مریم نواز نے ایک نیا محاذ کھول لیا…!
7ماہ پہلے بھی احتساب عدالت کی کارروائی براہ راست دکھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، عدالت نے سوال کیا تو خاموشی اختیار کرلی گئی تھی
* * * *
صلاح الدین حیدر ۔ ۔ بیورو چیف-کراچی
* ** *
مریم نواز نے جنہیں اب ملک میں خاصی شہرت حاصل ہوگئی ہے یہ کہہ کرکہ احتساب عدالت کی کارروائی ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے۔ ایک نیا محاذ کھول لیا ہے، ان کے ٹوئٹ کے چند لمحوں بعد ہی تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے اس بات کا خیر مقدم کرتے ہوئے شریف خاندان کو چیلنج کیا کہ وہ بولنے سے پہلے الفاظ کو تول لیتیں۔ ’’ہمیں تو بہت خوشی ہوگی کہ عدالتی کارروائی ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائی جائے۔ قوم کو پتا چل جائے گا کہ نواز شریف اور اہل خانہ کے خلاف انکوائری سچائی پر مبنی ہے ۔ مریم اور ان کے والد محترم اعلی ٰ عدالتوں اور افواج پاکستان پر پچھلے کئی مہینوں سے لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں ۔ یہ تو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے ججوں کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور صرف آئین اور قانونی نکات پر ہی بحث کو محدود رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ عوام الناس میں ان کی عزت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ عدالتوں کا عزت و وقار دگنا ہوگیا ہے۔
فواد چوہدری نے یاد دلایا کہ نواز شریف نے پہلے بھی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جو ان کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں پچھلے 7 مہینوں سے مصروف عمل ہے، کی کارروائی ٹیلی وژن پر براہ راست دکھانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن جب عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا واقعی ایسا چاہتی ہیں، تو نواز اور مریم دونوں نے چپ سادھ لی۔ آج وہ پھر اسی مطالبہ کو دہرا رہے ہیں۔ میں صرف ان سے یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا وہ واقعی سنجیدہ ہیں، ایک دفعہ پھر سوچ لیں۔ اگر عدالت نے ان کا مطالبہ منظور کرلیا تو کہیں وہ پھر سے اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور نہ ہوجائیں۔
مبصرین اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ نواز شریف کرپشن کے بارے میں لگائے گئے الزامات کے جواب دینے کے بجائے،الٹا عمران خان اور دوسرے تنقید کرنے والوں کو نت نئے خطابات سے نواز نے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔سوال کچھ ، جواب کچھ، لیکن یہ تو شرو ع سے ہی شریف خاندان کاشیوہ رہاہے تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نواز شریف کے انتخابی نعروں میں کئے گئے وعدے وعید یکسر غائب نظر آتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران (ن) لیگ کے سربراہ نے جنہوں نے اب پارٹی کے صدر کہلانے کے بجائے قائد کا ٹائٹل خودسے منسوب کروا لیا ہے وعدہ کیا تھا کہ معیشت کا پہیہ چلانے والے اداروں مثلاً پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل ،آئل، گیس ، ڈیولپمنٹ آرگنائزیشنز، پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن ، (PIDC ) کے لئے دنیا بھر سے بہترین ماہرین تلاش کرکے انہیں دوبارہ فعال بنائیں گے تاکہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے مگر کاش ایسا ہوتا۔ نواز شریف جو کہ اپنے دوسرے اقتدار میں موٹر وے بنانے پر ہی ساری قوت صرف کرتے نظر آتے تھے، ایک دفعہ پھر اسی راہ پر چل پڑے۔ انہیں دوسرے دورے اقتدار میں اس وقت کے وزیرخزانہ سرتاج عزیز نے منصوبے پر فضول خرچی سے تعبیر کیا تھا اور مزید پیسے دینے سے انکار ی نظر آتے تھے، نتیجتاً ان کے درمیان تناؤ کی کیفیت صاف دکھائی دینے لگی۔آج بھی سی پیک کا ہی چرچا تھا، جس کی اہمیت نواز شریف کو نہ اہل قرار دئیے جانے کے بعد کسی قدر کم نظر آنے لگی ہے۔ منصوبے پر پاکستانی تجارتی برادری نے بھی اعتراض اٹھائے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ آئندہ اسے کتنی اہمیت حاصل رہے گی۔
پاکستان اسٹیل مل جو کہ ملک صنعت و حرفت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت کی حامل ہے، کانہ صرف برا حال ہے، بلکہ وہاں تو کام ہی بند ہوگیا ہے، اب پاکستان کو لوہا اور اسٹیل درآمد کرنے پر اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے، سابق وزیرخزانہ، نامور بینکر اور ماہر معاشیات شوکت ترین نے تو اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ملکی خزانے میں بیرونی سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔معیشت بے حد کمزور ہو چکی ہے، وہ آج کل وزیر خزانہ کی ماہرین کی کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے حکومت میں آنے کے بعد مشیر خزانہ مفتاح اسمعیل کی اہمیت خود بخود کم ہوگئی ہے۔ پی آئی اے کا برا حال ہے۔ قومی ایئر لائن میں جہازوں کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔ پی آئی اے نے جس پر 80 ارب سے زیادہ قرضہ ہو چکا ہے۔ اپنے کئی ایک منافع بخش روٹس ختم کردئیے ہیں۔ لندن جیسے روٹ تک میں بڑی حد تک کمی کرد ی گئی حالانکہ لندن پی آئی اے کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش روٹ تھا، پی آئی اے کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے کئی ایک بیرونی ایئر لائن نے ان روٹس پر قبضہ جما لیا ہے اور ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ پاکستانی مسافروں کی بہت بڑی تعداد اب امریکہ اور یورپ کے لیے ان پر انحصار کرتی ہے۔ ملکی خزانے پر اس کا بوجھ کس قدر شدید ہوگا، اس کا اندازہ با آسانی سے لگایا جاسکتاہے۔ کوئی بھی قومی ایئر لائن ملک کی بیرونی دنیا میں بہترین سفیر ہوتی ہے۔ افسوس کہ پی آئی اے نے نیویارک کی سروس بند کردی، اور یورپ کے کئی روٹس بھی اس کی فہرست سے غائب ہیں، تو پھر پی آئی اے جو ایک زمانے میں پاکستان کی پہچان تھی، اب قومی خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔ ابھی تک اس کا تدارک کیا گیا ناہی مستقبل قریب میں ایسی کسی کوشش کی توقع ہے۔ نواز شریف ہر بات سے آنکھیں بند کرکے بس صرف ایک ہی راگ الاپتے ہیں’’ مجھے کیوں نکالا ۔‘‘ یہ کب تک چلے گا، سپریم کورٹ میں آپ کے خلاف پانامہ لیکس کا قصہ تقریباً ختم ہے، اس کے بعد آپ کا کیا انجام ہوگا ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
پی آئی اے کو ناکام ایئر لائن قرار دیئے جانے کے بعد لندن، نیو یارک اور جدہ جیسے منافع بخش روٹس پر ایک نجی ایئر لائن نظریں جمائے بیٹھی ہے، جو کہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان ہونے والی شخصیت کی ملکیت ہیٹ ملکی مفاد کا سودا اتنی آسانی سے کیا جارہا ہے کہ اب تو ذکر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ دونوںہاتھوں سے ملک کی دولت لوٹی جارہی ہے۔ پانامہ لیکس سے کوئی فرق نہیں پڑا، تو پھر بقول غالب کہ
روئیے زار زار کیا
کیجئے ہائے،ہائے کیوں
اور چارہ بھی کیا ہے، بے چارے عوام صرف خاموش تماشائی ہی بن سکتے ہیں۔ جہاں تک مریم صاحبہ کا تعلق ہے اُن کے بارے میں تو کتاب لکھی جا سکتی ہے، لیکن ان کی کہانی لکھتے ہوئے تحریر کنندہ کو بھی شرم آتی ہے۔ایک ضدی لڑکی جو FA کا امتحان پاس کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل کے پاس داخلے کے لیے پہنچتی ہے تو یہ جان کر کہ وہاں داخلے کیلئے کم ازکم 900 نمبروں کی ضرورت ہے جب کہ اس لڑکی کے صرف 600 نمبر ہیں، اسے انکار کردیا جاتا ہے۔ وہ کالج کے پرنسپل کو یہ کہہ کر کہ روک سکتے تو روک لو باہر نکل جاتی ہے، اس کے والد محترم جن کی مری میں اچھی خاصی جائیداد ہے اور وہ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے مری کے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا اور دوسرے ہی دن وہاں سے ان کا تبادلہ کنگ ایڈورڈ کالج کر دیا گیا جو کہ لاہور کے اس مشہور مقبول کالج کی تاریخ میں واحد واقعہ تھا۔