ہمارے بچپنی دوست کی سوتیلی دادی کے سکڑ پوتے سے ہمارا بے حد دوستانہ ہے۔ وہ’’ سکڑپُوت‘‘ہمارے دوست کو پڑدادا کہتا ہے اور ہمیں بھی اسی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔وہ انتہائی ذہین قسم کی شخصیت ہے ۔ ابھی تو صرف 5سال کا ہے تو اس نے ہمیں چھٹی کا دودھ یاد دلا رکھا ہے ۔ ’’ سکڑپُوت‘‘جوان ہوگا تو ہمارا کیا حشر کرے گا، یہ سوچتے ہی ہم اکثر رات کے ساڑھے 3بجے گہری نیند سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ ہم چاہنے کے باوجود اس’’ سکڑپُوت‘‘سے اپنی راہیں جدا نہیں کر سکے۔ اگر آپ ہم سے دریافت کرنا چاہیں کہ ایسی کیا بات ہے کہ آپ’’ سکڑپُوت‘‘سے اس قدر خوفزدہ ہیں؟ اس کا جواب دینے کی بجائے ہم ایک واقعہ آپ کیلئے تحریر کر رہے ہیں۔ اسے پڑھ کر یقینا آپ بھی ٹھٹھک کر رہ جائیں گے۔
ایک روز’’ سکڑپُوت‘‘ہمیں بازار میں مل گئے۔ علیک سلیک کے بعد ہمارے ہم قدم ہو کر ہماری انگلی طلب کی اور اسے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس میں دبوچ لیا اورذرا توقف کے بعد گویا ہوئے کہ ’’پڑدادا‘‘!پتہ ہے کل اپنے اصل ’’پڑدادا‘‘ کومیں نے’’ ملک آف سکستھ‘‘ یاد کرا دیا۔ہم نے کہا کہ وہ کیا ، کیوں، کیسے؟ اس نے ’’سمجھایا‘‘ کہ کل میں اپنے ’’ریئل دادا‘‘ کے ساتھ اسی طرح ہاتھوں میں ہاتھ لئے جا رہا تھا۔ انہیں نجانے کیا خیال آیا اور کہہ بیٹھے کہ میاں’’ سکڑپُوت‘‘آخر کب تک یونہی ہماری انگلی تھام کر چلتے رہو گے۔یہ سنتے ہی میرا تو دماغ خراب ہو گیاـ۔ میں نے کہا ’’پڑدادا‘‘میں آپ کی انگلی پکڑ کر نہیں چل رہا بلکہ آپ کی انگلی کے ذریعے آپ کو کیری کر رہا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ آپ میری انگلی کے اشارے پر چل رہے ہیںاور آپ کو تو میں اس وقت تک کیری کروں گا جب تک آپ زندہ ہیں بلکہ جب آپ مریں گے تب بھی میں آپ کو اپنے کاندھوں پر کیری کر کے شہر خموشاں لے کر جائوں گا۔میری یہ بات سن کر ’’پڑدادا‘‘ہکا بکا رہ گئے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ مجھے اپنی زندگی کا پہلا ہفتہ یاد آگیا۔میں نے انہیں فوراً کہا کہ ’’پڑدادا‘‘ اسی کو کہتے ہیں ’’چھٹی کا دودھ‘‘ یعنی’’ملک آف سکستھ‘‘یاد آنا۔اس کی یہ بات سن کر ہم ہکا بکا ہوگئے۔
ہم نے ’’ سکڑپُوت‘‘سے اس ’’سقراط بیانی‘‘کا بدلہ لینے کی ٹھانتے ہوئے ایک سوال دے مارا۔ اس سوال سے قبل ہم نے ایک حالیہ چشم دید واقعہ بیان کیا۔ ہم نے کہا کہ میاں’’ سکڑپُوت‘‘چند روز قبل ہم نے عجب منظر دیکھا کہ ایک بڑی ا ور قیمتی گاڑی ہم سے کچھ دوری پر جا کر کھڑی ہوئی اور اس سے ایک نہایت ہی معصوم اور پیارا بچہ نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا ۔ اس نے اس ڈبے سے آخری گھونٹ پی کر اسے سڑک پر ہی پھینک دیا۔دوسرے دروازے سے بچے کے والد آئے اور انہوں نے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم نے یہ خالی ڈبہ سڑک پر پھینک دیا۔بلدیہ نے کچرے کے ڈبے کس لئے رکھے ہیں، تم نے اسے اس میں کیوں نہیں پھینکا۔ اسے اٹھا ئواورابھی جا کر کچرے کے ڈبے میں ڈال کر آئو۔ وہ بچہ قریباً150قدم دور جا کر جوس کا ڈبہ پھینک کر آیا۔باپ نے اسے پیار کیا اور سمجھایا کہ میرے بیٹے! یہ شہر ہمارا ہے، ہم جس طرح اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنے شہر کو بھی صاف رکھنا چاہئے ۔ اگر ہر شخص ایک ایک ڈبہ یونہی سڑک پر پھینک دے تو جدہ میں چلنے کا راستہ نہ رہے۔ اس کے برخلاف ہمارے ہاں بچہ اپنے باپ کو دیکھتا ہے کہ وہ ہمسایوں کے دروازے کے آگے کچرا پھینک رہا ہے ۔ ہمسائے کا بچہ کہتا ہے کہ انکل آپ نے سارا گند ہمارے دروازے کے سامنے کیوں پھینک دیا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ’’روڈ پہ پھینکا ہے تیرے گھر میں تو نہیں پھینکا، یہ روڈ تیرے باپ کا ہے؟ چل پھُٹ نہیں تو ایک چماٹ مار کے چھٹی کا دودھ یاد دلا دوں گا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم اخبار کے دفتر سے چھٹی کر کے رات کے 3بجے موٹرسائیکل پر سوار گھر کی جانب رواں دواں تھے ۔ گلی میں داخل ہوئے ۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث پوری گلی میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔ اسی اثناء میں ہمارے سر پر ’’نرم و لطیف‘‘ گھونسہ لگا۔ ہم لمحے بھر کیلئے ڈرائیونگ بھول گئے۔ موٹر سائیکل ڈگمگا گئی۔ ہم نے موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کی اور اس کے جانبی آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو ڈر لگا کیونکہ ہمارے چہرے پر لال پیلے نشانات تھے۔ ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ کسی صاحب یا صاحبہ نے بچی کھچی نہاری اور چاول ایک ہی تھیلی میں ڈال کر بالائی منزل کی کھڑی سے باہر پھینک دیئے تھے۔ ہم نے ارد گرد کی عمارتوں کی بالائی منازل کی جانب کافی غور سے دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیاالبتہ اسی دوران پولیس کی موبائل ادھر نکل آئی اور ہمیں دیکھ کر چاروں طرف سے گھیر لیا اور انتہائی ’’غیر پارلیمانی الفاظ سے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رات کے وقت کیا کسی کے ہاں چوری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ کسی نے سالن اور چاول بھری تھیلی ہمارے اوپر پھینکی تھی۔ پولیس والوں نے کہا کہ تھیلی سے بندہ مرتا نہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں تھانے چلنے کیلئے کہا مگر ہم نے انکار کیا تو بولے کہ تمہیں انکار کی جرأت کیسے ہوئی؟ہم نے پریس کا کارڈ دکھایا کہ جناب اس کے باعث ہمت کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ پولیس والوں نے پریس کا رڈ دیکھ کر عملاً ، حرفاً، اشارتاً، کنایتاًنہ صرف عزت دینا شروع کر دی بلکہ ’’گستاخی‘‘ کی معافی بھی طلب کی اور کچرا گھر سے باہر پھینکنے والوں کو برا بھلا بھی کہا۔
ہم سائیکل پر سوار جا رہے تھے۔ اشارے پر رُکے۔ ہمارے بائیں جانب ایک موٹر سائیکل والا آ کر رکا۔ اس نے ہیلمٹ اتارا اور پان کی پیک روڈ پر تھوک دی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ پیک نہیں بلکہ ارضِ وطن پر کلنک ہے ۔ ہم نے کہا بھیا! سڑک کے بیچوں بیچ یہ کیا طریقہ ہے؟ وہ غصے میں لال پیلا ہو کر کہنے لگا کہ آپ کے لان میں تو پیک نہیںتھوکی، یہ سڑک کسی کے باپ کی نہیں۔
ہم نے یہ واقعات سنا کر ’’ سکڑپُوت‘‘سے استفسار کیا کہ ذرا یہ بتائیے کہ ہم اپنے بچے کوسڑک پر کچرا پھینکنے پر کب ڈانٹیں گے؟’’ سکڑپُوت‘‘ نے جواب دیا کہ اس کیلئے 140سال، 8مہینے، 25دن ،13گھنٹے ،21منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ برخوردار ! اتنا طویل اور اس قدر حتمی عرصہ ، کیا مطلب؟’’ سکڑپُوت‘‘ نے کہا کہ 70سال بعدغلط کرنے وا لوں نے یہ پوچھنا شروع کیا ہے کہ ہمیں غلط کیوں کہا؟آئندہ 70 سال میں نمودار ہونے والے باپ یہ بتائیں گے کہ آپ کو غلط یوں کہا۔مزید 70سال کے بعدوہ حَسین دور آجائیگا جب نہ کوئی پوچھے گا کہ غلط کیوں کہا، نہ کوئی وضاحت کرے گاکہ غلط یوں کہاکیونکہ ابا بننے والے سب کے سب پاکستانی اپنی اولاد کو سبق سکھا رہے ہوں گے کہ بیٹا! کچرا کچرے دان میں ڈالتے ہیںاور پیک اُگالدان میں۔ ’’سکڑپوت‘‘ کا جواب سن کر ہمیں بھی ’’مِلک آف سکستھ‘‘ یاد آگیا۔