Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغربی ممالک کے مسلمان صف بستہ ہونے لگے

 عبداللہ فدعق ۔ الوطن
متحدہ عرب امارات کے ہمارے بھائی انتہائی شاندار عملی منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوںکے احوال و کوائف اعتدال پسند اور روا داری کے علمبردار اسلام کے احوال سے متعلق ان کے پروگرام قابل قدر ہیں۔ تازہ ترین پروگرام ”مسلم معاشروں کی عالمی کانفرنس“ کی میزبانی کرکے انجام دیا گیا۔ 2روزہ کانفرنس میں 140سے زیادہ ممالک کے 500 سے زیادہ مہمان شریک ہوئے۔ یہ عالمی کانفرنس دنیا کے ہر علاقے میں مسلمانوںکے حالات سے دلچسپی کا باوزن ثبوت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد رسالت کا عکس جمیل ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ”باہمی مودت ، رحمدلی اور ہمدردی میں اہل ایمان کی مثال اس جسم جیسی ہے جس کا کوئی حصہ تکلیف میں ہو تو جسم کے باقی تمام اعضاءدرد اور تکلیف سے چلا اٹھیں“۔
یہ عالمی کانفرنس ایک طرح سے اس فرمودے کا بھی نمونہ ہے جس میں کہا گیا ہے ”جو شخص مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی نہ لے وہ مسلمانوں میں سے نہیں“۔ کانفرنس کے سرپرست شیخ نہیان بن مبارک آل نہیا ن نے ابو ظبی میں ایک تاریخی جملہ کہا۔ انکا کہناتھا کہ ”ابو ظبی روا داری کا علمبردار دارالحکومت بن گیا ہے“۔ شیخ نہیان کا یہ بیان بجا و درست ہے۔ ابوظبی نے واقعتا دنیا بھر میں مسلم معاشروں کے سامنے امکانات کے نئے جہاں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس کانفرنس کی بدولت مسلمانوںکو درپیش چیلنجوں سے واقفیت اور قدیم فقہ کی بندشوں سے آزادی کی راہیں سجائی ہیں۔ اس کانفرنس نے مغربی دنیا میں موجود ہمارے مسلم بھائیوں کو ایسے فقہا کے ساتھ خوبصورت وقت گزارنے کا موقع دیا ہے جنہو ں نے انہیں مفید افکار دیئے اور ماضی قدیم کے وہ افکار جن کی زنجیروں میں وہ جکڑے ہوئے تھے ان سے آزادی دلادی۔ انہیں دارالاسلام اور دارالحرب جیسی قدیم اصطلاحات کی بندشوں سے نجات دلادی۔ اس قسم کی اصطلاحات نے ہی اسلام فوبیا کو رواج دیا۔ اسلام کی شکل بگاڑی ، مسلمانوں کے دروازے بیرونی دنیا کیلئے بند کئے۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو چیخنے چلانے کا موقع دیا۔
مغربی دنیا میں آباد مسلمان نصف ارب سے زیادہ ہیں۔ گویا وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کاا یک تہائی ہیں۔ مغربی دنیا میں آباد سمجھدار مسلمان صحیح حقیقی اسلام سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیںاور اسلام کی گھناﺅنی تصویر کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اطراف موجود ہموطنوں کے ساتھ مثبت انداز میں گھل مل رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی شناخت اور اسلامی قدارسے بھی دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔ وہ ان ممالک کی تعمیر و ترقی میں ہموطنوں کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں جنہوں نے انہیں اپنے یہاں رہنے سہنے اور بسنے کے روشن امکانات فراہم کئے۔
سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوئی کہ ابوظبی کانفرنس کی بدولت مسلم معاشرو ںکی عالمی کونسل کا قیام عمل میں آیا اور غیر مسلم معاشروں میں آباد مسلم معاشروں کیلئے عالمی میثاق جاری کیاگیا۔ یہ کام مغربی دنیا میں مسلمانوں کو درپیش فکری چیلنجوں کے علاج کے فرض کے زبردست احساس کا نتیجہ ہے۔
بہت سارے مطالبات ہیں۔ سرفہرست اغیارکے ساتھ تکمیل باہم اور اغیار کی تہذیب و ثقافت کو قبول کرنے ، ہضم کرنے اور وہاں مسلمانوں کے فکری اسلوب پر نظرثانی نیز” فقہ ضرورت“ سے نکل کر فقہ الوطن میں منتقل ہونے ، مغالطہ آمیز تصورات کی اصلاح ، تکسیری معاشرے کے عمل کو بہتر بنانے اور نئے ذہنوں کو قدیم افکار سے تحفظ فراہم کرنے اور منفی اصطلاحات سے چھٹکارا حاصل کرنے جیسے مطالبات ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ متحدہ عرب امارات کا مذکورہ عمل ہمیں نظریات کے دائرے سے نکال کر حقیقی عمل کی دنیا میں لیجائے گا۔ جس سے مسلم معاشروں میں سکون کی لہر دوڑے گی اور مغربی دنیا کے صحافی اور سیاستدان مسلمانوں کی تصویر بہتر بنانے میں حصہ لیں گے۔ وہ دہشتگردوں اور مسلمانوں میں فرق کریں گے۔ 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: