تختہ پلٹنا آسان نہیں رہا
***وسعت اللہ خان ***
2وارداتیں ایسی ہیں جو مکمل ہوجائیں تو کوئی سزا نہیں۔ادھوری رھ جائیں تو قانوناً قابلِ گرفت ہیں۔ایک خود کشی اور دوسرا تختہ الٹنے کی کوشش۔دونوں طرح کی وارداتوں میں اگر ارادہ پختہ ، منصوبہ بندی مکمل اور آلہِ واردات موثر نہ ہو اور ایکشن سرعت سے نہ ہو تو کٹہرا اور سلاخیں مقدر ہو سکتی ہیں۔خودکشی کا عمل چونکہ زاتی ہے لہذا اس میں کامیابی کا تناسب تختہ الٹنے کی کوشش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔جبکہ تختہ پلٹانے کے لئے ایک سے زائد افراد کو منصوبے کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔یہ عمل ایک طرح کا جوا ہے جس میں جاننا ازبس ضروری ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کتنے اکے ہیں اور مخالف کے پاس کتنے کمزور پتے ہیں۔
کبھی کبھی اکے نہ بھی ساتھ ہوں تو تختہ پلٹا جا سکتا ہے۔جیسے براعظم افریقہ میں ساٹھ سے نوے کی دہائی تک ایسے کئی فوجی انقلاب لائے گئے جن میں دو درجن مسلح لوگ کافی ہوا کرتے تھے۔ جزائر کوموروز کی حکومت کا تختہ تو ایک ایسے گروہ نے پلٹ دیا جس میں کرائے کے درجن بھر غیر ملکی فوجی شامل تھے۔انہوں نے فیس لی اور قیدی صدر کو نئے صدر کے حوالے کیا اور چلتے بنے۔گھانا میں80 کے عشرے میں ایک فلائٹ لیفٹننٹ ( جیری رالنگز ) نے حکومت الٹ دی تھی۔1979ء میں لیبیا میں ایک کرنل ( قذافی ) نے شاہ ادریس اور 1952ء کے مصر میں کچھ جونئیر افسروں ( کرنل نجیب ، جمال ناصر وغیرہ ) نے شاہ فاروق کو چلتا کردیا۔
اسی دور میں امریکی سی آئی اے نے جواں سال بادشاہ رضا شاہ پہلوی سے سازباز کر کے تہران کے چند پہلوانوں اور لفنگوں کو پیسے دے کر 2 دن کرائے کے مظاہرے کروائے جن میں ٹریکٹر ٹرالیاں بھر بھر کے مضافاتی علاقوں سے کسان لائے جاتے اور پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے کروا کے نعرے لگوائے جاتے۔اس ڈرامے کو وزیرِ اعظم مصدق کے خلاف عوامی بیچینی کا رنگ دیا گیا اور فوج نے پوری کابینہ کو حراست میں لے کر حکومت برخواست کردی۔اللہ اللہ خیر صلی۔
افریقہ کو چھوڑ کے جونئیر فوجی افسروں نے جہاں جہاں تختہ پلٹنے کی کوشش کی اکثر ناکامی ہوئی۔مثلاً 1949ء میں پاکستان میں میجر جنرل اکبر خان سازش کیس ہو کہ70 اور90 کی دہائی اور اب سے چند برس پہلے حزب التحریر سے متاثر کچھ جونیئر افسروں کی جانب سے مبینہ سازش کی پاداش میں کورٹ مارشل کی اطلاعات۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اگست1991ء میں سوویت یونین اگرچہ تحلیل ہو رہا تھا اس کے باوجود بورس یالسن کی قیادت میں پارلیمنٹ کے سامنے عوامی مزاحمت اور ثابت قدمی کے سبب کچھ مہم جو فوجی افسروں کے ایک گروہ کی جانب سے گوربچوف حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش بہتر گھنٹے میں ہی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی۔فرانس واحد ملک تھا جس نے روسی فوجی جنتا کے ابتدائی اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسے تسلیم کرلیا اور بعد میں شرمندگی اٹھائی۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں فوج سب سے منظم ادارہ سمجھی جاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا کسی جونیئر افسر کی مہم جوئی کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔تختہ پلٹنے کی صرف وہی کوششیں کامیاب ہو سکیں جو اعلی فوجی ہائی کمان نے متفقہ طور پر کیں اور ہم خیال طفیلی سیاسی شخصیات کو بھی بطور شامل باجہ ساتھ رکھا۔
لاطینی امریکہ میں بھی چلی ، ارجنٹائن، برازیل میں ہونے والی سب کی سب تختہ پلٹ کوششیں یونٹی آف کمانڈ کے سبب کامیاب ہوئیں۔ ایشیا میں جنوبی کوریا میں طویل فوجی حکومتیں چین آف کمانڈ کے اصول کے سبب ہی کامیاب رہیں۔اس تناظر میں برما کی فوجی جنتا نے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔وہاں1962ء سے آج تک فوج بالا دست ہے۔تھائی لینڈ میں 1930 کے عشرے سے اب تک جتنے بھی ’’ کو ’’ لائے گئے وہ فوج کی اعلی قیادت بادشاہ کی حمایت سے ہی ممکن کر پائی۔
ایشیا میں جونیئر افسروں کی جانب سے کامیاب ’’ کو ’’ کی بس دو مثالیں ہیں۔پہلی مثال انڈونیشیا ہے جہاں1965ء میں جکارتہ کے ڈویڑنل ملٹری کمانڈر میجر جنرل سہارتو نے صدر احمد سوئیکارنو کا تختہ پلٹا۔دراصل یہ ایک جوابی ’’ کو ’’ تھا۔کیونکہ جونیئر افسروں کے ایک اور گروہ نے جس کا تعلق بائیں بازو سے تھا فوج کی اعلی کمان کے بیشتر افسروں کو قید یا ہلاک کر دیا تھا اور اس گروہ کو مبینہ طور پر صدر احمد سوئیکارنو کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔چنانچہ میجر جنرل سہارتو نے چین آف کمانڈ کے خلا کو پر کرتے ہوئے اقتدار پر آسانی سے قبضہ کر کے سوئیکارنو کو معزول کردیا اور پھر انڈونیشیا میں سی آئی اے کی مدد سے بائیں بازو کی جامع خونی تطہیر شروع ہوئی جس میں لگ بھگ ایک ملین مخالفین کا صفایا کردیا گیا۔سہارتو نے اگلے تیس برس آرام سے حکومت کی۔
ویسے تو مشرقِ وسطی میں عراق ، شام ، یمن وغیرہ میں جونئیر افسروں نے کامیاب فوجی بغاوتیں کیں مگر ان بغاوتوں کے پیچھے بھی منظم بعثی یا مارکسسٹ یا قوم پرست سیاسی قوت کی پشت پناہی تھی۔ ان ممالک میں عوام ہمیشہ اقتدار کی خونی میوزیکل چئیر گیم سے الگ تھلگ رکھے گئے۔چنانچہ وہ ہمیشہ خاموش تماشائی رہے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج اس خطے پر کیا بیت رہی ہے۔
فی زمانہ کمیونیکیشن کی ترقی نے سرپرائز ایلیمنٹ کو کم سے کم کردیا ہے جو کسی بھی کامیاب تختہ پلٹ کوشش کا لازمی جزو ہوتا ہے۔اس مواصلاتی انقلاب کے سبب سماج میں نہ صرف شعوری خواندگی کا تناسب بڑھا ہے بلکہ میڈیا ، عدلیہ اور سیاستداں تختہ پلٹ قوتوں کی توقعات سے زیادہ بے باک اور عام آدمی اپنے حقوق کی بابت زیادہ بدتمیز ہوگیا ہے۔فی زمانہ کامیاب ’’ کو ’’ ٹینکوں پر بیٹھ کر نہیں انٹر نیٹ کی لہروں پر قبضہ کرکے ٹویٹر اور فیس بک کے ہتھیاروں کی مدد سے ریموٹ کنٹرول حکمتِ عملی کے ساتھ ہی برپا ہو سکتا ہے۔حتی کہ وہ ’’ کو ’’ بھی آؤٹ آف فیشن ہو رہا ہے جو روائیتی چین آف کمانڈ کے تحت کامیاب سمجھا جاتا تھا۔مگر ’’ کو ’’ کسی بھی قسم کا ہو تب تک ہی برقرار رھ سکتا ہے جب تک جبر کا بوٹ عوام کی گردن پر ہے۔پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔عوام کچھ عرصے بعد جبر قبول کر لیا کرتے تھے۔مگر اس نسل کے پاس موبائل فون اور میسجنگ کی سہولت بھی تو نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔