”سفارتخانہ“....فلسطینیوں کا قتل عام
15مئی 2018منگل کو سعودی عرب سے شائع ہونے والے جریدے ”عکاظ“ کا اداریہ
کل 14مئی کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقد س میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے واقعہ نے عملی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ یہ اقدام ہنگامہ برپا کریگا۔ اس کا سلسلہ اسرائیلیوں کے ہاتھوں52فلسطینیوں کے قتل اور 200سے زیادہ کے زخمی ہونے تک محدود نہیں رہیگا۔ امریکہ اپنے اس فیصلے کے باعث عربوں اور اسرائیل کے درمیان قیام امن کے حوالے سے غیر جانبدار ثالث کی حیثیت کھو بیٹھا ہے۔ علاوہ ازیں امریکی اقدام مخالف ردعمل نے امریکہ کو خود اس کے اتحادی عربوں اور مغربی ممالک تک کے حلقوں میں الگ تھلگ کردیا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام نتنیا ہوکی حکومت کو مقبوضہ عرب علاقوں کی مزید زمینیں ہتھیانے کا گرین سگنل ثابت ہوگا۔ نتنیا ہو کی حکومت اقوام متحدہ کے قانونی فیصلوں کو بالائے طاق رکھ کر عربو ںکے مزید علاقے ہڑپنے کے اقدامات کریگی۔ امریکی اقدام کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ اس خونی تنازع کی میعاد مزید دراز ہوجائیگی جبکہ دنیا بھر کے سمجھداروں کا متفقہ خیال یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ہی انتہا پسندی اور دہشتگردی کا ایک اہم سبب ہے اور یہی پوری دنیا کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ مدت کتنی بھی دراز کیوں نہ ہو مقبوضہ عرب علاقے حقیقی مالکان کو واپس بالاخر مل کر رہیں گے۔ مقبوضہ بیت المقدس یہودی شہر نہیں بلکہ یہ تمام آسمانی مذاہب خصوصاً اسلام اور عیسائیت کا شہر ہے۔ فلسطینی شہداءکا خون بہایا گیا تاہم اب بھی امریکہ اپنے موقف پر نظرثانی کرسکتا ہے اور اپنے ان اقدامات سے پسپائی اختیار کرسکتا ہے جن سے لڑائی کا آتش فشاں مزید بھڑک اٹھا ہے کیونکہ اس علاقے کا امن و استحکام امریکہ اور اسکے بہت سارے حلیفوں کے امن و استحکام کا ضامن ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭