نماز اور سورۃ الفاتحہ ، جیسے جسم و روح
یوں تو صفت’’ رب‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا خلاصہ ہے لیکن جس صفت کا غلبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ’’حکمرانی‘‘ ہے
* * * * مفتی کلیم رحمانی۔ پُوسد، ہند* * *
قرآن مجید کی کسی بھی سورت اور آیت کے مفہوم و مطلب کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو خود قرآن سے سمجھا جائے کیونکہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کسی بات کو اجمالی طور سے بیان کیا گیا ہے اور دوسرے مقام پراسی بات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اسلئے قرآن مجید کی تفسیر کا سب سے پہلا اصول تمام مفسرین کے نزدیک ، قرآن کی تفسیر قرآن سے ہے جس کو الْقُرآنْ یُفسّرُ بَعْضَہُ بَعْضًا کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے ، یعنی قرآن کا بعض حصہ اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے۔ قرآن کی تفسیر کا دوسرا اصول حدیث رسول ہے جس میں اللہ کے رسول اللہ کا قول و عمل دونوں شامل ہیں، اور تیسرا اصول عمل صحابہؓ ہے چنا نچہ یہ تینوں اصول قرآن مجید کی تعلیمات کو علم و عمل کے لحاظ سے پورے طور سے واضح کردیتے ہیں اور جو قرآن مجید کو سمجھنے میںان تینوں اصولوں کو نظر انداز کردے وہ قرآن مجید کو سمجھ نہیں سکتا، چنانچہ سورئہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب تفسیر کے مذکورہ اصولوں کی روشنی میں آئندہ پیش کیا جائیگا۔
اَلْحَمدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِینْ۔یہ سورہ فاتحہ کی پہلی آیت ہے جس کے معنیٰ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
مطلب یہ کہ اس پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کی ذات حقیقی طور پر تعریف کے لائق ہے۔ اگر کوئی چیز قابل قدر ہو بھی سکتی ہے تو صرف اسی صورت میںجبکہ اس کا تعلق اللہ کی تعریف سے جڑے گا۔انسانوں میں سے انبیاء ؑ اسلئے سب سے زیادہ قابل قدر ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ اللہ کی حمد بیان کی اور انبیاء میں بھی تمام نبیوں سے افضل حضرت محمد اسلئے ہیں کہ آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ اللہ کی حمد بیان کی ۔اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کا تعلق صرف زبان سے نہیں بلکہ دل و عمل سے بھی ہے اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق ہے۔مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دن بھر زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرے لیکن زندگی کے معاملات میں اللہ کے احکام پر عمل نہ کرے تو وہ اللہ کی حمد بیان کرنے میں سچا نہیں ۔ ویسے دیکھا جائے توکائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
’’ اسی کے لئے پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو اُن میں ہیں اور کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی حمد بیان نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی پاکی بیان کرنے کو نہیں سمجھ سکتے، بیشک اللہ بْرد بار بخشنے والا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل44)۔
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایک طرح سے پوری کائنات کی آواز’’ الحمد للہ‘‘ یعنی حمد اللہ ہی کیلئے ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو سورہ فاتحہ کا پہلا کلمہ بنا کر اور اس کو نماز میں رکھ کر اہل ایمان کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی کائنات کی آواز میں آواز ملائے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ جملہ ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے کیونکہ پیدائشی طور پر انسان کا دل، دماغ، آنکھ، کان ، زبان ، ہاتھ، پیر اللہ ہی کے احسان مند اور اللہ ہی کی حمد کرنے پر مجبور ہے۔ صرف اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اختیاری طور پر اپنی مرضی سے اللہ کی حمد بیان کرے اور اختیاری طور پر اللہ کی بڑائی کو تسلیم کرے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی انسان اللہ کی حمد بیان نہ کرے تو اس کیلئے کتنا افسوس کا مقام ہے کہ کائنات کی ہر چیز تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی حمد سے منہ موڑے ہوئے ہے۔
اسی رویہ سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو قرآن مجید کا افتتاح کرنے والی سورت کے افتتاح میں رکھ دیا ہے یعنی سورہ فاتحہ کے شروع میں بلکہ اس سورت کا ایک نام ہی الحمد شریف ہے اور اس سورت کو نماز کا لازمی حصہ قرار دیکر ہر نمازی کو یہ پیغام دیدیا کہ وہ اپنے اختیار و مرضی سے زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد کو نافذ کرے۔ مطلب یہ کہ زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو چھوڑ کر کسی اور کی تعریف کی جاتی ہو اور اگر کوئی قابل تعریف قرار پاتا بھی ہو تو وہ اس بنیاد پرکہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ تعریف کرتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج زیادہ ترانسانوں نے زندگی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو یکسر فراموش کردیا ہے او ر زیادہ تر ایمان والوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف کو صرف نماز کی ادائیگی کے حد تک ہی رکھا ہے اور زندگی کے بقیہ شعبوں میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کو فراموش کردیا بلکہ بہت سے اہل ایمان زندگی کے دیگر شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں، یہاں تک کہ بہت سے پنج وقتہ نمازی بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ابھی نمازیوں نے سورئہ فاتحہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو اصل نماز ہے بلکہ اس سورت کا ایک نام ہی ’’ الصلٰوۃ‘‘ہے، یعنی نماز کی سورت اور اس سلسلہ میں فی الحال نماز سکھانے والے زیادہ قصور وار ہیں، کہ انہوں نے صرف سورئہ فاتحہ کو سکھانے پر ہی اکتفا کر لیا ہے،ا سکو سمجھایا نہیں جبکہ انکی ذمہ داری تھی کہ وہ سورئہ فاتحہ کو سکھانے کے سا تھ ساتھ اس کوسمجھاتے بھی تاکہ نمازیوں کو بھی معلوم ہوتا کہ سورئہ فاتحہ کا ان سے کیا تقاضا ہے اور کب ان سے سورہ فاتحہ کیخلاف کام ہو رہا ہے۔
سورہ فاتحہ سے لا علمی ایک طرح سے اپنی نماز کے خلاف عمل ہے۔’’ الحمد‘‘ کا ایک مطلب شُکر بھی ہے یعنی جس طرح تمام تعریف اللہ ہی کیلئے ہے، اسی طرح تمام شکر اللہ ہی کیلئے ہے۔ کسی کے احسان کے اظہار کیلئے شکر کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے شکر میں لگی ہوئی ہے اور خود انسان کا وجود پیدائشی طور پر اللہ کے احسان کا مظہر ہے تو اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اختیاری طور پر بھی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کاشکر گزار بنے لیکن افسوس ہے کہ انسان خود اپنے ضمیر کی آواز کو نہیں سنتا ورنہ ہر انسان کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بنے لہذا جو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں بنا وہ خود اپنے آپ کا نا شکرا ہوگیا اور جو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوا وہ اپنے آپ کا شکر گزار ہوا اور یہی بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:وَمَنْ یَّشْکُرفَاِنّمَا یَشْکُرُ لِنَفسہِ ، یعنی’’ جو شکر کرتا ہے پس بیشک وہ خود اپنے لئے شکر کرتاہے۔‘‘(لقمان12)۔
مطلب یہ کہ اس کے شکر کا فائدہ خود اس کی ذات کو پہنچے گا اور یہی بات ہے جو اس مقولہ میں کہی گئی ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبّہ،یعنی ’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘۔
مطلب یہ کہ خود فراموشی خدا فراموشی کا سبب ہے اور خود آگہی ، خدا آگہی کا سبب ہے ـ اسی بات کو علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بھی اپنے نصیحتی اشعار میں پیش کیا ہے:
اپنے من میں ڈوب کرپا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن،اپنا تو بن
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
بہر حال سورہ فاتحہ کے پہلے کلمہ’’ الحمد للہ‘‘ کا تقاضا ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام معاملات میں چاہے وہ عبادت ہو، تجار ت ہو ،سیاست ہو اللہ ہی کو قابل تعریف سمجھیں اور اللہ ہی کے شکر گزار رہیں۔سورہ فاتحہ کا دوسرا کلمہ اس کونماز کا بھی دوسرا کلمہ کہہ سکتے ہیں، وہ’’ رب العالمین ‘‘ہے یعنی اللہ تمام جہان کا رب ہے ۔یہ کلمہ بھی اس پوری کائنات کی حقیقت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور اگر اللہ کو کوئی اس کائنات کا رب نہیں سمجھتا تو اس نے اس کائنات کی حقیقت کو نہیں سمجھا لیکن اللہ کو تمام جہان کا رب تسلیم کرنے کیلئے رب کے معنیٰ و مطلب جاننا ضروری ہے ۔رب کے معنیٰ تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں۔ مطلب یہ کہ تمام جہان کی تربیت اور پرورش کرنے والے کے ہیں۔ مطلب یہ کہ تمام جہان کی تربیت اور پرورش کا اصل مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہے اور تربیت و پرورش میں تمام چیزوں کی تمام شعبوں میں صحیح رہنمائی داخل ہے۔
اس لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں چاہے عقائد ہوں، عبادات ہوں، معاملات ہوں، سیاسیات ہوں ، اللہ ہی مالک و مختار ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو نظر انداز کرنا اللہ کی ربوبیت کا انکار ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اللہ کی رہنمائی کو چھوڑ کر کسی اور کی رہنمائی کو قبول کرنا اللہ کی ربوبیت میں کھلا ہوا شرک ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان زندگی کے بہت سے شعبوں میں اللہ کی ہدایت کو چھوڑے ہوئے ہیں خاص طور سے سیاست کے شعبہ میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میدانِ سیاست میں غیر مسلموں کی رہنمائی کو قبول کرچکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ان میں برسوں کے پنجوقتہ نمازی بھی شامل ہیں جبکہ نمازی کو نماز کا دوسراکلمہ ہی میدان سیاست میں کسی غیر مسلم کو رہنما تسلیم کرنے سے روک دیتاہے لیکن نمازیوں کو اس کا احساس اسلئے نہیں کہ انہوں نے ابھی اپنی نماز کے دوسرے کلمہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ورنہ صرف یہی ایک کلمہ تمام نمازیوں کو سیاست کے شعبہ میں تمام غیر مسلم لیڈران اور تمام بے دین مسلم لیڈران کو قیادت سے نکالنے کیلئے کافی ہو جاتا ہے اور اس کلمہ کو نماز کے شروع میں اسی لئے رکھا گیا ہے کہ ہر نمازی کے ذہن و دل میں ہر وقت اللہ ہی کی حکمرانی کا تصور رہے اور غیر اللہ کی حکمرانی کے تصور سے نمازیوں کے دل و دماغ پاک وصاف رہیں اور چونکہ’’ رب العالمین‘‘ قرآن کے بھی شروع کا کلمہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں بھی اللہ ہی کی حکمرانی کا تصور رہے اور باطل کی حکمرانی کے تصور سے مسلمانوں کے دل و دماغ پاک و صاف رہیں۔ ویسے اللہ کی صفت’’ رب‘‘ اور اللہ کی صفات یعنی99 صفات کا نچوڑ اور خلاصہ اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنا تعارف زیادہ تر’’ رب‘‘ ہی کی حیثیت سے کرایا ہے اور انسانوں سے بھی یہی تقاضا کیا کہ وہ اللہ ہی کو رب تسلیم کریں۔جس نے اللہ کو اپنا رب تسلیم کیااُسی نے اللہ کو صحیح طور سے مانا اور جس نے اللہ کو صرف اللہ کی حیثیت سے تسلیم کیا اور رب کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تو اس نے اللہ کو صحیح طور پر نہیں مانا ۔یہی وجہ ہے کہ مکہ کے کافر و مشرک اللہ تعالیٰ کو اللہ کی حیثیت سے ماننے کے باوجود کافر و مشرک قرار دیئے گئے اس لئے کہ وہ اللہ کو اپنا’’ رب‘‘ یعنی’’ حکمراں‘‘ کی حیثیت سے نہیں مانتے تھے اور مانتے تھے بھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حکمرانی میں دوسروں کو بھی شریک ٹھہرالیا تھا۔ اللہ کو رب ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کائنات کا اصل حکمراں صرف اللہ ہی ہے باقی جو کچھ بھی ہے وہ سب محکوم ہیں چنانچہ اللہ ہی کو رب ماننے کی دعوت انسان کی ابتدائی تخلیق سے جڑی ہوئی ہے۔ جب وہ صرف روح کی صورت میں تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی ربوبیت کا اقرار و عہد لیا تھا جو قرآن مجید کے سورہ اعراف، آیت 173,172میں ہے:
’’اور جب لیا تیرے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی اولاد اور انہیں گواہ بنایا ان کے نفسوں پر کہ کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم اس سے غافل تھے، یا یہ نہ کہو کہ ہمارے باپوں نے اس سے پہلے شرک کیا اور ہم ان کے بعد کی اولاد ہیں ،تو کیا اُن غلط راہ والوں کے فعل پرتُو ہم کو ہلاکت میں ڈال دیگا؟‘‘
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کو بحیثیت رب ماننے کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیامیں پیدا کرنے سے پہلے ہی ان سے اپنی ربوبیت کا اقرارلے لیا تھا اور تمام انسانوں نے اس کا اقرار کر لیا تھا، اگرچہ یہ اقرار انسانوں کے شعور سنبھالنے سے پہلے لیا گیا لیکن ہر انسان کے تحت الشعور میں ضرور یہ اقرار موجود رہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعام و عذاب کیلئے صرف تحت الشعو ر کا اقرار کافی نہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں پیدا کیا اور اس اقرار کی یاد دہانی کیلئے انبیائے کرام ؑ کو بھیجا ، چنانچہ تمام نبیوں نے سب سے پہلے اللہ کے رب ہونے کی دعوت پیش کی ۔یہی وجہ ہے کہ تمام نبیوں کی پہلی ہی دعوت میں اْعبُدوا ربَّکُمْ یعنی بندگی کرو اپنے رب کی ، کے الفاظ ملتے ہیں اور خود قرآن کریم کی پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف رب کے طور پر پیش کیاچنانچہ قرآن کی سب سے پہلی وحی جورسول پر غار حرا میں نازل ہوئی وہ سورئہ علق کی ابتدائی آیات ہیں اور ان میں بھی سب سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و خالقیت کا اعلان ہے:
اِقرَآ باسْمِ رَبِّکَ الَّذیْ خَلَقَ، یعنی’’ پڑھئے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ‘‘۔اور شاید اسی ابتدائی تعلق کی بر قراری و یاد دہی کیلئے اللہ تعالیٰ نے سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت میں اپنا تعارف ’’رب العالمین‘‘ کی حیثیت سے پیش کر دیا جو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی اور سنی جاتی ہے،تاکہ ہر مسلمان کے ذہن و دماغ میں ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے رب ہونے کا تصور تازہ رہے، لیکن افسوس ہے کہ اسکے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو رب تسلیم کئے ہوئے ہے اور خصوصاً میدانِ سیاست میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی فرمانروائی کو بالکل نظر انداز کئے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ جو حق پرست مسلمان میدانِ سیاست میں اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی کی بات کرتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت انہیں بے دین اور گمراہ قرار دیتی ہے۔
اس کابنیادی سبب یہی ہے کہ ابھی مسلمانوں کی اکثریت نے رب کے معنی و مطلب کو نہیں سمجھا ، لیکن عوام کی اس لاعلمی کے اصل ذمہ دار علمائے دین ہیں کیونکہ انہوں نے مسلم عوام کو ’’رب‘‘ کے معنی و مطلب سمجھانے کی کوشش نہیں کی اور کی بھی تو صرف عبادات میں اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی اختیار کرنے کی تعلیم دی چنانچہ تمام مسلمان نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں اللہ اور اس کے رسولکے علاوہ کسی اور کی رہنمائی کو قبول نہیںکرتے اور قبول کرتے بھی ہیں تو ان علماء کی جو قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی کرتے ہیں یہاں تک کہ کوئی کم علم عالم رہنمائی کرے تو اس کی رہنمائی قبول نہیں کرتے، لیکن یہی مسلمان میدانِ سیاست میں یہود، نصاریٰ ، مشرکین، کافرین اور بے دین مسلمانوں کی رہنمائی کو قبول کئے ہوئے ہیں اور اس پر اتنی مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں کہ میدانِ سیاست میں قرآن و حدیث کی رہنمائی کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں جبکہ یہی مسلمان دوسری طرف سورہ فاتحہ کو بھی تسلیم کئے ہوئے ہیں مگر صرف سورہ فاتحہ کے الفاظ قبول کئے ہوئے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان سورئہ فاتحہ کے معنی و مطلب کو بھی قبول کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ مسلمان سورہ فاتحہ کے معنی و مطلب کو جانیں۔
یوں تو صفت’’ رب‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا خلاصہ پایا جاتا ہے لیکن صفت رب میں جس صفت کا غلبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’حکمرانی‘‘ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں رب کا لفظ زیادہ تر مقامات پر حکمرانوں کے لئے استعمال ہوا ہے،چنانچہ سورہ یوسف میں 4مرتبہ رب کا لفظ مصر کے بادشاہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:۔ یٰصَاحِبِیَ السِّجْنِ اَمّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّہٗ خَمْراً (یوسف 41) ترجمہ : (کہا یوسف ؑ نے) ائے جیل کے ساتھیو! تم دونوں میں سے ایک