Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افسوس کا مقام

زبیر پٹیل۔ جدہ
        گزشتہ روز ایک افسوسناک خبر سن کر دل دہل گیا۔ پاکستان ہاکی کے سابق اولمپئن منصور احمد انتقال کر گئے۔وہ 1994میں پاکستان کو ہاکی ورلڈ کپ جتوانے میں ہیرو ثابت ہوئے۔ انہوں نے 1986ءسے 2000ءتک ہاکی میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ سابق اولمپئن دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور ہند سے اپنا ٹرانسپلانٹ کرانا چاہتے تھے مگر اس حوالے سے کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ یہاں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ جس اسپتال کی تصاویر اس موقع پر دکھائی گئیں وہ عام سا اسپتال تھا۔ ان کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ شاہد آفریدی نے علاج کی ذمہ داری لی تھی مگر انہوں نے صرف بیان بازی سے آگے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنی مصروف زندگی میں اس ہیرو کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ منصور احمد کافی عرصے سے علیل تھے ۔حیرت اس بات پر ہے کہ حکومتی ادارے اس حوالے سے آنکھیں بند کئے رہے اور ان کے انتقال کے بعد روایتی بیان دیکر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہوگئے۔ جو قطعاً درست نہیں۔
        یورپ اور امریکہ میں قومی کھلاڑیوں اورفنکاروں کی کتنی عزت کی جاتی ہے ،یہ سب ہی جانتے ہیں مگر ہمارے یہاں ہیروز کی اتنی ہی قدر ہے؟ ماضی میں کئی فنکاروں نے انتہائی غربت میں سسک سسک کر زندگی کے آخری دن گزارے مگر حکومتی ادارے حسب روایت اس حوالے سے بھی اپنی آنکھیں بند کئے رہے۔
        منصور احمد کے حوالے سے یہ بیان دیکر کہ ان کے بیٹے کو سرکاری نوکری دیں گے، اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانا اچھی بات نہیں۔ ہمارے وزراءاور عوام کو چاہئے کہ وہ کھلاڑیوں ، فنکاروں کو عزت دیں۔ یہ کھلاڑی ایک شان اور پہچان ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

 

شیئر:

متعلقہ خبریں