Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گورنر ذمہ داری پو ری کر یں

اگر کوئی جما عت اکثریت ثابت کر نے کے قابل نہ ہوئی تو گورنر راج نا فذ ہو سکتا ہے، اس سے ایک نئی صورتحال جنم لے گی
سید شکیل احمد
    ان دنو ں پر ویز خٹک جتنے پر یشان سے لگ رہے ہیں، اتنے شاید نو از شریف کے چہر ے پر تفکر ات کی جھریا ں نظر نہیں آر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی ہر مہم کی ذمہ داری منحنی جسامت کے خٹک پر آن پڑی ہے ۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ خٹک ہمیشہ حکمرانی کی خو بو سے نابلد رہے ہیں۔ وہ یا تو تلو ار کے دھنی رہے ہیں یا پھر تسکین آمیز دنو ں میں اپنی ثقافت کے جو ہر دکھانے میں گزرتی ہے۔ حکمرانی سیدھے سادے لو گو ں سے کیا علاقہ رکھتی ہے۔ دھرنا نیا زی ہو اُس کی کا میابی کی ذمہ داری پرویز خٹک ہی کے کندھو ں پر آگر تی ہے۔ لا ہور کا جلسہ ہو تب بھی اس کو تاریخی بنا نے میں بھی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے کا ندھے پر بوجھ ہے مگر جلسے میں پرویز خٹک کے کارنا مو ں کی بجائے نمل یو نیورسٹی ، ورلڈ کپ کرکٹ فائنل میچ اور شوکت خانم اسپتال کو کارنامے بنا کر اس کا کریڈٹ عمر ان نیا زی کو دینے کے لیے ڈاکو منٹریز اسکرین کی زینت بنائی جا تی ہیں۔ آخر پرویز خٹک نے5 سالہ حکومت میںکوئی عظیم کا م تو کیا ہوگا مگر اس کا ذکر کسی ا سکرین کی زینت نہ بن پایا البتہ یہ ہو تا رہا ہے کہ عمر ان خان کے صوبہ کیلئے اعلا نا ت اکثر پر ویز خٹک کے لیے درد سر بن جا تے ہیں۔ مثلاًکچھ عرصہ پہلے انھو ں نے پی ٹی آئی کی کا رکر دگی کے بارے میں فرمایا تھا کہ صوبہ کے پی کے میں ایک ہی شخص پر ویز خٹک ہے جس کو کوئی تجر بہ ہے۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ شکر ہے کہ ان کو وفاق میںحکومت نہیں ملی ورنہ بری طرح ناکا می کا سامنا کرنا پڑ جا تا ۔پرویز خٹک کے پا س اپنے لیڈر کے لیے جو اب دینا ممکن ہی نہ تھا چنا نچہ اس کا تو ڑ انھو ں نے اس طرح کیا کہ قومی میڈیا سے وابستہ افرا دکے وفد کو بلا کر اپنی حکومت کی عمد ہ کا رکر دگی سے آگا ہ کیا تاکہ عمر ان خان کے پید ا کردہ تاثر کو زائل کیا جا ئے۔
     اب پھر ایک پھٹک پڑ گئی ہے کہ بِکنے والو ں کا احتساب، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا صوبائی اسمبلی میں اکثریت کھو جا نے  کاخوف ہے ۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے قبل جو انتخابات ہوئے تھے اس میں بکا ؤ مال نے خو ب چاندی بنائی تھی مگر اس وقت پی ٹی آئی کی قیا دت نے کا نو ں اور منہ میں روئی ٹھونس لی تھی حالا نکہ انکو ائری کر ائی گئی تھی مگر کسی کیخلا ف کوئی کا رروائی نہیں کی گئی جبکہ انکوائر ی کمیٹی نے جہا نگیر ترین اوراعظم سواتی کے خلا ف کار روائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر دونو ں نیا زی صاحب کے اے ٹی ایم ہونے کی وجہ سے بچے رہے۔
          نئی افتا د پارٹی کے چیئرمین عمر ان نیا زی نے ڈال دی ہے۔ اعلا ن یکطر فہ یہ کر دیا ہے کہ بجٹ موجو دہ اسمبلی پیش نہیں کر ے گی ،آنے والی منتخب حکومت بجٹ پیش کر یگی۔ منطقی طور پر بات اچھی لگتی ہے مگر اس کا آئین اور قانو ن سے کوئی لگائو نہیں کیو نکہ اگر ایک دن کی بھی حکومت ہو تو ا س کو وہ تما م امو ر نمٹانے پڑ تے ہیں جو وقت کے مطا بق متقاضی ہو ا کر تے ہیں۔ اگر صوبے کا بجٹ نئی حکومت پر چھو ڑ دیا جا تا ہے تو عبوری حکومت یہ مینڈیٹ نہیں ر کھتی کہ وہ بجٹ پیش کر ے۔ یکم جو لائی سے نیا مالی سال شروع ہو جائیگا تو بجٹ کے بغیر عبوری حکومت ہو یا کوئی بھی حکومت ہو وہ اخراجا ت کس مد سے پو را کر ے گی ؟چنا نچہ پرویز خٹک اپنے ہر دلعزیز لیڈر کے اس اعلا ن پر گومگوں کے جھولے میں خاموشی کی چوسنی لیے چپ پڑے ہو ئے ہیں کہ جھولا کس طر ف ہچکولے لیتا ہے ۔
             اب اس سے بھی بڑی مشکل جماعت اسلا می نے ڈال دی ہے۔ اگر چہ جماعت اسلا می کے سربراہ سراج الحق فرما رہے ہیں کہ حکومت سے بھی نکل کر تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے اور بجٹ منظور کرانے میں تعاون فراہم کر یں گے ۔حیر ت کی بات ہے کہ ایک طر ف حکومت چھوڑ رہے ہیں دوسری جانب پی ٹی آئی سے اس قدر تعاون کریں گے کہ پی ٹی آئی جو عملاًاکثریت کھو چکی ہے پھر بھی اس کی حکومت کو بر قرار رکھیں گے ۔جماعت اسلامی کے بارے میں یہ تاثر رہا ہے کہ وہ ایک با اصول جما عت ہے اور کبھی اصولو ں پر سمجھوتہ نہیں کر تی ،پھر وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو کس اصول کے تحت آکسیجن فراہم کر رہی ہے ۔ اس وقت جما عت کی جو پا لیسی نظر آرہی ہے، اس کے بارے میں ممتا ز طنز نگار شاعر اکبر الٰہ آبادی کے سرسید احمد خان کے بارے میں خیالا ت سامنے آرہے ہیں۔ سید صاحب کے افکا ر کے بارے میں انھو ں نے کہا تھا کہ سرسیداحمد خان پتلو ن چڑھا کر اور شیر وانی پہن کر اس پر ٹائی آویز اں کر کے خدا کو بھی اور صنم کو بھی خوش رکھنے کی مساعی کر رہے ہیں۔ کیا چمتکا ری ہے ۔
       اے این پی کے انتہا ئی مدبر رہنما میا ں افتخار حسین نے صوبائی اسمبلی کی حالت زار کے پیش نظر گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا سے مطالبہ کر دیا ہے کہ پر ویز خٹک کو اسمبلی سے اعتما د کا ووٹ لینے کا کہا جائے ۔ اقبال ظفر جھگڑ ایک تو مرنجاں مرنج شخصیت ہیں، وہ مسلم لیگ ن کے مر کزی سیکر یٹر ی جنرل ہو کر پا رٹی کے اہم رہنما ؤں کی فہر ست میں اپنا نا م درج نہیں کر ا سکے تھے ۔ اگر چہ کے پی کے کا گورنر فاٹا کے ایگزیکٹیو ہو نے کے نا تے پاکستان کے دیگر صوبو ں کے گورنر ز کے مقابلے میں زیادہ پا ور فل ہو تا ہے مگر ان کو یہی گما ن ہے کہ وہ ممنون  حسین کی ہی طرح کے اختیار ات کے حامل ہیں ۔بس وہ اسی میں خوش ہیں کہ گورنری ان کے ہا تھ لگی ہو ئی ہے چنا نچہ پارٹی کے چند ہمنوا ؤں کو گورنر ہا ؤس میں جمع کر لیا ہے ۔وہ بھی ایسا ویسا ہی تجر بہ رکھتے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ جب اسمبلی میں اکثریت کا قضیہ پید ا ہو ا تھا ،تب ہی وہ اپنی آئینی ذمہ داری پو ری کر تے اور پر ویز خٹک سے اعتما د کے ووٹ کا مطالبہ کر تے ۔
        مسلم لیگ ن ہو، ق ہو ،یا ا  ب ت پ کوئی سی بھی ہو، ایسے ہی خواب خرگوش میں پڑی رہتی ہے۔ اس کو تب بید اری ہو تی جب پانی سر پر سے گزر جاتا ہے ۔یہ گورنر کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ سے کہے کہ اعتما د کا ووٹ لے ۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ترجما ن شوکت یو سف زئی فرما تے ہیں کہ پی ٹی آئی اکثریت کھو نے کے با وجود اسمبلی نہیں تو ڑ یگی ۔ ظاہر ہے کہ جب اکثریت نہیںرہ گئی تو وہ اسمبلی کس قانو ن یا آئین کے کس آرٹیکل کے تحت تو ڑ نے کا اختیا ر رکھتے ہیں ۔پھر تو یہ ہوگا کہ گورنر کسی دوسری پا رٹی کو اکثریت ثابت کر نے کو کہیں گے۔ اگر کوئی جما عت اکثریت ثابت کر نے کے قابل نہ ہوئی تو گورنر راج ہی نا فذ ہو سکتا ہے اور اس سے ایک نئی صورتحال جنم لے گی کیو نکہ رواں ما ہ ہی تما م حکومتو ں کی میعاد بھی پوری ہورہی ہے ۔
مزید پڑھیں:- - - - -

 

شیئر:

متعلقہ خبریں