیخان، حسرت موہانی، فضل الحق، سہر وردی اور دیگر منتخبانِ   روزگا ر نے ایک دھان پان منحنی شخص کی رہبری میں برصغیر میں ایک قطعۂ زمین تراش کر اسے سایۂ  محراب میں سرِ نیاز خم کرنے والوں کو دینے کامطالبہ کیا تھا تو وہ صدا صرف منٹو پارک میں بیٹھے ڈیڑھ ،2 لاکھ یا شاید 3لاکھ یا شاید10 لاکھ کے دلوں کی بات نہیں کرتی تھی۔ وہ صدا تو ہر اُس مظلو م و مقہور و مجبور کی نمائندہ تھی جو خود یا اس سے قبل اسکی نسلیں کبھی ستمگری کا شکار رہ چکی تھیں جن کے اجداد کی لاشیں 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراً بعد اتنی بڑی تعداد میں درختوں کی شاخوں سے لٹکائی گئی تھیں کہ رسی کم پڑ گئی تھی لیکن ٹھہریں! 23مارچ 1940 ء کی صبح منٹو پارک سے بلند ہونے والی پکار تو دنیا کے ہر گوشے میں بیٹھے مظلوم کی صدا تھی۔ میری اس بات کا مطلب وہ بخوبی سمجھیں گے  جنہوں نے افریقی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تاریک براعظم سے پابند سلاسل کئے گئے ابن آدم کی تجارت پر کچھ پڑھا ہے۔ جس قاری نے بھی امریکی سیاہ فام مصنف ایلیکس ہیلی کی شہرۂ آفاق کتاب ROOTS-A SAGA OF AN AMERICAN FAMILY َکا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی سمجھ جائیگا کہ استعمار کے خلاف لاہور سے اٹھنے والی آواز صرف برصغیر کے غلاموں کا مطالبہ نہیں تھی بلکہ وہ صدا نیروبی، دارالسلام ، کانگو ، برازیل، عکرہ، لاگوس اور درجنوں ایسے دوسرے شہروں کی بھی تھی جہاں سے گزشتہ 5صدیوں سے ابن آدم کو پابہ زنجیر برہنہ حالت میں ایک قابل فروخت جنس سمجھ کر اجنبی راہوں کا مسافربنادیا جاتا تھا۔ امریکی مصنف ایلیکس ہیلی نے اپنی بے نام شناخت کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ کی کتابوں میں سر کھپایا ۔ سرے سے سرا ملتا گیا اور یوں وہ اپنے اجداد کی آبائی سرزمین کھوجنے میں کامیاب ہوا۔ 2 صدیاں پہلے 7نسلیں قبل اس کا لکڑ دادا مغربی افریقی ملک گیمبیا کے جنگل میں سفید فام برطانوی آقاؤں نے پکڑا تھا۔ اُس دن اُسے بحری جہاز میں دوسرے گرفتار سیاہ فام مردوں اور عورتوں کے ہمراہ ’’نئی دنیا ‘‘ بھیج دیا گیا۔ 3ماہ کے سفر کے بعد میری لینڈ کے ساحل پر یہ بے صدا اتارے گئے اور پھر نیلام کردیئے گئے۔ نسلوں کی بیگار کا آغاز ہوا۔بھوک ، درماندگی ، جماں گسل مشقت2صدیوں تک نصیب رہے۔ انگلینڈ، ہالینڈ، پرتگال ، جرمنی ، فرانس ، سویڈن، ڈنمارک کے شکاری افریقی جنگلوں سے انسانوں کو پکڑتے اور انہیں غلام بناکر امریکی ساحلوں پر اتارتے رہے۔ 350 برس یہ قبیح کاروبار رہا ۔اس دوران میں ایک کروڑ 20لاکھ سے 2کروڑتک سیاہ فام امریکی ساحلوں پر اترے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مرنے والوں کی ضرورت پڑ گئی۔ صرف کینیا سے 2لاکھ پکڑے گئے اور سفید آقائوں  کی طرف آنے والی گولی کے آگے اپنا سینہ رکھنے کیلئے محاذوں پر بھیجے گئے۔ ایک چوتھائی کبھی نہ پلٹ سکے۔ ایلیکس ہیلی کی کتاب نے کہرام مچا دیا۔ ایک ٹی وی کمپنی نے اسکی ڈرامائی تشکیل کی اور پھر اسے قسطوں میں دکھایا گیا۔ 1977 ء میں چلنے والے اس پروگرام کو بیک وقت  13کروڑ ناظرین دیکھتے رہے۔ بعدازاں اس کتاب کا 37زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اکثر یوں ہوتا کہ جب یہ کھیل ٹی وی پر دکھایا جاتا تو کمزور دل ناظرین سسکیاں بھرتے رہتے۔ انسان پر انسان کی حیوانیت کی داستان صرف امریکہ میں سیاہ فاموں پر ہونیوالے مظالم کی نہ تھی، یہ ہراُس مظلوم کے آنسوئوں کا قصہ تھے جو کسی غیر ملکی آقا کے تشدد کا شکار ہوتا رہا تھا۔ تو جب 23مارچ  1940ء کے دن برصغیر کے مسلمان رہنمائوں کے ہراول دستے نے جناح کیپ ، شلوار اور شیروانی میں ملبوس آہنی ا رادے کے مالک محمدعلی جناح کی زیر قیادت اپنی آزادی کا مطالبہ کیا تو یہ ہر اس مظلوم کے آنسوئوں کا حصہ تھا جو کسی غیر ملکی آقا کے تشدد کا شکار ہوتا رہا تھا۔ تو جب 23مارچ 1940ء کے دن برصغیر کے مسلمان رہنمائوں کے ہراول دستے نے جناح کیپ ، شلوار اور شیروانی میں ملبوس آہنی ارادے کے مالک محمدعلی جناح کی زیر قیادت اپنی آزادی کا مطالبہ کیاتھا تو یہ ہر اُس شخص کی آواز تھی جو خود یا اسکے آبائو اجداد غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھوں بے کسی کی زندگی کا عذاب سہتے رہے تھے یا پھر انکے خاندان حالتِ بے صدائی میں ہی موت کو گلے لگاگئے تھے۔ منٹو پارک کے عظیم الشان اجتماع سے صرف 10 برس قبل محمدعلی جناح نے کچھ عرصہ لندن میں گزارا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی ذہانت، دیانت، صداقت اور صاف گوئی سے شہر کے مختلف حلقوں پر انتہائی خوشگوار تاثر چھوڑا تھا۔ سیاہ فام حریت پسند رہنما بھی ان دنوں یا تو لندن میں ہی مقیم تھے یا اکثر وہاں کے دورے کرتے رہتے تھے۔ 
قائد اعظم کا نام ایک خوشبو کی طرح لندن کے حلقوں کو معطر رکھتا تھا۔ قائداعظم اپنی درسگاہ لنکز ان میں وکالت کرتے تھے۔ اسکے علاو ہ وہ بڑی باقاعدگی سے برطانوی پارلیمان کے اجلاسوں کا مشاہدہ کیا کرتے تھے اور اس دوران ان سے متعد افریقی رہنما رابطے میں رہتے تھے۔ کینیا کے جو موکیناٹا ، یوگنڈا کے ملٹن ابوٹے ، تنزانیہ کے جولیس نیریرے، گھانا کے کوامے نکروما ، یہ سب سیاہ فام حریت پسند تو تھے لیکن ابھی تک آزادی کیلئے آواز بلند نہیں کرسکے تھے۔ پھر محمد علی جناح برصغیر کو پلٹے اور پھر 23مارچ 1940ء آیا اور لاہور سے گونج اٹھ گئی اور اسکے بہت جلد بعد ہزاروں میل دور بیٹھوں تک پہنچی تو انہوں نے بھی قائد اعظم کا اتباع کردیا۔ اگلی 2دہائیاں اور ایک ایک کرکے زنجیریں ٹوٹتی چلی گئیں۔1957ء میں گھانا ، 1960 ء میں کانگو، نائیجریا، کیمرون اورمالی، 1961ء میں تنزانیہ، 1962ء میں یوگنڈا، 1963ء میں کینیا اور 1964ء میں زمبیا!! تو یوں تھا کہ صدیوں سے استعمار کے ہاتھوں قتل ہوتے رہنے والا ،بے دم رہنے والا کسی رہنما پکار کا منتظر تھا۔ 23مارچ  1940ء کو اس نعرے کی لپک اٹھی تو ہزارو ںکوس دور بے جان پڑے ناامید پر گری اور بجلی بن کر اس کے رگ و پے میں سما گئی۔
1940ء کے 23مارچ کا طلوع آفتاب صرف منٹوپارک پر نہ ہوا تھا۔ وہ کرنیں تو تاریک براعظم کو بھی منور کرتی چلی گئی تھیں۔ اور وہ للکار اٹھانے والا صرف قائداعظم نہیں قائد عالم بھی تھا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں