اس نے ثانیہ کی مفلسی کو نشانہ بنایا، پاؤں ٹوٹی چپل سمیت آہستہ سے گھسیٹا، خاموشی میں " چررر" کی آواز ابھری تو لگا جیسے کسی نے اسکی غریبی پر تضحیک آمیز قہقہہ لگایا ہو
ناہید طاہر۔ ریاض
قسط2
وہ حیرت زدہ چہرے کے ساتھ کھڑی رہی۔ بیٹھئے۔۔۔! ایک ممبر نے نرمی سے کہا تو اس نے اپنے ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور پاؤں کو ٹوٹی چپل سمیت آہستہ سے گھسیٹا کیونکہ اس کی مجبوری تھی۔خاموشی میں ' چررر' کی آواز ابھر ی تو لگا جیسے کسی نے اس کی غریبی پر تضحیک آمیز قہقہہ بلند کیاہو۔اس نے محسوس کیا کہ سامنے موجود شخص کے چہرے پر بھی طنزیہ مسکان پھیل گئی۔چند لمحے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
آپ کا نام۔۔۔؟ وہ پوچھ رہا تھا جبکہ سامنے ہی اس کی سی وی کے صفحات بکھرے ہوئے تھے۔
جی ثا نیہ وسیم فراز۔! اس نے قدرے گھبراہٹ سے جواب دیا۔
’ جی ! آپ کا سر نیم ہے ؟اس شخص کی شوخی عروج پر تھی۔
جی نہیں۔ ثانیہ نے اس کی شرارت کو بھانپ لیا۔ ایک اور صاحب جو ثانیہ کی ایم ‘ اے ، پی ایچ ڈی ، ڈگریوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے خاصے خوش نظرآرہے تھے۔ اپنی پروقار مسکان کے ساتھ گویا ہوئے۔۔"ماشا اللہ آپ تو گولڈ میڈلسٹ ہیں۔۔۔۔!!! "اس توصیف پر وہ کِھل گئی۔ " کیا ہم جان سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں صرف درس و تدریس کو کیوں اہمیت دی؟ ایک ممبر نے سوال داغا۔
’’سر تدریس میرا دیرینہ خواب تھا۔‘‘ عجلت سے دیا گیا جواب تھا۔ جس کی وجہ سے دوبارہ اس شخص کے چہرے پر مضحکہ اڑاتی مسکان کا سبب بنا۔ وہ پہلو بدلتے ہوئے طنز سے گویا ہوا۔
بہت خوب!!! انٹرویو پر موصوفہ خوابوں کی باتیں کرتی ہیں۔ اگرخواب ہی دیکھنا مقصد تھا،تو کوئی شاہی خواب دیکھ لیتں ،جیسے۔۔۔! ہاں جیسے کسی سلطنت کی خوبصورت راجکماری جس کی بیش بہا جوتیاں آنکھوں کو خیرہ کررہی ہیں۔۔۔۔ !!!اس کااشارہ ثانیہ کی ٹوٹی چپل کی جانب تھا۔شاید اس نے ثانیہ کی مفلسی کو نشانہ بنایا تھا۔ ثانیہ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔اس بے معنی گفتگو پر ایک ممبر نے تیز نگاہ سے اس شخص کو دیکھا۔
رضا احمد۔۔۔۔! پلیز کبھی تو سنجیدگی اختیار کیا کریں۔
کوئی بات نہیں سر۔۔۔دراصل میری خستہ چپل کو نشانہ مذاق بنایا گیاہے۔۔۔۔۔یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔ دراصل یہاں دیرینہ خواب کا خلاصہ کرتی چلوں، معمولاتِ زندگی پر سوچنا اور اس کے تحت منصوبہ بندی کرنا بھی ضروری ہے۔میں نے بہت سوچنے کے بعد درس وتدریس کا میدان چنا۔۔۔۔اسی کومقصدِحیات بناتے ہوئے ایم اے ان سوشیالوجی کیا۔ اس پر ٹاپ کیا تو ملازمت کی تلاش کے دوران پی ایچ ڈی جوائن کرلی۔۔۔۔پی ایچ ڈی بھی مکمل ہوئی لیکن کوئی ملازمت نہ مل سکی۔۔ بیروزگاری ، ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر بات کرنا اس وقت کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔خیرایک اور کوشش کا جذبہ لئے آپ تمام کے آگے بیٹھی ہوں۔۔۔رہی اس پیشے کی بات تو میرا ماننا ہے ایک خاتون کے لئے تدریس سے عمدہ و بہتر کوئی دوسرا پیشہ نہیں ہوسکتا۔ ایک تو قدرت نے اس کی فطرت کو اس بے بہا ہنر سے نوازا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر نفس کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتا ہے۔۔۔۔اور میری آگہی میں یہی ایک پیشہ نہایت پروقار اور خاصا عزت بخش بھی۔!!! استاد ایک ایسی ہستی ہے جسے اللہ نے قوم کو سنوارنے کی قوت بخشی ہے۔وہ بنا رکے تسلسل کے ساتھ کہتی چلی گئی۔ایک لمحہ کے لئے اس شخص کی آنکھیں حیرت سے پھیل سی گئیں۔
عمدہ خیالات !۔سبھی ممبرز نے تالیوں سے استقبال کیا۔ اس کے حوصلے لوٹ آئے تھے اور وہ مضبوط لہجے میں ہر سوال کا جواب دیتی چلی گئی۔تما م احباب اس کی تیز ذہانت ، متعین اور شگفتہ گفتگو سے کافی متاثر ہوئے۔کافی غور وخوض کے بعد ایک سینئر ممبر نے ثانیہ کی تعلیم اور اسکی ذہانت سے خوش ہوتے ہوئے اسی وقت تقرری نامہ کا حکم جاری کیا۔ثانیہ نے تشکر آمیز لہجے میں تمام ممبرز کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔بے پناہ خوشی ومسرت سے اس کاچہرہ سرخ ہوگیا تھا۔۔۔ان خوبصورت رنگوں کی قوس قزح سے جھلملاتے عکس چہرے پرنمایاں تھے جن پر سامنے براجماں شخص کی سیاہ وگہری نگاہیں منجمد ہوکر رہ گئیں۔ گھر پہنچ کرثانیہ نے ملازمت ملنے کی اطلاع والدین کو سنائی تو امی فرط مسرت سے اس کو گلے لگا کر بے اختیار روپڑیں۔۔ابو کی آنکھوں کے گوشے بھی بھیگنے لگے۔وہ دھیرے سے مسکرائی اور امی کی آنکھیں خشک کرتی ہوئی ابو کے سینے پرسررکھ دیا، ایسا محسوس کرنے لگی گویاخوشگوارٹھنڈی چھاؤں میں آگئی ہو۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے بیٹی۔۔۔ابو نے بھیگے لہجے میں شکرادا کیا۔۔۔امی بھی ایک ساتھ اللہ تعالی کا شکر ادا کررہی تھیں۔ ’انور کہاں ہے‘؟اس نے چھوٹے بھائی کے بارے میں پوچھاجو ثانیہ سے چھوٹا اور ناز سے بڑا تھا۔ ’بھائی ابھی کالج سے نہیں لوٹے‘۔ناز نے جواب دیا۔ ماحول کو جذباتی دیکھ کر ناز اپنی گھنی زلفوں کو لہراتی ادا سے کہہ اٹھی۔ ’ ثانیہ دیدی آپ سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اس غریب سینڈل کو اپنی زندگی سے رخصت کر یں۔بے چاری نے ایک سال کی وارنٹی کا بھرم رکھتے ہوئے 6 مہینے کی زائد لائف سے بھی نوازا۔۔۔۔اس پر رحم کھائیں اور بیچاری کو ریٹائر ہی کردیں۔۔۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یہ بے چاری سسک سسک کر اپنی جان دے دیگی۔۔۔۔ابو وسیم فراز نے کھل کر قہقہہ لگائے۔امی بھی اپنی ہنسی روک نہ سکیں۔ ثانیہ شرمندگی سے مسکرائی۔تمھیں پتہ ہے ناز! انٹرویوسے چند ساعات پہلے اس کمبخت کی سانسیں تھم گئی تھیں۔میری تو جان ہی نکل گئی۔
پھر۔۔۔کیا ہوا،امی نے گھبرا کر ثانیہ کو دیکھا۔ثانیہ کھلکھلاکرہنس پڑی۔
آپ نے کوئی نسخہ آزمایا ؟؟؟ نازسراپاسوال بن گئی۔ میں نے جھٹ سے اپنی سیفٹی پین نکال لی اور اس وفاشعار میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کرنے لگی‘۔ثانیہ نے وضاحت کی۔ یااللہ!پھر کیا ہوا؟‘ ناز نے آنکھیں پھیلاکر اضطراب سے پوچھا۔ ’’الحمدللہ کامیابی حاصل ہوئی یار!ثانیہ شرارت سے دائیں آنکھ موند کر کھلکھلائی۔۔ دیدی زندہ باد،لیکن خدا کے لئے اسے بدل لیجئے‘۔نازنے مشورہ دیا۔ ’اور تم یہ دیدی کہنا چھوڑکر باجی کہو باجی‘۔والدصاحب نے دخل دیا ’ابو! آپ بھی ناں! پلیز پرانے دور کی بات نہ کریں‘۔وہ زچ ہوکربولی۔ ’یہ پھر شروع ہوگئی۔آپ لاکھ کہیں یہ اپنی ہی کرے گی‘۔امی ماتھے پرہاتھ مارکربولیں۔ ’امی پلیز‘!نازنے امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر اپنا چہرہ ان کے چہرے سے قریب کرلیا۔ ’اب باتیں ہی کرتی رہوگی یا بہن کو کچھ کھانے بھی دوگی۔ بھوک سے اس کی جان نکلی جارہی ہوگی‘۔ سچ میں امی۔۔۔!ثانیہ نے ناز کی خوبصورت زلفوں کو الجھادیا۔ناز کی کمزوری اس کی گھنی لمبی زلفیں تھیں جنہیں کسی کو چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ ’پتہ نہیں آپ کو میری زلفوں سے کیا دشمنی ہے۔ بس پیچھے ہی پڑی رہتی ہیں‘۔ناز نے مصنوعی غصہ دکھایا۔ ’زلفی رانی صاحبہ ،اب جلدی سے جائو اور میرے لیے کھانا گرم کرکے لا ئو‘۔ثانیہ نے اسے چھیڑا۔ ’آج پھر آپ نے مجھے زلفی رانی کہا‘۔وہ بری طرح جھلا کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ والدین بھی ہنس دیئے۔پھر وہ ابو کو انٹرویو کی تفصیل بتانے لگی۔ ( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭