معاشروں میں ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر نظام کو چلایا جاتا ہے
* * * * محمد مبشر انوار
* * * *
قیادت ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ سب کیلئے ممکن ہے کہ وہ قیادت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں۔فطرت انسانی کے عین مطابق ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ نہ صرف اس کی تائید ہو بلکہ لوگ اس کی پیروی بھی کریں لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ انسان بنیادی طور پر آزادی پسند ہے اور اختلاف بھی اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ ان اختلافات کی موجودگی میں بالعموم معاشروں میں ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر نظام کو چلایا جاتا ہے اور نہ صرف باہمی امور بلکہ امور مملکت سر انجام دئیے جاتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کچھ انسانوں کوقیادت کے جرثومے پیدائشی طور پرودیعت کر دئیے جاتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ،حالات کے مطابق نشو و نما پاتے ہیں اور انسان اپنے حلقۂ احباب میں اپنی حیثیت کے مطابق قیادت کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام قائدین کا کردار مثبت ہی ہو بلکہ کچھ انسانوں میں فطری منفی رجحان کے باعث ان کا کردار بحیثیت قائدبھی منفی ہی رہتا ہے کہ وہ حالات کے مطابق اپنی اس خداداد صلاحیت کو معاشروں میں بگاڑ کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ فطرتاً مثبت رجحان کے حامل قائدین معاشرے پر اپنے انمٹ نقوش صدیوں تک نقش کر دیتے ہیں۔ایسے مثبت رجحان کے حامل افراد کا نام تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا ہے اور وہ رہتی دنیا تک ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہوئے آنیوالے افراد کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ قیادت بنیادی طور پراصول پرستی ، انتہائی فہم و فراست ،کردار اور معاملہ فہمی کا تقاضا کرتی ہے،ہمت و جوانمردی اس کا بنیادی جزو تصور ہوتے ہیں۔مشکل حالات میں صف اول میں رہتے ہوئے اپنے اصولوں پر جان نچھاور کرنے کی ہمت کا تقاضا کرتی ہے۔قائد بذات خود اپنے پیروکاروں کیلئے ایک ’’رول ماڈل ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قیادت کوئی ایسی شے نہیں جو بازار سے ملتی ہو اور نہ ہی ایسی ارزاں ہے کہ زبردستی گھول کر کسی کو پلا دی جائے یا کسی ایسے نا اہل شخص کو تربیت دیکر قیادت کے سنگھاسن پر براجمان کرایا جائے جس کی اہلیت و قابلیت بذات خود سوالیہ نشان ہوںیا اسکے پیچھے بیٹھے کچھ اور لوگ پتلی تماشہ کا کھیل رچا رہے ہوں۔ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہو گا کہ مذکورہ قائد حقیقتاً اپنے اصولوں کی آبیاری کر رہا ہو گایا اس کی آڑ میں چھپے کچھ خفیہ ہاتھ اپنے مفادات کے حصول میں مشغول کار ہوں گے؟ بالفرض ایسا کو ئی بھی شخص اگر قومی قیادت کے منصب پر براجمان ہو تو کیا وہ اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ کر پائیگا یا اپنی قوم کو غیروں کے ہاتھ بیچے گا؟زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اہلیت و قابلیت سے عاری ایسا شخص یقینی طور پر اپنی حیثیت کے بدلے وہی کریگا جس کا حکم اسے دیا جائیگا کہ بنیادی طور پر ایسا شخص اس قابل ہی نہیں کہ وہ معاملات کو گہرائی میں جا کر دیکھ سکے،ان کے ما بعد اثرات کا جائزہ لے سکے،کم ازکم اپنی رائے ہی رکھے تا کہ وہ تصویر جو اسے دکھائی جا رہی ہے اسکے پیچھے کیا راز ہیں انہیں سمجھ ہی سکے۔ آج کے دور میں یہ ناقابل تردید حقائق ہیں اور ایسے ثبوت و شواہد بھی موجود ہیں کہ کیسے عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر نا اہل افراد کو مختلف ممالک (بالعموم تیسری دنیااور بالخصوص مسلم ممالک )میںپروان چڑھاتی ہیں تا کہ اپنے مفادات کا تحفظ کیاجا سکے یا ایسے اہل مگر ’’برائے فروخت‘‘ افراد کو خرید لیا جائے جن کی آواز عوام میں سنی جاتی ہو،عوام انکی آواز پر لبیک کہتے ہوں،ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوںاور جو اپنی قوم کے مفادات کو بیچنے میں کسی تامل یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوں۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت سے طریقے رائج ہیں جن میں مقامی مقتدرہ اپنے اقتدار کی خاطر مقبول قیادتوں کے سامنے ایسی قیادت تیار کرتی ہے جس کا منشوروہ خود طے کرتی ہے،اسکے اصول و ضوابط وہ بناتے ہیں،ان اصول و ضوابط پر عمل درآمد خود کرواتے ہیںجبکہ سامنے فقط ایک ڈمی کردار رکھا جاتا ہے،جس کا کام فقط نمائشی ہوتا ہے۔ ایسے قائدین کا پسندیدہ ترین مشغلہ فقط اقتدار میں رہتے ہوئے اقتدار کی آسائشوں سے محظوظ ہونے کے علاوہ اختیارات کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے ذاتی اثاثہ جات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے جو بعد ازاں متعین کردار ختم ہونے پرشدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیںجس کا مظاہرہ آج بھی مشکلات میں پھنسے دنیا کے مختلف حکمرانوں کی صورت نظر آ رہا ہے جبکہ پس پردہ ہدایتکار کسی نئے شکار کو متعارف کرنے میں مصروف کار نظر آتے ہیں۔ پس پردہ ایسے ہی ایک اور کھیل کا افتتاحیہ آج کل بھی جاری ہے۔ بظاہر جمہوریت کے دلدادہ مگر ہوس اقتدار کے مارے مغربی اور بالخصوص اقوام عالم کا اکلوتا تھانیدار امریکہ بہادرپاکستان میں ایک نئی قیادت متعارف کروانے میں کوشاں ہے۔ ایک ایسی قیادت جس کی تربیت ایک مخصوص انداز اور ذہنی اپروچ کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے کی جا رہی ہے،اسکے منہ میں اپنے الفاظ رکھے جا رہے ہیں،اس کی تربیت میں شاتمین رسول ؐ اور غیر مسلمین شامل ہیں،جن کا مطمع نظر فقط توہین رسالت ہی نہیں بلکہ بنیادی اسلامی عقائد پر کاری ضرب لگانا ہے تا کہ عقائد سے بے بہرہ مسلمان ہی کرہ ارض پر ان کے تابع مہمل بن کر جئیں۔مغرب کی اندھی تقلید میں مصروف کچھ خود ساختہ روشن خیال اور لبرل ازم کا شکارلاعلمی میں ایسے کرداروں کی تعریف و توصیف میں مشغول اپنے ہی ساتھیوں کو قائل کرتے نظر آتے ہیں کہ ملالہ کو ملنے والا نوبل پرائز درحقیت پاکستان کا اعزاز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے دوستوں کو یہ نظر کیوں نہیں آتا کہ ایسا نوبل پرائز ان شخصیات کو کیوں نہیں دیا جاتا جنہوں نے حقیقتاً معاشرے کی خدمت میں اپنی جانیں تک نثار کر دیں؟ایسے سیکڑوں پاکستانی انہیں نظر کیوں نہیں آتے جنہوں نے اپنی زندگیاں معاشرے کی خدمت میں صرف کئے رکھی مگر تعریف و توصیف ایک ایسی لڑکی کیلئے،جس کی اپنی کوئی سوچ بھی واضح نہیں اور جو ملک کے ایک دور دراز علاقے میں غیر معروف زندگی گزارتی رہی؟ کیا یہ واضح نہیں کہ اس سارے کھیل کے پیچھے اس کا باپ موجود رہا ،جو استعمار کے گماشتوں سے براہ راست رابطے میں رہااور جو بھی ان گماشتوں نے اسے سکھایا،وہی اس نے ذرائع ابلاغ میں کہہ دیا؟اس نے کبھی بھی ملک سے متعلق اپنے خیالات کو نہیں چھپایا کہ یہی وہ خیالات تھے جو پہلے سے اسکے ذہن میں موجود تھے اور انہی خیالات کے بل بوتے پر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے وہ استعماری گماشتوں کا آلہ کار بنا۔کیا ملالہ میں کوئی ایک قائدانہ وصف بھی موجود ہے؟جس کی بنیاد پر اسے وطن واپسی پر اتنی پذیرائی ملے؟اس کا کون ساایسا کارنامہ ہے کہ اسے یوں سر پر بٹھایا جائے؟اس سے کہیں زیادہ با ہمت اس کی وہ سہیلیاں ہیں جو اس متنازعہ حملے کے باوجوداسی علاقے میں ہنوز زیر تعلیم ہیں۔ لاکھ درجے بہتر وہ بہادر بچہ اعتزاز ہے،جس نے اپنے اسکول کے بچوں پر ابنی جان نثار کردی۔کروڑ ہا درجے بہتر وہ استاد ہے جو اپنے اسکول کے بچوں کو بچانے کی خاطر بپھرے دریا میں اتر گیا۔کیسے فراموش کر دوں اے پی ایس کی وہ پرنسپل جو سینہ تان کر اپنے اسکول کے بچوں کی خاطر دہشتگردوں کے سامنے کھڑی ہو گئی اور کیسے بھول جاؤں اس استانی کو جس نے بچوں کو بچانے کیلئے جلتی وین میں چھلانگ لگا دی؟مغربی جمہوریت و آزادیٔ اظہار کے دلدادواس ملک پر رحم کرو!یہاں حقیقی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والو،حقیقی جمہوریت کبھی مصنوعی قیادت سے نہیں آسکتی،جس کا جو مقام ہے،اسے وہیں تک رکھو۔