Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر

 ثانیہ نے ناز کی خوبصورت زلفوں کو الجھادیا۔ناز کی کمزوری اس کی گھنی لمبی زلفیں تھیں ۔۔ ’زلفی رانی صاحبہ۔۔۔کھانا تو دیدیں،،بہن بھوکی ہے 
 
ناہیدطاہر ۔  ریاض 
قسط  ۔3 
ثانیہ نے ابوکے سینے پرسررکھ دیا، ایسا محسوس کرنے لگی گویاخوشگوارٹھنڈی چھاؤں میں آگئی ہو۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے بیٹی۔۔۔ابو نے بھیگے لہجے میں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا۔۔۔امی بھی ایک ساتھ اللہ تعالی کا شکر ادا کررہی تھیں۔ ’انور کہاں ہے‘؟اس نے چھوٹے بھائی کے بارے میں پوچھاجو ثانیہ سے چھوٹا اور ناز سے بڑا تھا۔ ’بھائی ابھی کالج سے نہیں لوٹے‘۔ناز نے جواب دیا۔ ماحول کو جذباتی دیکھ کر ناز اپنی گھنی زلفوں کو لہراتی ادا سے کہہ اٹھی۔ ’ ثانیہ دیدی آپ سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اس غریب سینڈل کو اپنی زندگی سے رخصت کر یں۔بے چاری نے ایک سال کی وارنٹی کا بھرم رکھتے ہوئے6 مہینے کی زائد لائف سے بھی نوازا۔۔۔۔اس پر رحم کھائیں اور بیچاری کو ریٹائر ہی کردیں۔۔۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یہ بے چاری سسک کر اپنی جان دے دیگی۔۔۔۔ثانیہ کے ابو وسیم فراز نے کھل کر قہقہہ لگایا۔امی بھی اپنی ہنسی روک نہ سکیں۔ ثانیہ شرمندگی سے مسکرائی۔تمھیں پتہ ہے ،انٹرویوسے چند ساعت پہلے اس کمبخت کی سانسیں تھم گئی تھیں۔میری تو جان ہی نکل گئی۔
پھر۔۔۔کیا ہوا؟امی نے گھبرا کر ثانیہ کو دیکھا۔ثانیہ کھلکھلاکرہنس پڑی۔ 
آپ نے کوئی نسخہ آزمایا ؟؟؟ نازسراپاسوال بن گئی۔ 
ہاں میں نے جھٹ سے اپنی سیفٹی پین نکال لی اور اس وفاشعار میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوششیں کرنے لگی‘۔ثانیہ نے وضاحت کی۔ یااللہ!پھر کیا ہوا؟‘ ناز نے آنکھیں پھیلاکر اضطراب سے پوچھا۔ ’الحمدللہ کامیابی حاصل ہوئی یار!ثانیہ نے دائیں آنکھ موند کر کھلکھلادی۔۔ دیدی زندہ باد،لیکن خدا کے لئے اسے بدل لیجئے‘۔نازنے مشورہ دیا۔ ’اور تم یہ دیدی کہنا چھوڑکر باجی کہو  باجی‘۔والدصاحب نے دخل دیا ’ابو! آپ بھی ناں! پلیز پرانے دور کی بات نہ کریں‘۔وہ زچ ہوکربولی۔ 
یہ پھر شروع ہوگئی۔آپ لاکھ کہیں یہ اپنی ہی کرے گی‘۔
امی ماتھے پرہاتھ مارکربولیں۔ ’امی پلیز‘!نازنے امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر اپنا چہرہ ان کے چہرے سے قریب کرلیا۔ ’اب باتیں ہی کرتی رہوگی یا بہن کو کچھ کھانے کو بھی دوگی۔ بھوک سے اس کی جان نکلی جارہی ہوگی‘۔ 
سچ میں امی۔۔۔!ثانیہ نے ناز کی خوبصورت زلفوں کو الجھادیا۔ناز کی کمزوری اس کی گھنی لمبی زلفیں تھیں جنہیں کسی کو چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ ’پتہ نہیں آپ کو میری زلفوں سے کیا دشمنی ہے۔ بس پیچھے ہی پڑی رہتی ہیں‘۔ناز نے مصنوعی غصہ دکھایا۔ ’زلفی رانی صاحبہ ،اب جلدی سے جا ئو اور میرے لیے کھانا گرم کرکے لائو۔ثانیہ نے اسے چھیڑا۔ ’آج پھر آپ نے مجھے زلفی رانی کہا‘۔وہ بری طرح جھلا کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔  اس کے ساتھ والدین بھی ہنس دیئے۔پھر وہ ابو کو انٹرویو کی تفصیل بتانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ نے جب آفس میں قدم رکھا تو شومیء تقدیر سب سے پہلے اسی مغرورشخص سے سامنا ہوگیا۔وہ شاید بہت جلدی میں گھوما تھا جواس سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گیا۔دوسرے ہی پل غیرشعوری طورپراس نے اپنے ہاتھ رخسار پر رکھ کرثانیہ کو دیکھا۔ اس عمل پر ثانیہ بے اختیار  مسکرادی۔
’استغفراللہ ! وہ جھنجھلاگیا۔ثانیہ کی رگوں میں میں عجیب سی لہر دوڑ گئی۔وہ سر کو خفیف انداز میں جھٹکا دیتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
’السلام علیکم‘۔اس نے وہاں موجود پروفیسر کیساتھ پرنسپل کی خدمت میں نذرانہ سلام پیش کیا۔ پرنسپل عارف حسین نے مسکرا کر اس کا خیرمقدم کیااور اسٹاف کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔’یہ محترمہ ثانیہ وسیم فراز ہیں۔سوشیالوجی کی نئی پروفیسر۔!انھوں نے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کیا ہے اور یہ گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں۔
’خوش آمدید‘۔تمام اسٹاف ممبران نے ایک ساتھ آواز بلند کی۔
’سر اس عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں۔بہت شکریہ،نوازش‘۔ اس کے لب مسکرارہے تھے۔
  ’چلیے محترمہ ہم آپ سے اپنے معزز اسٹاف ممبرز کا تعارف کروادیتے ہیں‘۔
’یہ ہیں پروفیسر علیم۔ یہ انگریزی کے پروفیسر ہیں‘۔
’مس ندا فاروقی اردو ادب پڑھاتی ہیں‘۔
 پروفیسر عارف،پروفیسر جعفر نوازسمیت تقریبا 12 پروفیسرز کاتعارف کروانے کے بعد آخر میں اس دشمن جاں کی باری آئی۔
 ’ مس ثانیہ، یہ مسڑ رضا احمد ہیں۔حیاتیات پڑھاتے ہیں۔نہایت ذہین وفطین ہیں۔انھوں نے امریکہ میں اپنی پڑھائی مکمل کی ہے اور۔۔۔۔۔
   ’سر میرے خیال میں آج کے لیے اتنی تعریف کافی ہے۔موصوفہ ہضم نہ کرپائیں تو مشکل ہوگی……‘اس نے درمیان میں بات کاٹ دی۔یہ سن کرثانیہ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اس نے خودپرقابوپانے کی خاطر سختی سے ہونٹ بھینچ لیے۔رضا اس کے سرخ ہوتے ہوئے  چہرے کودیکھتا  رہا۔
  ’یہ تو گل کے ساتھ نار بھی ہے یعنی گلنار۔!!! اسکی یہ بدبداہٹ ثانیہ نے سن لیا‘۔ جواب میں اس نے اپنی نظریں جھکا لی۔گھنی پلکوں کی چادر اوڑھے سیاہ آنکھیں قیامت ڈھارہی تھیں بے حد د ل فریب انداز تھا،وہ جیسے اس مہ جبیں کے سحر میں گرفتار ہوتا چلاگیا۔پتہ نہیں کیوں یہ قربت عجیب سی سرشاری بخش رہی تھی۔ دوسرے ہی پل اس نے وجود کے اس مہکتے احساس کوپرے جھٹکا اور اپنا مضبوط ہاتھ ثانیہ کی جانب بڑھادیا۔ لیکن ثانیہ نے اس دوستی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو یکسر نظرانداز کر دیا اورآگے بڑھ گئی۔
’اتنا غرور‘۔کچھ دیر پہلے ثانیہ کا حسین قرب رضا کو بھلا لگ رہا تھا،اب وہ ناگواری کی چادر اوڑھ چکا تھا رضا نے تیز نگاہوں سے ثانیہ کو دیکھا اور وہاں سے چلاگیا۔وہ رضا کو یوں غصے سے بْھنّاکرجاتے ہوئے دیکھتی رہی۔پتا نہیں کیوں اس کے دل پر عجیب سی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔        (باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: