سنت رسول ﷺکے ساتھ حقارت انگیز لہجہ
’’جو آدمی جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھے گا، اس کے کسی عمل کو پسند کرے گا ، تو وہ آخرت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھایا جائیگا‘‘
* * * * اللہ بخش فریدی۔ فیصل آباد* * * *
داڑھی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی محبوب ترین سنت رہی ہے۔ اللہ عزوجل کا کوئی نبی ، رسول یا کوئی ولی ایسا نہیں جس نے داڑھی نہ رکھی اور اس کی تعظیم و تکریم نہ کی ہو مگر آج ہمارے معاشرہ کی بد نصیبی کہ جو شخص ڈارھی سنت نبوی سمجھتے ہوئے رکھ لیے تو اسے حقارتاً اور شغلاًمولوی مولوی کہہ کے پکارا جاتا ہے جو سراسر اس کے تقدس و تکریم کی بے حرمتی اور گستاخی ہے، جو ان کے بولنے کے لہجہ سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ یہ اسے حقارت، شغل، مذاق اور نفرت کی بنیاد پر پکارا جا رہا ہے۔کسی داڑھی والے کو مخاطب کرنا یا آواز لگانی ہو تو ’’ اوے مولوی‘‘ جبکہ اس کے برعکس اگر کسی ایسے شخص کومخاطب کرنا یا آواز لگانی ہو جس نے ڈارھی نہیں رکھی ہوئی تو اسے بڑے پیار سلیقے اور ادب و احترام کے ساتھ ’’بھائی جان‘‘ کہہ کے پکارا جاتا ہے۔کتنا بڑا تضاد اور فرق پڑ گیا قول میں صرف داڑھی ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے۔داڑھی والے کیلئے ’’اوے مولوی‘‘ اور بغیر داڑھی والا ’’بھائی جان‘‘۔ یعنی مسئلہ ایک انبیاء و صالحین کی سنت’’ داڑھی‘‘ ہی کا ہے۔ اگر اس کی بھی داڑھی نہ ہوتی تو اسے بھی بھائی جان کہہ کے پکارا جاتا، رکھ لی تو اوے مولوی ہو گیا، اور پھر مولوی ہی نہیں مولبی پکارا جاتا ہے، تلفظ ادائیگی میں آخر میں وی کی بجائے بی کی آواز سنائی دیتی ہے ’’ مول بی‘‘ پتہ نہیں اس کے معنیٰ کیا بنتے ہیں۔ گویا تمسخر، تحقیر و ذلت داڑھی ہی کی ہو رہی ہے۔ڈارھی والے انسان نہیں ہوتے کیا؟ اس نے نبی کریم اور اللہ کے محبوب بندوں کی طریقت ہی اپنائی ہے کوئی جرم تو نہیں کیا کہ اسے تقدسِ انسانی سے خارج کردیا گیا۔
آج معاشرہ میں سنت نبوی کے پامال کرنے والے کو عزت و تکریم دی جاتی ہے اور سنت نبوی اپنانے والے کی ہنسی، مذاق اور تحقیر کی جاتی ہے جو حقیقت میں مذاق و حقارت اس بندے پر نہیں سنت نبوی پر ہے۔گستاخی و بے ادبی سنت رسول کی ہو رہی ہے اور اسکے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے بغیر داڑھی والوں سے معذرت کے ساتھ کہ اگر سنت رسول کے اپنانے والوں کو تو معاشرہ حقارتاً مولبی کا نام دیتا ہے تو پھر انہیں بھی تو کوئی نام دیا جانا چاہیے نا جو داڑھی کی پامالی کرتے ہیں اور جڑوں سے اکھاڑ کر قدموں میں روند ڈالتے ہیں،’’ منکرِسنت ‘‘کا یا ’’پامالی ٔسنت کا‘‘ مسمارِ سنت ، یا بے ادب ، گستاخ یا تقلیدی (اہل مغرب کا)؟ انہیں بھی تو کچھ خطاب اور کچھ پکارا جانا چاہیے نا ؟ انہیں نہایت ادب سے بھائی جان کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ وہ سنت رسول کا منکر اور پامالی و مسماری ہے اور یہ ان کی عزت کا سبب ہے۔
آج کا معاشرہ اتنا بے شعور اور احمق کیوں بن گیا کہ سنت رسول کی پامالی کرنیوالوں کو تو عزت دیتا ہے اور اسکے اپنانے والے پر طنز اور مذاق کرتا ہے؟ اغیار کی سنت اپنانے والے ، مغرب کی تقلید و نقل کرنے والے کو بھائی جان کہتا ہے اور نبی کریم کی سنت اپنانے والے کو شغلًااور حقارتاً ’’مولبی ‘‘۔کیا نبی کریم کی سنت شغل کی جگہ ہے؟ نبی کریم کے عشق کے دعویدارو !معاشرہ کا عشق کہاں گیا؟محبت اورآپ کی غلامی کا دم بھرنے والوں، آپ کے نام پر مر مٹنے والوں کاجذبہ اور غلامیٔ رسول میں موت بھی قبول ہے کا نعرہ لگانے کا شوق و عشق کہاں مر مٹاکہ آج وہ نبی کریم کی سنت کی توہین پر اتر آئے ؟
حدیث شریف میں ہے کہ جس نے نبی کریم کی ایک سنت کو زندہ کیا اللہ تعالیٰ اسے 100شہیدوں کے برابر رتبہ عطا فرماتا ہے۔گویا آج کے اس پرفتن اور خزاں رسیدہ دور میں جن لوگوں نے نبی کریم کی سنت کو زندہ کیا ہوا،وہ اللہ کے نزدیک 100شہیدوں کے برابر منزلت رکھتا ہے۔ اس پر آج کا معاشرہ طنز کستاہے ، حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سنت کے پامالی اور مغرب کے تقلیدی سے عزت و اکرام سے پیش آتا ہے گویا ہم میں محمد کی روحِ اطہرباقی نہیں رہی، وہ اہل مغرب نکال لے گئے۔ہم مغرب کو کیا دوش دیں؟ انہیں تو سنت رسول ناگوار ہے ہی،مگر آج خود مسلمان اسے برا کہنے لگے۔ داڑھی تھوڑی سی بڑھی نہیں تو لوگ سوچنا اور کہنا شروع کر دیتے کہ بری لگ رہی ہے کٹوا دیں۔گویا آج معاشرہ کو سنت رسول بھی بری لگنے لگی ہے۔ ہم نے نعرہ لگایا ’’ غلامیٔ رسول میں موت بھی قبول ہے ‘‘ اور اہل مغرب کا نعرہ تھا: یہ فاقہ کش موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد() ان کے بدن سے نکال دو تو گویا اہل مغرب اپنے نعرے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمارے جسمو ں سے محمد کی روح اور غیرت کو نکال پھینکا۔ ہمارے نعرے محض کھوکھلے اور دکھاوے کے رہ گئے اور ہم نے نبی کریم کی سنت کے برعکس مغرب کے تقلیدی کو عزت دے کر اس بات کا عملی ثبوت بھی دے دیا کہ اب نہ ہم میں محمد کی روح باقی رہی اور نہ ہی غیرت اور نہ عقل و شعور۔
سب سے پہلے تو مسلمان پر اس کی پامالی جائز نہیں تھی لیکن اگر کر ڈالی اور جنہوں نے اپنا لی تو کم از کم انہیں بحیثیت انسان نہیں تو سنت رسول سمجھتے ہوئے تو تعظیم کا حق بنتا تھا۔ داڑھی مبارک بلاشبہ اللہ رب العزت کا نور،تمام انبیائے کرام علیہ الصلوٰۃو السلام ، صحابہ، تابعین ، تبع تابعین ، صالحین ،اولیاء اور اللہ والوں کی محبوب ترین سنت ہے اور رہی ہے اور جو لوگ اس کی پامالی کرتے ہیں اور اللہ کریم کے نور کو اپنے چہروں سے بجھاتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ لوگ اللہ عزوجل کے نور کو بار بار بجھاتے وہ پھر ظاہر ہو جاتی، پھر بجھاتے پھر ظاہر ہو جاتی کہ شاید کبھی تو کوئی عقل مند ، باشعور انسان عبرت حاصل کر لے کہ اگر یہ بار بار ظاہر ہونے سے باز نہیںآتی تو میں ہی ہار مان لوں اور اس کو بار بار بجھانے سے باز آجاؤں۔ اور ہارنا بیشک انسان نے ہی ہے ،انسان فطرت کو کبھی نہیں ہرا سکتا۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِؤُا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَ یَابْیَ اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ( التوبہ 32)۔
لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور ( داڑھی مبارک ) کو اپنے چہروں سے بجھا دیں اور اللہ رب العزت نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا (بار بار) ظاہر کرنا ، اگرچہ منکروں ، جھٹلانے والوں کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کا یہ عمل ( داڑھی منڈوانا) انسانی فطرت کیخلاف ہے کیونکہ چہرے کے بال ( یعنی داڑھی ) انسانی فطرت میں شامل ہیں اور فطرت کیخلاف کرنا گناہ ہے۔پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں4 عظیم چیزوں (انجیر، زیتون، طور سینا اور شہر مکہ) کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں نے انسان کو بہت اچھی اور نہایت خوبصورت شکل میں پیدا کیا ہے: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ، وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ ، وَ ھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ، لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ’’ انجیر کی قسم، زیتون کی قسم، اور طور سینا کی قسم اور اس امن والے شہر مکہ کی قسم کہ بیشک ہم نے انسان کو بہت اچھی ( نہایت عمدہ اور خوبصورت ) شکل میں تخلیق فرمایا‘‘۔ اب بظاہر انسان کی اس خوبصورت شکل میں اسکے چہرے کے بال(داڑھی) بھی شامل ہیں لہٰذا چہرے کے بال جڑوں سے کاٹنا اور ان کی پامالی کرنا اللہ رب العزت کی اس عظیم قَسم کو توڑنے اور اس کی کچھ قدر وقیمت نہ جاننے کے مترادف ہے۔
پھر دیکھیں کہ داڑھی منڈوانا کفار، مشرکین، یہود ونصاریٰ و ہنود کا شعار ہے اور غیر مسلم ہونے کی علامت ہے جبکہ مسلمان داڑھی کے ساتھ پہچانا جاتا ہے لہٰذا جو لوگ داڑھی منڈواتے ہیں وہ گویا کفار، مشرکین، یہود نصاریٰ کے اس عمل کو اور عورتوں جیسی شکل بنانا پسند کرتے ہیں ۔وہ مسلمانوں کی پہچان، مسلمانوں کے عمل اور مسلمانوں کی ادا سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کا دین، ایمان، اللہ و رسول سے کوئی واسطہ کوئی تعلق باقی رہ جاتا ہے؟ ایسے لوگوں کا حشر انہی کے ساتھ ہو گا جن کی ادا، جن کے عمل کو یہ لوگ پسند کرتے تھے ۔آخرت میں جو سلوک اْن کے ساتھ ہو گا وہی اِن کے ساتھ بھی روا رکھا جائے گا۔ حدیث مبارکہ ہے:
َّ ’’آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ دنیا میں محبت رکھتے تھے۔‘‘
بخاری و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے:
’’جو آدمی جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھے گا، اس کے کسی عمل کو پسند کرے گا ، تو وہ آخرت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔‘‘ ایک سوال ہے کہ کیایہ سنت کے خلاف طریق گناہ اور رب کا ناپسندیدہ عمل نہیں ہے؟اگر گناہ اور رب کا ناپسندیدہ عمل ہے تو کیا یہ بھی سنت اور رب کا ناپسندیدہ عمل نہیں ؟ جو لوگ رسول اللہ کی سنت کے خلاف کریں اور مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں انکا انجام دنیا و آخرت میں کیا ہوگا اس بارے اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
’’ اور جو لوگ رسول للہ() کو دکھ پہنچائیں ، ان کی سنت کے خلاف کریں بعد اس کے کہ ان پر حق ظاہر ہو چکااور مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں ہم انہیں (دنیا میں ) ان کے حال پر چھوڑدیں گے اور پھر انہیں دوزخ میں داخل کریں گے بیشک وہ کیا ہی بری جگہ ہے ہمیشہ رہنے کی۔‘‘(النساء115)۔
کیا نبی کریم کی سنت کو پامال کر کے قدم تلے روند ڈالنا آپ کو دکھ اور تکلیف پہنچانا نہیں ؟کیا رسول اللہ تمہارا سنت ویراں چہرا دیکھ کر خوش ہوں گے یا ناراض؟رسول اللہ تمہارے چہرے پر سنت دیکھ کر خوش ہوں گے یا مغرب کی تقلیدپر خوش ہوں گے؟ آیت مبارکہ کے الفاظ میں غور کریں، اللہ کریم فرما رہے ہیں : وَ یَتَّبِعُ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلیّٰ ’’جو مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں ، مسلمانوں کے طریق سے ہٹ جائیں ہم دنیا میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں گے۔ ‘‘ تو کیا آج اللہ کریم کی طرف سے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑا ہوا سب کو نظر نہیں آ رہا؟ نہ ہماری دعاؤں میں قبولیت ہے، نہ ہماری کوئی سنی جاتی ہے، نہ ہماری کوئی غیب سے مدد کی جاتی ہے، نہ ہماری دنیا میں کوئی عزت ہے نہ کوئی وقار۔ مسلمانوں کے طریق سے ہٹ کر اپنا یہ انجام آج ہم دنیا میں بخوبی دیکھ رہے ہیں اور اسکا اگلا جو انجام ہونا ہے وہ اِس آیت مبارکہ میں بیان کر دیا گیا ہے ’’ وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تُ مَصِیْرًا ‘‘ ہم انہیں جہنم میں اتاریں گے جو بہت بری جگہ ہے رہنے کی۔
’’ تو کیسا ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اُن کے منہ اور ان کی پیٹھیں مارتے ہوئے اس لیے کہ یہ ایسے بات کے تابع ہوئے جس میں اللہ کی نارضگی ہے اور اس کی خوشی انہیں گوارا نہ ہوئی تو اس نے اُن کے سارے اعمال اکارت کر دئیے۔‘‘
پھر یہ کہ آئے روز داڑھی منڈوانے اور بے بجا رقم خرچ کرنے میں فضول خرچی کا ایک عنصر شامل ہے اور فضول خرچ کو اللہ کریم نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے:
’’ بیشک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نافرمان، ناشکرا کفران کرنے والا ہے۔‘‘
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات