عمران خان کی نظر بھی صرف پردیسیوں کی دولت پر ہی رہی قومی و صوبائی اسمبلی کے ہررکن پر عوام 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ماہانہ صرف کرتے ہیں
جاوید اقبال
بہت بڑا جلسہ تھا۔ بہت بڑا جلسہ عام تھا لیکن مجھے عمران خان تک دو باتیںپہنچانی ہیں۔ مینار پاکستان کے اردگرد بیٹھے لاکھوں کے ہجوم نے مجھے موچی دروازے پر 1970ء کے موسم گرما میں ہونے والے اس جلسہ عام کی یاد دلادی جو ذوالفقار علی بھٹو کی بات سننے کے لیے اکٹھا ہوا تھا۔فور ٹریس اسٹیڈیم میں میلہ مویشیاں واسپاں بھی اسی وقت منعقد ہورہا تھا لیکن وہاں صرف یحییٰ خان ، شاہ ایران اور اردن کے شاہ حسین تھے اور چند مویشی تھے اور وہ فوجی تھے جنہیں وہاں بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھاجبکہ نوید رزق سن کر لاہور کی چونٹیاں بھی موچی دروازے میں ہجوم کر آئی تھیں اور ساڑھے تین گھنٹے مسلسل ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب تھا اور بوڑھے رو رو کر نڈھا ل ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ قائداعظم کے بعد سچ کہنے والا صرف بھٹو ہی پاکستان کو نصیب ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی آتش بیانی کو لاکھوںکے ہجوم نے بڑے انہماک سے سنا تھا۔ پھر اتنا ہی ساکت مجمع میں نے عمران خان کے جلسہ عام میں دیکھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مقرر نے عام پاکستانی کی محرومیوں کا ذکر چھیڑا تو کئی آنکھوں میں نمی تیر گئی اور خصوصا ًجب اس نے وہ واقعہ سنایا جس میں ٹوٹی پھوٹی گاڑی میں سوار کراکے کچھ لوگ کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے اسے اندرون لاہور ایک مسجد میں لے جاتے ہیں اور پھر بوڑھے نادار مرد و زن اپنی بساط کے مطابق پانچ پانچ ، دس دس روپے اس کے حوالے کرتے ہیں تو جذبات کا ریلا امڈ آتا ہے۔ ڈھونڈھ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔ وہ تقریبا آدھا گھنٹہ ملکی سیاست کو نئی ڈگر پر ڈال گیا۔ عمران کا خطاب مہارت کا مرقع تھا لیکن مجھے عمران خان سے 2 شکایتیں ہیں۔ سب سے پہلا گلہ یہ ہے کہ اس نے پاکستانی تارکین وطن کی حب الوطنی اور قربانیوںکی ستائش تو کی اور بڑے پرُ یقین انداز میں دعویٰ کیا کہ وزیراعظم کے طر زپر وہ ان پردیسیوں سے خاصی رقوم اکٹھی کرلے گا لیکن عمران خان نے ان محرومیوں ، مشقتوں اور مایوسیوں کا ذکر نہ کیا جو ان بے در و بے گھر محبان وطن کے نصیب میں لکھی ہوتی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل بھی جائے تو یہ کتنا موثر ہوگا؟ بریدہ یا جیزان یا دمام یا ریاض میںمقیم ہمارے ہم وطن کا اکیلا ووٹ پاکستان میں کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے امیدوار کے ہزاروں کے حلقے میں اپنا آپ کیسے منوائے گا؟ اکیلا چنا کتنا بھاڑ پھونکے گا؟ انتخاب میں ایک لاکھ کے قریب ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرانے والے امیدوار کو یہ فکر کیوں ہو کہ بریدہ یا ریاض یا جدہ سے اس کے حق میں ووٹ ڈالنے والے 5 یا 10 پردیسیوں کے بھی کچھ مسائل ہیں جن کا حل تلاش کرنا اب اس کا فریضہ ہے۔ تو جب ہم 80 لاکھ تارکین وطن کی جو وطن عزیز کو ہر برس 19 ارب ڈالر کی ترسیل کرتے ہیں یہ ناقدری ہو ، یہ بے وقعتی ہو تو کوئی دوسرا اور بہتر حل کیوں نہ تلاش کیا جائے ۔کچھ عرصہ پیشتر میں نے ایک مطالبہ کیا تھا اور اب پھر وہی دہرا رہا ہوں۔ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کی بجائے حکومت پاکستان ہر صوبائی اور قومی اسمبلی میں کچھ نشستیں ان کے لیے مختص کرے۔ بیرون ملک میں عشروں سے مقیم پاکستانیوں نے اپنی ذہانت ، دیانت اور خلوص کا سکہ جما رکھا ہے۔ وطن سے باہر مقیم ایسے ایسے نابغہ ہائے روزگار ہیں کہ انتہائی قابل ستائش انداز میں پاکستان کو بھی صراط مستقیم پر ڈال سکتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی طمع کے اپنے وطن کو اپنی بے بدل خدمات پیش کریں گے۔ ذرا ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان کے مشاہروں اور دیگر آسائشوں کی تفصیل کا تو جائزہ لیں۔ ماہوار تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے ، اسمبلی کے اجلاس کے لیے ایک لاکھ روپے ماہانہ ، دفتر کو چلانے کے لیے ایک لاکھ 40 ہزارروپے الگ ، ریل گاڑی میں درجہ اول میں سارے پاکستان میں سفر بلا معاوضہ ، ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں 5 ہمراہیوں کے ساتھ سفر بھی مفت ، کسی بھی شہر کے حکومتی ہاسٹل میں رہائش مفت ، بجلی کے 50 ہزار یونٹ بلا معاوضہ استعمال کئے جاسکتے ہیں جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار روپے تک کا ٹیلیفون کا بل بھی حکومت ادا کرتی ہے۔ یوں قومی یا صوبائی اسمبلی کے’’ عالم و فاضل و محب وطن‘‘ ہر رکن پر عوام 3 کروڑ 20 لاکھ روپے ماہانہ صرف کرتے ہیں۔ اس وقت قومی اسمبلی کے 342 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1061 ارکان ہیں۔ ان سب پر اٹھنے والے اخراجات کی مالیت ایک کھرب 69 ارب 76 کروڑ روپوں تک جا پہنچی ہے۔ ہمارے یہ نمائندے قانون سازی کے لیے منتخب ہوتے ہیں لیکن ان کی ایک بڑی تعداد خال خال ہی پارلیمان میں نظر آتی ہے تو اگر ہر تارکین وطن کے لیے ہر صوبائی اسمبلی سے 5,5 اور قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 6,6 نشستیں مختص کردی جائیں اور ان کے لیے انتخابی مراکز سفارتخانے بنادیے جائیں تو یہ ایک انتہائی مستحسن اقدام ہوگا۔ تارکین وطن کے ایسے نمائندے پالیمان میں بیٹھ کر اپنے آبائی محلے یا گاؤں میں گلیاں پکی کرانے کی بجائے اپنے ہموطنوں کو پردیس میں درپیش مشکلات کی بات کریں گے اور وزارت عظمی اور سینیٹ کے انتخاب کے وقت اپنا ووٹ کروڑوںمیں بیچنے کی بجائے یہ شرط لگائیں گے کہ جو امیدوار تارکین وطن کے مسائل حل کرے گا ووٹ اسی کو دینگے۔ لیکن اپنے خطاب میں عمران خان نے اس طرح کا کوئی منصوبہ پیش نہ کیا۔ ان کی نظر بھی صرف پردیسیوں کی دولت پر ہی رہی۔ اور دوسرا گلہ! بہت بڑا گلہ!!11نکات میں کشمیریوں کے لہو کا کوئی ذکر نہ ہوا۔ ہمالہ سے نکلنے والے ہمارے پانی کی کوئی بات نہ ہوئی جو اب رخ بدل کر دوسروں کی کھیتیوںکو سیراب کررہا ہے! اور ہماری سرزمین شدت تشنگی سے چٹخ رہی ہے۔ بہتر ہوگا اگر تحریک انصاف اپنے نکات پر نظرثانی کرے۔ کچھ سوال اور ہیں! جواب درکار ہیں۔