Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دور اندیشی

16مئی 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض “ کا اداریہ
  حالات اور واقعا ت کا مطالعہ اور اس کے سنگین نتائج سے واقفیت اور انجام کار پر نظر کی بدولت دور اندیش قیادت کو پہلے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں اقدام کے کیا کچھ اثرات مرتب ہونگے۔ سعودی قیادت نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے نتائج سے اسی تناظر میں خبردار کیا تھا۔
امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے القدس منتقلی کے فوائد کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں، بشرطیکہ اس کے فوائد یا مثبت پہلوﺅں کی کوئی گنجائش بھی کسی کی نظر میں آتی ہو۔ اس اقدام سے صرف اور صرف اسرائیل کو فائدہ ہوا ہے کسی اور کو نہیں۔ اس فیصلے نے قابض طاقت کو ایک ایسی سرزمین پر ناجائز قبضے کی قانونی حیثیت دی ہے جسے دنیا بھر کے ممالک اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے مقبوضہ سرزمین مانتے ہیں۔ اسرائیل کی طرح زمینی حقیقت کو تھوپنا کسی طور درست نہیں۔ امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کے اقدام نے 2ارب مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ بیت المقدس تیسرا حرم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے راتوں رات سفر کیا تھا جسے” اسرا“ کہا جاتا ہے۔ اس اقدام سے پیچیدگیاں مزید بڑھیں گی۔ تشدد اور جوابی تشدد میں مزید اضافہ ہوگا۔ قیام امن کا خواب بعید از امکان ہوجائیگا۔
مسئلہ فلسطین سے متعلق سعودی موقف غیر متزلزل ہے۔ اس سے وہ نہ کبھی منحرف ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ فلسطینی عوام کو کسی ادنیٰ کمی کے بغیر جائز حقوق کی بازیابی میں مدد دینا سعودی پالیسی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ اس سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا لہذا عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ فلسطین سے متعلق اپنی قراردادیں نافذ کرانے کیلئے اپنا کردارادا کرے وگرنہ اس کا اعتبار ختم ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: