Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئر مین سینیٹ کیخلاف نیا محاذ ؟

 صلاح الدین حیدر۔  بیورو چیف ۔ کراچی
 پاکستانی سیاست عجیب و غریب تماشہ کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک طرف سابق وزیرا عظم نواز شریف اور صاحبزادی مریم نواز صاحبہ پچھلے کئی مہینوں سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف زہر افشانی میں مشغول ہیں تو دوسری طرف ان کے جا نشین شاہد خاقان عباسی نے نیا محاذ کھول دیا۔ چیف جسٹس اور عدالتِ عظمی کو برا بھلا کہتے ہی تھے اب ان کا ٹارگٹ سینیٹ کے نئے چیئر مین صادق سنجرانی بنے ہوئے ہیں۔تقریبا ً روز ہی وہ ان کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی تنقید سینیٹ کے ممبران خاموشی سے سن تو لیتے ہیں لیکن نجی محفلوں میں وزیر اعظم سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔  بزرگ سیاستدان طاہر مشہدی ، جو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے 12سال سینیٹ کے ممبررہے، ایک عشائیے میں شکایت کررہے تھے کہ وزیر اعظم کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ کب پاکستان کی سیاست میں پیسہ نہیں چلا۔ ایک موجود ہ سینیٹ ممبر جو  عالم دین بھی ہیں کو کوڈ کرکے کہنے لگے ایک شخص 2012 ء میں 5کروڑ روپے لے کر سینیٹ کا ممبر بنا اور اس مرتبہ تو مجھے دہری قیمت  ادا کرنا پڑی۔ان کا نام لینے سے گزیز کرتے ہوئے طاہر مشہدی فرماتے ہیںکہ کیا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ نہیں بکتے۔ قانون ایک قومی اسمبلی کے امید وار کو 20لاکھ انتخابات پر خرچہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اب سنا ہے کہ اسے بڑھا کر 40لاکھ کردی جائے گی لیکن یہ تو قانون کے تحت ہوتا ہے۔ پس پردہ کتنے اور پیسے لگتے ہیں، ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن فیس کے نام پر پیسے تو بٹور لیتی ہیں۔ ان کے سربراہان اور اعلیٰ عہدے داران کی جیب الگ سے بھری جاتی ہے لیکن جو بات شاہد خاقان عباسی کو بہت مہنگی پڑی وہ تھی ان کی چیف جسٹس سے2 گھنٹے کی طویل ملاقات۔تحریک انصاف کے چیئر مین کا کہنا ہے کہ خاقان عباسی نے سوائے ہاتھ جوڑ کر چیف جسٹس نوازشریف کے  لئے معافی مانگنے کے اور کچھ نہیں کیا ہوگا۔ بھلا 2گھنٹے آپ اور کیا باتیں کرسکتے ہیں؟ عمران خان کو چیف جسٹس پر پورا بھروسہ تھا انہوں نے نواز شریف کو کسی قسم کی رعایت دینے سے صاف معذرت کرلی ہوگی۔ ملک کے مایہ ناز ماہر قانون سینیٹر اعتراز احسن نے بھی اس بات پر زور دیا کہ آخر2 گھنٹے سوائے منت سماجت کرنے کے اور کیا خاقان عباسی نے کیا ہوگا۔ اگر وہ قانونی اور آئینی اصلاحات پر گفتگو کرنے گئے تھے تو پھر لازم تھا کہ ان کے ساتھ وزیرِقانون ہوتے۔ اٹارنی جنرل ہوتے، وزارتِ قانون کے سیکرٹری ہوتے۔ شاہد خاقان عباسی کو کیا معلوم کہ آئین کی باریکیاں کیا ہیں۔  وہ کتنا قانون جانتے ہیں ؟  چیف جسٹس سے کیا آئین یا قانونی اصلاحات پر باتیں کرینگے۔ اگر عمران خان کے بیان کو سیاسی مخالفت سمجھ بھی لیا جائے تو بھی اعتراز احسن کے دلائل وزنی ہیں۔انہیں ردّ کرنا آسان نہیں ہوگا، شاہد خاقان عباسی نے اب تک اعتراز احسن کو جواب نہیں دیا شاید ان کے پاس ہو بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان ، جو پہلے وزیر اطلاعات ، اور امر یکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں نے بھی شاہد خاقان عباسی کو آڑے ہاتھوں لیا۔پتہ نہیں قومی سیاست کو یہ لوگ کس طرف لے  جانا چاہتے ہیں ۔ سینیٹ کے چیئرمین قابل احترام شخصیت ہیں۔  ان کے عہدے کا پاس رکھنا بھی ہم سب پر لازم ہے۔  اگر پارلیمنٹ کے ممبران ہی ایک دوسرے کو بے ایمان اور چور کہنا شروع کرد یں گے تو ان کی اپنی عزت کون کرے گا؟ نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے چیف جسٹس کی ذات پر حملے روز کا معمول ہیں، اس لئے اب اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا، اکثر مبصرین یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اگر عدالت عظمیٰ کی بے توقیری نہ رکی تو ملک میں لاقانونیت کے سوا اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔  جہاں تک چیف جسٹس کا سوال ہے، وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ مجھ پر کوئی اعتراض کرئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا کام لوگوں کو انصاف اور سہولتیں فراہم کرنا ہے جو میں جب تک عہدے پر فائز ہوں کرتا رہوں گا۔ میں جانتا ہوں میرے ریٹائر ہونے کے بعد کوئی مجھے پہچانے کا بھی نہیںِ تو پھر صرف اللہ کی ذات سے ڈرنا ہے۔ کسی اور کی کیوں پرواہ کروں۔  اس سارے فساد میں عوام الناس بہت ہی بے بسی کا شکار ہیں کہ آخر اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ 
********

شیئر: