چاروں بیویوں نے لکھا ”کچھ اور تم نہ سمجھو، یہ ہے میاں ہمارا“
پروفیسر رﺅف خوشتر ۔ بیجاپور
ہم کودیں گے،ضرور کودیں گے مگر ہم قومی، بین الاقوامی یا اولمپک کھیلوں کے میدانوں میں کودنے کی بات نہیں کررہے ۔ وہاں کے مقابلوں میں ہم کہاں کودتے ہیں؟ وہاں تو ہم شان سے گرتے ہیں۔ شاید دوسروں کو ہرا کر اُن کا دِل دُکھا کر اُن کو محروم رکھ کر گولڈ میڈل حاصل کرنا ہمیں اچھا نہیں لگتا ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں بھی سونا غیروں کے حریصانہ ہاتھوں ہی لگا تھا۔جب ایک راجاخوب سونا لُو ٹ کر لے جا تا تو وہ دوسرے راجوں کو چُپکے سے یہ بات بتلاتا کہ ہندوستان کے لوگ اپنے ملک کوسونے کی چڑیا کہتے ہیں جو غلط ہے ارے وہ تو سونے کا ہاتھی ہے۔جاو¿ تم بھی ہیرے جو اہرات اور سونے کے ڈھیر لُوٹ کر لوٹ آنا۔ کیوں کہ ” اُس دیش کی دھرتی سونا اُگلے اُگلے ہیرے موتی“ چنانچہ دوسرے راجا سونے کے ہاتھی والے ملک کے خزانے کو اپنی استعداد اور اپنے گھوڑوں کی تعداد کے مطابق لاد کر لے جاتے ۔ زمین کو یہیں چھوڑتے کہ دوسری بار پھر اس سونا اُگلنے والی زمین کو لوٹنے آناہی ہے۔ ان راجوں مہاراجوں کو سونا، ہیرے جواہرات لے جاتے ہوئے بھی ان کو پیچھے مڑمڑ کردیکھنے پر یہاں کے بے چارے مفتوح راجا اور ہر طرح سے ہارے ہوئے لوگ حسرت سے یوں کہہ اُٹھتے:
جاتے ہوئے کہتے ہو پانی پت میں ملیں گے
کیا خوب، پانی پت کا ہے گویا کوئی دن اور
کچھ ڈھیٹ قسم کے راجوں کو یہاں کی کشش ان کو یہیں رہنے پر مجبور کرتی اور وہ اسے اپنی ملکیت بنا لیتے اور یہیں کے شہری بن جاتے اور پھر مرتے وقت وہ مطم¿ن ہوتے کہ وہ اِسی خطے میں آغوش ِ زمیں ہورہے ہیں:
کتنا ہے خوش نصیب بشر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی تو ملی کوئے یار میں
اچھا تو اب ہم تاریخ کے عہد ِ عتیق سے کود کر پھر موجود ہ دور میں آتے ہیں۔ ہاں توہمارے کھلاڑی گولڈ میڈل خوشی خوشی ہارتے ہوئے جب چاندی کے تمغے جھولی یعنی بیگ میں ڈال کر واپس آتے ہیں تو سارا ملک سونا بھول کر یعنی جاگ کر اِن کا استقبال کرتاہے تو لوگ کہتے کہ اب تو ہماری چاندی ہی چاندی ہے۔تو صاحب اب ہمارے کو دنے کے میدان کھیل کے میدان نہ ہو کر سیاست ،عداوت، ہلاکت ،رقابت اور منفی تجارت کے علاوہ دوسروں کے معاملات کے میدان ہوکر رہ گئے ہیں۔
دوسرو ں کو مات دے کر بات دے کر پھر اِس سے مُکرنا ، دوسروں کے وقار سے کھیلنا اب ہمارا قومی کھیل بنتا جارہا ہے۔ اُچھالنے میں دوسروں کی پگڑیاں اُچھا لناہمیں خوب آتا ہے۔ دوسروں کے نجی معاملات میں بلا اجازت و ضرورت کو د کر اپنی ٹانگ اڑانا، دوسروں کو ستا کر ہنسی اُڑانا ہمارا محبوب و مرغوب مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ محلے کے سعادت چشتی کو ہی لے لیجئے۔ گلی کے ہر گھر اور ہر فرد کے معاملات میں اِن کے بے جاکو دنے کے سبب اہلیان مُحلہ اِن کو مداخلت ہستی اور اِن کے منفی و تخریبی طور پر ہر معا ملہ میں بالجبرکودنے کے سبب سب اِن کو ”سپرپاور“کہتے ہیں۔ سعادت میاں ہر معاملے میں دو رخے ثابت ہوئے ہیں۔ اب اِن کے نام کا معاملہ ہی لیجئے۔ ماں باپ نے غلطی سے اِن کا نام سعادت رکھا تو لوگوں نے ان کے سیاہ کار ناموں کے طفیل ان کا نام مدا خلت رکھ چھوڑ ا۔ نام سے ہٹ کر اب طعام پر آجائیے۔وہاں بھی کفایت طعامی کہئے یا پھر کسی اور مقصد کے پیش نظر یہ درونِ خانہ دال ہی کھاتے اوردال ہی پیتے ہیں لیکن باہر دعوتوں میں یہ گوشت پر ایسے جھپٹتے ہیں جیسے بھوکا شیر شکار پر ۔دورانِ طعام برائے نام چاول لیتے ہیں گویا گھر میں اُڈپی اور باہر لحمی واقع ہوئے ہیں۔اب کا م پر آئیے۔ رات بھر مشاعروں میں اشعار پر جھوم اُٹھیں گے ،دِل کھول کر دام نہیں داد دیں گے لیکن دن کا آغاز فجر کی نماز میں غیر حاضری سے ہی کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے اہل خاندان کے حالات کو چُھپائیں گے جبکہ دوسروں کے معاملات کو طشت ازبام صبح و شام کرکے اُچھالیں گے اور دخل انداز ی کرکے معاملہ کو اور بگاڑ کر ہی دم اور ان سے دام لیں گے لیکن اِن کے اندرونِ خانہ معاملات کب تک چھپے رہتے ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے اور سچ ہی کہا ہے کہ خوشبو ہویابدبو ہر حال میں پھیل کر رہتی ہے چنانچہ جب اِن کے تیسرے فرزندنے دوسری شادی کی تو یہ اپنے گھر میں مقید ہوگئے۔ نئی بہو اپنے ساتھ خوب جہیز اور سُنا ہے سونا اور نقدی بھی لے آئی جبکہ یہ کھلے عام جہیز لینے والوں کے کوستے تھے ۔ تھوڑے دن میں ہی پہلی بہو پر ظلم و ستم شروع ہوا تو اُس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور اپنے شوہر کی اور سعادت چشتی کی ساری پول کھول کر رکھ دی پھر خلع لے کر ہی دم لیا۔ تب قاضی کے احاطہ میں اُ س نے نعرہ لگایا:
تمام مرحلے سوت و میاں کے ختم ہوئے
اب اِس کے بعد ہماری نواہے آزادی
ہماری محلہ کمیٹی کا اِنتخاب ہو یا بلدیاتی ریاستی یا پار لیمانی، یہ ہر قسم کے انتخاب میں پابندی سے کو د پڑتے ہیں۔ پر چہ¿ نامزدگی پُر کرکے برائے نام انتخاب میں کھڑے ہوتے ہیں اور عملاً گھر میں بیٹھے اور سوتے رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر الیکشن میں اتنی ہی پابندی سے منہ کی کھاتے ہیں لیکن راتوں رات دوسرے اُمید واروں سے روپے بٹور کر اہلِ خاندان کے منہ کو کھلاتے رہتے ہیں۔
ایک دن حلقہ کے انسپکٹر سے سعادت نے کہاکہ ” جناب پڑوسی محلے میں نوواردشخص ہر شام شاپنگ سینٹر میں دکھائی دیتا ہے اور ہر روزوہ کسی نہ کسی کو ساتھ لئے کچھ نہ کچھ خریدنے آتا ہے۔ آپ کچھ کیجئے ۔ اِس وقت وہ شخص شاپنگ سینٹر میںخریداری کر رہا ہے۔ انسپکٹر نے کہاکہ ہم اُس کا تعاقب کر یں گے“ الغرض ان دونوں نے اس شخص کا تعاقب کیا۔ وہ ایک گھر میں داخل ہوئے تب انسپکٹر نے کہا کہ میاں یہ شاید اپنے گھر میں گئے ہیں۔ نہیں صاحب یہ کسی اور کا گھر ہے۔ آپ اس شخص کو باہر بُلایئے اور سختی سے پوچھئے۔ غرض انسپکٹر کی کرخت آواز پر وہ شخص باہر آیا۔ انسپکٹرنے پوچھا کیا معاملہ ہے سُنا ہے۔ تم روز کسی کے ساتھ گھومتے رہتے ہو۔ تب وہ شخص حیران ہو کر کہنے لگاکہ انسپکٹر صاحب میں ایک شریف آدمی ہوں، آپ مجھ پر کیسے الزامات لگا رہے ہیں پھر اس نے بتایا کہ اس کی 4بیویاں ہیں اور وہ ان کے لئے شاپنگ کرنے جاتا ہے ، اکثر کسی نہ کسی بیوی کو ساتھ لے جاتا ہے ۔اسی اثناءمیں گھر سے ایک پرچہ بھجوایا گیا جس پر لکھا تھا کہ یہ مصرع انسپکٹر کو پڑھ کر سنا دیں۔ مصرع یوں تھا :
کچھ اور تم نہ سمجھو، یہ ہے میاں ہمارا
چاروں بیویوں کی جانب سے تحریراً مطلع کئے جانے کے بعد انسپکٹرنے چشتی کو ڈانٹنا چاہا تو دیکھا کہ وہ تورفو چکر ہوچکے تھے۔ قصہ مختصراب آپ کو بستی بستی ایسے، چشتی اورگاﺅں گاﺅں ایسے سعادت ملیں گے۔ اس سے ہماری اجتماعی اخلاقی پستی کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کبھی کبھی کو دنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جیسے نیوٹن کی گود میں سیب کود پڑا تھا۔ تبھی تو دنیا والوں کو کششِ ثقل کی تھیوری کا علم ہوا۔ اگر آپ سائنسی میدان میں اس کودنے کے عمل کو مثبت سمجھتے ہیں تو پھرنیوٹن بھائی سیب والے کے ساتھ ساتھ اُس تاریخی سیب کو بھی شاباش کہیں۔