ڈاکٹر عبداللہ الردادی ۔ الشرق الاوسط
ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے دورہ امریکہ کے دوران متعدد بڑی کمپنیوں کیساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں۔دیگر متعدد کمپنیوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ تیل کے شعبے میں مملکت اور امریکی کمپنیوں کیساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے نئی بات نہیں۔ اس سے قبل بھی دونوں ممالک کی کمپنیاں اس طرح کے متعدد معاہدے کرچکی ہیں۔نئی بات یہ ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے کئے گئے ہیں۔ ولی عہد نے دورہ امریکہ کے دوران مختلف شعبوں میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے رابطے کئے اور ان میں سے متعدد کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ ولی عہد کی یہ کوشش اس بات کی عکاسی کررہی ہے کہ سعودی عرب تیل کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔مملکت کی کوشش ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے مملکت کی معیشت کو پروان چڑھایا جائے نیز سعودی شہریو ںکیلئے نئی اسامیاں پیدا کی جائیں لیکن جو سوال بنیادی طور پر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا غیر ملکی کمپنیوں کیلئے سعودی مارکیٹ پُرکشش ہے یا نہیں۔
اس سوال کا جواب مثالوں سے دیا جائے تو بات زیادہ قابل فہم ہوگی۔ سب سے پہلی مثال امیزون کمپنی کی ہے جس کے سربراہ او ر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ولی عہد کی ملاقات ہوئی تھی۔سعودی عرب اور امیزون کمپنی کیساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اُس کے مطابق امیزون کمپنی سعودی عرب میں 2شعبوں میں سرمایہ کاری کریگی۔ پہلا شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیٹا بیس ہے۔یہ بات معروف ہے کہ امیزون اس شعبے میںاپنی مثال آپ ہے۔دوسرا شعبہ آن لائن کاروبار ہے۔ یہ بات معروف ہے کہ مشرق وسطیٰ امیزون کمپنی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔گو کہ امیزون کمپنی سوق ڈاٹ کام کو خرید چکی ہے تاہم مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ میں سوق ڈاٹ کام کی طرح دیگر متعدد کمپنیوں کے قیام کےلئے گنجائش رکھتی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں آن لائن کاروبار کا حجم 29بلین ڈالر سالانہ ہے۔ 2021ءتک اسکا حجم 49بلین ڈالر ہوجائیگا۔یہی وجہ ہے کہ امیزون سعودی مارکیٹ سے بڑا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔مشرق وسطیٰ کی آن لائن کاروبارمارکیٹ کا چین، برازیل یا پھر ہندوستان سے تقابل کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ میں موجود مواقع سے بہتر انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
دوسری مثال سینما کی صنعت سے وابستہ امریکی کمپنی اے ایم سی تھیٹرز ہے۔ اگر سعودی عرب میں آن لائن کاروبار کی مارکیٹ سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا او راس مارکیٹ میں ابھی بھی بہت گنجائش ہے تو سعودی عرب میں سینما کی مارکیٹ کو ابھی تک کسی نے چھوا تک نہیں۔ یہ بات معروف ہے کہ اے ایم سی نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی سب سے بڑی سینما کمپنی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے پاس ایک ہزار سے زیادہ سینما گھر ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جو تبدیلیاں معاشرے پر لاگو کررکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ آن لائن فلمیں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ بہت کم تعداد ایسی ہے جو نئی فلم دیکھنے کیلئے سینما گھر جانے کی زحمت کرتی ہے۔ اس کیفیت میں اے ایم سی کیلئے سالانہ منافع کی شرح برقرار رکھنا چیلنج ہے۔سعودی عرب جیسی مارکیٹ میں جہاں پہلے اس شعبے میں کسی نے سرمایہ کاری نہیں کی وہاں 40سینما گھر کھولنا اے ایم سی کیلئے نہ صرف سنہری موقع ہے بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ چیلنجز میں اپنی ڈولتی کشتی کو کنارے لگانے کے مترادف ہے۔ماہرین توقع ظاہر کررہے ہیں کہ مملکت میں سینما کا شعبہ قومی آمدنی کا 3سے6فیصد حصہ حاصل کرلے گا۔ سعودی عرب کی معاشرتی ترکیب کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اے ایم سی نے طویل المیعاد منصوبہ بناتے ہوئے ایک بالکل نئی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا عزم کیا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا غیر ملکی کمپنیوں کیلئے سعودی مارکیٹ پُرکشش ہے یا نہیں؟ اسکے جواب کیلئے تیسری مثال سکس فلیگز کمپنی ہے جس کے ساتھ ریاض کے جنوب میں واقع القدیہ منصوبے میں تفریحی پارک تعمیر کرنے کا معاہدہ ہوا ہے۔یہ بات معروف ہے کہ سکس فلیگز اپنے شعبے میں کام کرنےوالی دنیا کی بڑی کمپنی ہے۔اسکی سالانہ آمدنی 1.4بلین ڈالر ہے۔ صرف شمالی امریکہ میں اسکے 20تفریحی پارک ہیں۔سعودی عرب میں یہ پہلی امریکی کمپنی ہے جو اپنے نام سے تفریحی پارک قائم کریگی۔ عالمی معیار پر قائم ہونے والا تفریحی پارک 2022ءتک مکمل ہوجائیگا۔ اس کی جائے وقوعہ ریاض کے جنوب میں ہے جہاں 6ملین سے زیادہ کی آبادی ہے۔ ان میں سے آدھی سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سکس فلیگز کیلئے ریاض میں تفریحی پارک تعمیر کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور اس سے کمپنی کو کتنا منافع ہوسکتا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں مثالوں سے بات واضح ہورہی ہے کہ سعودی مارکیٹ غیر ملکی کمپنیو ںکیلئے انتہائی پُرکشش ہے۔جن کمپنیوں کیساتھ معاہدے ہوئے ہیں ابھی ان کا قیام عمل میں نہیںآیا مگر ابھی سے ان کمپنیوں نے سعودی شہریوں کیلئے اسامیوں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امیزون کمپنی نے سعودی شہریوںکو بھرتی کرنے کی تشہیری مہم شروع کردی ہے۔ سکس فلیگز کمپنی نے اپنے تفریحی پارک کی تعمیر کیلئے کام شروع نہیں کیا مگر اس نے اپنی ویب سائٹ میں ریاض میں تفریحی مرکز قائم کرنے کی نشاندہی کردی ہے۔اے ایم سی کا حال یہ ہے کہ اس کا پہلا سینما گھر اسی ماہ کھل جائیگا اور اس نے سعودی عرب میں دکھائی جانے والی پہلی فلم کی تشہیر بھی شروع کردی ہے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جنکا انکار ممکن نہیں ہوسکتا۔ ولی عہد کا دورہ امریکہ اگر کامیاب ہے تو کس قدر، اسکا جواب ان کمپنیو ں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭