اپنے حال میں مست ،شعور و آگہی سے بے بہرہ
عنبرین فیض۔ ینبع
کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہاں امور زندگی چلانے کے لئے ضروری قوانین نہ بنائے جائیں کیونکہ خوشحالی و ترقی کا انحصار انہی قوانین پر عمل کرنے میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عوام اور حکومت دونوں کو مل کر ملکی ترقی کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ان دونوں کے باہمی تعاون کے بغیر کسی ملک کا آگے بڑھنا اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔ حکومت قوانین مرتب کرتی ہے اورعوام ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر وہ قوانین کو در خور اعتناءنہ جانیں تو حکومت انہیں نہ صرف قوانین پر عملدرآمد کے لئے مجبور کرتی ہے بلکہ ان کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ یہی دنیا کا دستور ہے اور ہر پڑھے لکھے، ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی خوشحالی و ترقی کا راز وہاں کے عوام کی جانب سے ملکی قوانین کا احترام کرناہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں یہ چیز ناپید دکھائی دیتی ہے جو معاشرے کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
ہمارے ملک میںقوانین تو موجود ہیں، وقت اور حالات کے پیش نظر ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں مگر قانون پر عمل درآمد اس طرح نہیں ہوتا جس طرح کیا جانا چاہئے ۔ حکمرانوں سے لے کر ایک عام شہری تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یوں تو دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے میں کوئی پیچھے نہیں مگر سب کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ بحیثیت شہری ہمارا کردار وطن کیلئے کیسا ہے۔ ہم اچھی باتوں کو خود پر لاگو نہیںکرتے البتہ تنقید اور مخالفت برائے مخالفت میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔
مہنگائی کے طوفان سے پہلے ہی ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے۔ نفسانفسی کے اس دور میںہر کوئی بس اپنے ہی حال میں مست ہے، دوسروں کی فکر نہیں۔ شعور و آگہی سے بے بہرہ،ذمہ داری نام کی چیز ناپید ہوچکی۔ کیا غلط ہے کیا صحیح ، کوئی فکر نہیں۔ وجہ اس کی شرح خواندگی کی کمی ہے۔ ایک طرف تعلیم نہیں تو دوسری طرف غربت نے عوام کو بے حال کیا ہوا ہے۔ جب تعلیم ہی نہیں ہوگی تو قوانین کے بارے میں معلومات رکھنا بھی قدرے مشکل ہوجائے گا۔
قوانین کا شعور ہو تو سڑک حادثات میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عوام تو دور کی بات قانون پر عملدرآمد کرانے والے خود خلاف قانون حرکت دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں جس سے شہ پاکر لوگ من مانی پر اتر آتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔ جس کی جو مرضی آئے وہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن بڑے اور خطرناک حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں کئی قیمتی جانیں تلف ہوجاتی ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں ہر سال معذور ہوکر خود پر ، گھر والوں اور ملک پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
دھنک کے صفحہ پر دی گئی تصویر دیکھ کر دو باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کسی بھی چیز کا بے جا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ہر چیز پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔چاہے وہ گاڑی ہو، جانور ہو ، موٹریا انسان، اس کی صلاحیت سے زیادہ اس پر وزن نہیں ڈالنا چاہئے۔ اگر ایسا کیا گیا تو وقت سے پہلے ہی اس کے کل پرزے جواب دے جائیں گے۔
دوسری اہم بات قانون شکنی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ مال بردار گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ سامان لاد دیاجاتا ہے یعنی ان کی استطاعت سے زیادہ ان پر وزن نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں جانوروں پر بھی ترس نہیں کھایا جاتا ۔ گدھا گاڑی وغیرہ پر اتنا وزن رکھ دیا جاتا ہے کہ گدھا بیچارہ سڑک پر ہی لیٹ جاتا ہے بعض اوقات اس سخت محنت و مشقت کے باعث اپنی جان کی بازی تک ہار جاتاہے۔ اسی طرح رکشہ جو کہ دو یا زیادہ سے زیادہ 3 افراد کی سواری ہے ، اس پر اکثر و بیشتر ایسا سامان لاد دیا جاتا ہے جس کی اس میں گنجائش ہی نہیں ہوتی۔یہ ٹریفک کیلئے مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔
موٹر سائیکلوں کو لوڈنگ گاڑیوں کی شکل دے کر انہیں سامان کی نقل و حمل کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ موٹر سائیکل پر حقیقت میں صرف دو افراد کی گنجائش ہوتی ہے لیکن ان پر بھی چار، پانچ افراد تک سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں گاہے میاں بیوی کے علاوہ ان کے نصف درجن بچے بھی کسی نہ کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ کر سرکس کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کا سفر اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈالنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ عمارتوں میں لگی لفٹ کا ہوتا ہے جن میں گنجائش سے زیادہ افراد بھر جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر لفٹ اتنا وزن لے کر استعمال بھی ہوتی رہے تو اس کی میعاد جو 10 ، 12 سا ل کی ہوتی ہے، 5 برسوں میں ہی ہمت ہار جاتی ہے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ گاڑی ہو یا جانور یا کوئی بھی چیز اس پر اتنا ہی وزن ڈالا جائے جسے آسانی سے اٹھانے کی اس میں سکت ہو۔ ذرا سی بچت کی خاطر خود کو ا ور دوسروں کو خطرے میں ڈالنا کوئی عقلمندی نہیں۔