60کی دہائی میں شاہ فیصل نے فرانس کا تاریخی دورہ کرکے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت فراہم کردی
ولی عہد وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان مصر، برطانیہ اور امریکہ کے دورے کے بعد فرانس پہنچے ہیں۔ ولی عہد کے دوروں کا بنیادی مقصدجہاں حلیف ممالک کیساتھ تعلقات میں استحکام پیدا کرنا ہے وہاں وژن 2030 میں ان ممالک کے ساتھ شراکت داری اور مشترکہ سرمایہ کاری بھی ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کے تعلقات نہ صرف تاریخی ہیں بلکہ گزشتہ 5دہائیوں سے نہایت مستحکم ہیں۔سعودی عرب اور فرانس کے درمیان اسٹراٹیجک شراکت داری بھی ہے۔ متعدد معاملات میں دونوں ممالک کے موقف میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کے درمیان تعلقات میں مزید استحکام اس وقت پیدا ہوا جب علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں بنیادی تغیرات ہوئے تو دونوں ممالک نے محسو س کیا کہ موقف میں یکسانیت اور ہم آہنگی کی انتہائی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کے درمیان مشترکہ تجارت بھی ہمہ جہتی ہے۔ خطے میں دہشتگردی کے انسداد کیلئے دونوں ممالک مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔ ولی عہد کا دورہ فرانس نہ صرف تعلقا ت میں مزید استحکام پیدا کرنے کا باعث ہوگا بلکہ تعلقات کے مزید فروغ کیلئے شراکت داری کی بنیادوں پر بھی قائم کیا جائیگا۔
دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ 60کی دہائی میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے فرانس کا تاریخی دورہ کرکے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت فراہم کردی۔ بعدازاں شاہ فیصل نے 1973ءمیں دوبارہ فرانس کا دورہ کیا۔ اس وقت فرانس کے صدر نے انکا شاندار استقبال کیا تھا۔ یہ دورہ دونو ں ممالک کے تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاہ فیصل کی وفات کے بعد شاہ خالد بن عبدالعزیز نے فرانس کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے متعدد مرتبہ پیرس کا دورہ کیا۔ وہ مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے پہلی مرتبہ 1978ءمیں پیرس گئے تھے۔ انکا دوسرا دورہ¿ فرانس 1981ءمیں ہوا۔ انکے جانشین شاہ فہد بن عبدالعزیز جب وزیر داخلہ تھے تب 1975ءمیں پہلی مرتبہ فرانس کا دورہ کیا تھا۔ پھر اگلے سال 1976ءمیں دوبارہ فرانس گئے تھے۔ ملک کے فرمانروا کی حیثیت سے پہلی مرتبہ انہوں نے فرانس کا دورہ 1984ءمیں کیا تھا۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں متعدد معاہدے ہوئے تھے۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعریز جب ولی عہد تھے تو انہوں نے 1985ءمیں پہلی مرتبہ فرانس کا دورہ کیا تھا۔ ولی عہد کی حیثیت سے وہ کئی مرتبہ پیرس گئے تھے۔ ملک کے فرمانروا کی حیثیت سے انکا تاریخی دورہ¿ فرانس 2007ءمیں ہوا تھا۔ مملکت کے تمام فرمانروا فرانس کے ساتھ تعلقات میں مزید استحکام لانے کے انتہائی حریص تھے۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مملکت کے سابق فرمانرواﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرانس کے ساتھ تعلقات میں مزید فروغ کےلئے انتہائی کوشاں ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مفادات کے تحفظ کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ولی عہد کی حیثیت سے 2015ءمیں فرانس کا دورہ کرچکے ہیں۔ اسوقت دونوں ممالک کی قیادتوں نے باہمی مشترکہ امور کے متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کرکے انتہائی اہم معاہدوںپر دستخط کئے تھے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جب نائب ولی عہد تھے تب انہوں نے پہلی مرتبہ اس حیثیت سے فرانس کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت انکی ملاقات فرانسیسی صدر فرانسوں ہولانڈ سے ہوئی تھی۔
سعودی عرب اور فرانس کے درمیان مستحکم تعلقات کی متعدد بنیادیں ہیں۔ ان میں سے ایک بنیاد مشترکہ سرمایہ کاری ہے۔ فرانس سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مملکت میں فرانس کا سرمایہ کاری کا حجم 15بلین ڈالر ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ تجارت کا سالانہ حجم8بلین یورو سے تجاوز کرچکا ہے۔ سعودی عرب ، فرانس کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ جی سی سی ممالک کی بنیاد پر سعودی عرب، فرانس کا اول نمبر شریک ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سطح پر دیکھا جائے توسعودی عرب فرانس کا دوسرے نمبر پر تجارتی شریک مانا جاتا ہے۔2013ءمیں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تجارت کا حجم 52بلین ریال سے تجاوز کر گیا تھا۔ یہ شرح 2012ءکے مقابلے میں 16فیصد زیادہ تھی۔ اس سال فرانس نے 20بلین ریال کا تجارتی سامان سعودی عرب برآمد کیا تھا جبکہ سعودی عرب نے اُس سے 32بلین ریال کی تجارت کی تھی۔ ولی عہد کے دورہ فرانس سے توقع کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری اور تجارتی شراکت کا حجم اس سے کہیں زیادہ بڑھ جائیگا۔ مبصرین کا کہناہے کہ ولی عہد دورہ فرانس کے دوران تجارت سمیت مختلف شعبوں میں متعدد معاہدے کرینگے۔
عسکری شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون انتہائی مثالی رہا ہے۔ دونوں ممالک دفاعی شعبے کے علاوہ عسکری تربیت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال سعودی عرب اور فرانس کی افواج کی مشترکہ مشقیں ہوئی تھیں۔ان مشترکہ مشقوں میں مسلح افواج کو پہاڑی علاقوں میں جنگی صلاحیتیوںکی تربیت دی گئی تھی۔ سعودی عرب فرانس سے متعدد مرتبہ اسلحہ خرید چکا ہے۔ فرانس کی عسکری صنعت کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب مانا جاتا ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات کا انحصار محض تجارت اور دفاعی شعبے میں ہی نہیں بلکہ ثقافتی شعبے میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے سے مثالی تعاون کرتے ہیں۔فرانسیسی مستشرقین نے جزیرہ عرب کی تاریخ کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے فرانس کے مستشرقین سعودی عرب کی تاریخ اور ثقافت کو دریافت کرنے میں سبقت لے گئے تھے۔ سعودی عرب کے تاریخی علاقے تیماءمیں پہاڑوں پر قدیم کتبوں کا انکشاف فرانسیسی مستشرقین نے کیا تھا۔ اس علاقے کا ایک تاریخی پتھر 1884ءمیں فرانس لیجایا گیا۔ یہ پتھر آج بھی” لوور عجائب گھر“ میں موجود ہے۔ فرانس ، سعودی عرب کے ثقافتی اورسیاحتی پروگراموں کو ترتیب دینے اور اس شعبے سے وابستہ سعودی شہریوں کو تربیت دینے میں پیش پیش ہے۔1986ءمیں فرانس نے سعودی عرب کی تاریخ روشناس کرانے کیلئے نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ اس کا افتتاح شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اُسوقت کیا تھا جب وہ ر یاض کے گورنر تھے۔ 2006ءمیں ریاض میں لوور عجائب گھر نے اسلامی فن کے حوالے سے نمائش کا اہتمام کیا تھا جس کا افتتاح شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور فرانس کے صدر جیک شیراک نے کیا تھا۔2010ءمیں لوور عجائب گھر میں سعودی عرب کے تاریخی ، تجارتی گزر گاہوں کے بارے میں نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ اس وقت اس ایگزیبیشن میں فرانسیسی عوام نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیاتھا۔2010ءمیں جنادریہ میلہ منعقد ہوا تو اسکا مہمان خصوصی فرانس تھا۔
ثقافت کے شعبے میں بھی سعودی عرب اور فرانس کے درمیان ہمہ جہتی تعلقات ہیں۔ 2010ءمیں فرانس نے مملکت کے 3 شہروں ریاض، جدہ اور الخبر میں فرانسیسی زبان سیکھنے کیلئے مراکز قائم کئے تھے۔2013ءمیں ریاض میں کتاب میلہ منعقد ہوا تو مہمان خصوصی کے طور پر فرانس کو مدعو کیا گیا۔2016ءمیں پیرس کے شانزی لیزے میں 4سعودی مصوروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایک دوسرے کی ثقافت کو عربی اور فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان فرانس میں ترجمہ مرکز قائم کرنے کا معاہدہ ہوا۔ اس مرکز کے تحت اب تک متعد د عربی کتابوں کو فرانسیسی زبان میں منتقل کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح کئی فرانسیسی زبان میںلکھی گئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ولی عہد کے دورہ فرانس میں نہ صرف متعدد معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کی نئی بنیادیں استوار کی جائیں گی۔ جس طرح ولی عہد کا دورہ امریکہ انتہائی کامیاب ہوا ،اسی طرح دورہ فرانس بھی کامیابی کی منازل طے کریگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭