کیا عجب سفر ہے زندگی کا بھی۔ کیسی کیسی یادیں ذہن کے نہاں خانوں سے ابھرتی ، چیختی سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان کی بات ہورہی تھی۔ اچانک وہ افریقی جڑواں بہنیں وقت کے دھندلکوں میں سے سوال بنی سامنے آکھڑی ہوئیں۔ وسطی افریقی ملک زمبیا میں میرے گزارے ایک برس کا ذکر ہے۔ مخلوط جماعت میں طالبات کی تعداد زیادہ تھی۔ افریقی ادب پر بات ہوتی اور نائیجیریا ، یوگنڈا ، کینیا اور جنوبی افریقا کے شاعر اور ناول نویس اکثر زیر بحث آتے۔ گفتگو انتہائی دلچسپ رخ اختیار کرجاتی۔ تقریبا ہر طالبہ اور طالبعلم بڑے شدو مد سے اظہار خیال کرتا صرف 2 طالبات نیم خوابیدہ رہتیں۔ جڑواں بہنیں تھیں۔ محسوس ہوتا تھا کہ انہیں پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میرے لیکچر کے دوران بھی دونوں کی آنکھیں نیم باز ہوتیں۔ میں اکثر اوقات ان کے نام لے کر متوجہ کرنے کی کوشش کرتا۔ اپنے نام سن کر وہ چونکتیں ، آنکھیں کھول کر توجہ میری طرف مبذول کرتیں لیکن اگلے 3,4 منٹ کے دوران ان کی آنکھیں پھر بند ہونے لگتیں۔ میں کب تک برداشت کرتا۔ ایک دن خفگی کا اظہار کر بیٹھا، تب مجھے ایک طالبعلم نے بتایا کہ دونوں بہنیں مرض خواب (Sleeping Sickness) میں مبتلاتھیں اور ہر وقت حالت بیداری میں رہنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ تب مجھ پر یہ حقیقت کھلی کہ تقریبا 20 طلباء و طالبات کی جماعت میں مجھے 2 عدد خوابیدہ یا نیم خوابیدہ لڑکیوں کا وجود برداشت کرنا پڑے گا۔ نظم و ضبط کا کو ئی سوال نہ تھا کیونکہ طبی نقطہ نظر سے وہ سوئی ہوتی بھی جاگتے والوں میں شمار ہوتی تھیں۔
لیکن یہ مرض خواب ہے کیا؟ آئیں ذرا اپنی معلومات کا دامن وسیع کر دیکھیں۔ جنوبی اور مشرقی افریقا میں جہاں گھنے جنگل ہیں اور وحشی جانور کثرت سے ہیں Tsetse نام کی ایک مکھی پائی جاتی ہے۔ اردو میں اسے سے ٹسے لکھا جاتا ہے۔ یہ وحشی جانوروں اور مویشیوں کے خون پر زندہ رہتی ہے۔ اکثر اوقات یہ جنگلوں کے اطراف میں انسانی بستیوں کا رخ بھی کرلیتی ہے اور انسانوں کا خون بھی پیتی ہے۔ اسی دوران یہ جانوروں سے حاصل کیا گیا وائرس بدن کے اندر کا رخ کرتا ہے اور خون میں شامل ہوکر ریڑھ کی ہڈی میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں سے یہ دماغ کا رخ اختیار کرتا ہے اور پورے اعصابی نظام پر رفتہ رفتہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اچھے بھلے فعال انسان پر کاہلی طاری ہوجاتی ہے۔ بدن کے عضلات ناتوان ہوتے ہیں اور ذہن پر خوابیدگی کی حالت طاری ہوتی رہتی ہے۔ سعی بسیار کے باوجود متاثرہ شخص اپنے آپ کو بیدار نہیں رکھ سکتا۔ نہ اس کی توجہ کسی ایک نقطے پر مرکوز رہتی ہے اور یوں ایک نحیف بے بضاعت بدن موت کی آغوش میں پناہ لے لیتا ہے۔ سے ٹسی کی مکھی ایک وقت میں ایک بچے کو جنم دیتی ہے۔ سال میں 4 عدد اور زندگی بھر میں 31 کے لگ بھگ بچے پیدا کرتی ہے لیکن اس نے مشرقی ، وسطی اور جنوبی افریقا میں تباہی مچائے رکھی ہے۔
1887ء میںان علاقوں میں اطالوی پہلی دفعہ وارد ہوئے تو رنڈر پیسٹ نامی جانوروں کی بیماری ہمراہ لائے۔ مویشی موت کے گھاٹ اترے تو کانٹے دار جھاڑیاں اُگیں جن میںسے ٹسی مکھی نے اپنامسکن بنالیا۔ گلہ بانی اور زراعت معدوم ہوتی گئیں۔ اگلے دس برسوں میں 55 لاکھ مویشی اس مکھی کا شکار ہوچکے تھے۔ خشک سالی طاعون کی طرح پھیلی۔ چیچک ، ہیضے ، ٹائیفائیڈاور دیگر امراض نے اس دہائی میں دو تہائی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور یہی برس تھے جب جرمنی اور برطانیہ نے مشرقی افریقی ممالک کینیا اور تنزانیہ پر قبضہ کرلیا۔ سے ٹسی نے اپنی تباہ کاریاں جاری رکھیں۔ سالانہ 30 لاکھ مویشی صحرا کے جنوب میں واقع ممالک میں مرتے رہے۔ ایک کروڑ مربع کلومیٹر کا رقبہ بربادی کی داستان بنا۔ آج بھی صورتحال مختلف نہیں۔آج بھی افریقا کے 39 ممالک جہاں سے ٹسی پھل پھول رہی ہے ، نادار ہیں ، مقروض ہیں او ر ان کا شمار غیر ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ ان ممالک میں فی کس سالانہ آمدنی انتہائی کم ہے جبکہ ان میں سے 30 بھاری قرضوں تلے دبے ہیں۔ ان میں ہر برس 20 لاکھ شہری اس مکھی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ جنگلی اور پالتو جانوروں میں ہرن ، مویشی ، اونٹ ، گھوڑے ، بھیڑیں اور بکریاں اس عذاب کا ہدف بنتی ہیں۔
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ انسانی آبادیوں کو تہس نہس کردینے اور ان پر قحط و موت مسلط کردینے والے اس بظاہر بے بضاعت کیڑے پر انسان قابو نہیں پاسکا۔ اس کی افزائش زیادہ تر کھلے میدانوں میں اُگی جھاڑیوں میں ہوتی ہے اور جنگلی جانوروں کے خون پر زندہ رہتی ہے۔19ویں صدی کے اواخرسے آج تک اس عام مکھی سے بڑی تقریبا آدھا سینٹی میٹر طویل پردار مخلوق نے نسل انسانی پر جس ستم پرور انداز میں بے بسی ، ناتوانی ، بھوک اور درماندگی مسلط کی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اپنا وائرس انسانی جلد کے اندر جا بٹھاتی ہے جو افزائش پاتا خون کے ہمراہ چلتا ریڑھ کی ہڈی میں راستہ بناتا ہے اور پھر حرام مغز میں پہنچ کر بدن کو ناکارہ کرنا شروع کرتا ہے،بے بسی ، ناتوانی مقدر بنتے جاتے ہیں۔ مکھی من چاہے کا سودا سمجھ پھر لہو چوسنے کو آجاتی ہے! آتی رہتی ہے ۔ اڑتی ہے ۔ ۔ ۔ پھر آتی ہے۔ تو اچانک مجھے زمبیا کی اپنی مرض خواب میں مبتلا وہ 2 طالبات یاد آگئیں۔ سے ٹسی مکھی کا شکار ، اپنے لہو کا خراج دینے کے باوجود بدن میں خود فراموشی اور بے بسی کا عذاب پالتی ہوتی!
کل ایک نشست میں پاکستان کی بات چلی ، اور ان کی بات چلی جو اچانک پرواز کرجاتے ہیں اور خون نذرانہ کرنے والا ہمارے وطن کا نحیف بدن غربت ، عسرت ، بے نوائی اور بے کسی کا عذاب جھیلتا رہتا ہے تو مجھے سے ٹسی مکھی کا خیال آگیا۔