بیٹی کی تربیت کو جز وقتی کورس نہیں سمجھنا چاہئے
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم۔شارجہ
روز ازل سے عورت کسی ایک لمحے کے لئے بھی بے یارو مددگار ، تنہا یا لاوارث نہیں رکھی گئی۔جب دنیا کی سب سے پہلی عورت عالم ہست و بود میں آئی تو اس کا سرپرست اعلیٰ اس کا شوہر موجود تھا۔آدم علیہ السلام سے حوا علیہا السلام اور پھر اس جوڑے سے بے شمار مرد اورعورتیں پیدا ہوئے اور رشتے اور تعلق کے سلسلے شروع ہوئے جو مسلسل خاندان، برادری، قبیلے اورقوموں کی شکل میں بڑھتے جارہے ہیں۔یہ بھی اللہ کریم کی خاص نشانیوں میں سے ایک ہے۔
اب تک ہم ابن آدم کی بحیثیت شوہر ،ذمہ داریوں کی بات کرتے آئے ہیں تاہم بنت حوا کی بحیثیت بیوی، جو ذمہ داریاں ہیں، ان کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے اس لئے کہ اللہ رب العزت نے حقوق و فرائض کو توازن کے ساتھ رکھا ہے۔معاشرے کی پہلی اکائی گھر اور گھر کی پہل جس رشتے سے ہوتی ہے ان میں حقوق و فرائض کا توازن ہی وہ بنیاد ہے جس کے بر قرار رہنے سے دنیا” فساد فی الارض“ سے بچ سکتی ہے۔
آج کے دور کا بنیادی مسئلہ اچھے رشتوں کا دستیاب نہ ہونا ہے اور اچھے رشتے کی تعریف ہر کوئی اپنے نفس سے پوچھتا ہے حالانکہ رشتے کی تلاش میں وہی معیار مطلوب ہونا چاہئے جو اللہ کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما دیا ہے یعنی :
”تقوی، مال،حسب نسب، شکل و صورت“
رشتوں کی تلاش میں فی زمانہ اس ترتیب کو الٹ پلٹ کر دیا جاتا ہے یا من مانی تاویلیں پیش کی جاتی ہیں تو نتیجتاً انجام بھی الٹ جاتا ہے۔
” کفو “ کا خیال رکھنا بھی عقل و دانش کا امتحان ہوتا ہے۔اس "کفو "کی ترتیب بھی تقویٰ، مال حسب نسب اور شکل و صورت میں قائم رہے گی اور تقویٰ کا معیار ترجیح ہوگا۔
اپنی بیٹی کی پسند کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے مگر بیٹی کی پسند کو مسنون معیار پہ رکھنے کے لئے اس کی تربیت کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے۔بیٹی کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ سرپرست کی رضامندی کے بغیر اپنی آئندہ زندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتی اور سرپرست کو بھی اس بات کا پابند فرمایاگیا ہے کہ وہ بیٹی یا بہن کی رضامندی کے بغیر اس کی آئندہ زندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتا باہم افہام و تفہیم سے فریقین ایک دوسرے پراپنا نقطہ نظر واضح کر سکتے ہیں۔ضد، انا، ہٹ دھرمی مومن کا شیوہ نہیں۔اللہ کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مبارکہ کے مطابق معاملات کو سلجھانے میں برکت بھی ہوتی ہے اور امن و سکون بھی میسر آتا ہے۔
کسی عالم سے پوچھا گیا کہ میں اپنی بیٹی کے لئے کیسا شوہر منتخب کروں تو انہوں نے جواب دیا:
”جو خوف خدا رکھتا ہو،ایسے شخص کو اگر بیوی پسند آگئی تو قدر کرے گا، اگر اس کے دل کو نہ بھائی تو اللہ کریم کے خوف کی وجہ سے ظلم نہیں کرے گا“۔
بیٹی کے والدین خصوصاً ماں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بیٹی کا جہیز وہ نہیں جو وہ اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کر رہی ہے بلکہ اصل جہیز وہ تربیت ہے جو زندگی بھر اس کی بیٹی کے کام آئے گی۔ دنیاوی ساز و سامان ہمیشہ نہیں چلتا، پرانا ہو کر ناقابل استعمال ہو جاتا ہے لیکن نیک تربیت نسل در نسل چلتی ہے اور والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔
بیٹی کی تربیت کو جز وقتی کورس نہیں سمجھنا چاہئے۔ موقع و محل کے لحاظ سے بدلتے ماں کے تیور اور معاشرتی معاملات میں طور اطوار، لب و لہجہ، غیبت وحسدسے اجتناب اور پھر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے معاملاتِ زندگی کو سنت طیبہ کے مطابق رکھنے کی سعی کرتے رہنا وہ جہیز ہوتا ہے جوبیٹی کے قلب و ذہن میں قطرہ قطرہ کرکے جذب ہوتا رہتا ہے۔
بیٹی کومحض زبانی طور پر وسیع القلبی، حلم ،تحمل ، برداشت اورایثارکی نصیحت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اس کا اثر اس وقت ہوتا ہے جب بیٹی ان سب صفات کا عملی مظاہرہ اپنے والدین اور خصوصاً ماں میں دیکھتی ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اخلاصِ نیت کے بغیر کی گئی کوئی بھی نیکی صدقہ جاریہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے اثرات اولاد تک نہیں پہنچ پاتے۔