Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسد درانی

***جاوید اقبال***
افطار ی کی میز پر جنرل اسد درانی کا تذکرہ تھا۔ لیکن ٹھہریں… ذرا ٹھہریں ! میں نے داستان کا آغاز درمیان سے کردیا۔ کہانی تو کچھ یوں ہے۔ اردو نیوز کے مستقل قارئین کے علم میں ہوگا کہ میں گزشتہ 22برس سے مسلسل اس روزنامے کے لیے ہفتہ وار کالم لکھ رہا ہوں۔ کوئی2 برس پیشتر سوچا کہ ان تقریباً ایک ہزار تحریروں کا ایک مختصر انتخاب کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ کام کا آغاز ہوگیا۔ خاصی عرق ریزی تھی۔ بالآخر 82 کالم جمع کئے لیکن پھر پتہ چلا کہ کچھ اور دریا بھی سامنے تھے۔ ہر مہذب ریاست کی طرح سعودی عرب کا بھی نشرو اشاعت کا اپنا ایک نظام تھا۔ کتاب کا عنوان تو ’’آرزو گزیدہ‘‘ رکھ دیا گیا تھا جو احباب کی سمجھ میں آیا تھا… یا نہیں آیا تھا لیکن طباعت سے پہلے اس کے لیے وزارت ثقافت و اطلاعات سے اجازت نامہ بھی حاصل کرنا تھا۔ اسکے لیے وزارت نے ایک خصوصی شعبہ مکتب اعلام کے نام سے قائم کر رکھا ہے جہاں مسودہ جمع کرانا پڑتا ہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ شعبے نے مسودے پڑھنے کے لیے مختلف زبانوں کے مترجم ملازم رکھے ہیں جو انتہائی غور سے ایک ایک لفظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ریاستی قوانین کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنی رپورٹ تحریرا ً منیجر کو دیتے ہیں۔ اگر مسودے میں کوئی قابل اعتراض مواد شامل نہ کیا گیا ہو تو مصنف کو سرٹیفکیٹ کا اجراء کردیا جاتا ہے۔ 3 دن کے بعد میرا مسودہ واپس مل گیا۔ ہر صفحہ پر وزارت ثقافت و اطلاعات کے شعبہ رقابہ الاجنبیہ کی مہر ثبت تھی۔ ہمراہ سرٹیفکیٹ بھی تھاجس میں بڑے واضح انداز میں مصدقہ صفحات کی تعداد درج تھی۔ حدود و قیود نے بڑے نرم انداز میں میرا حدود اربعہ متعین کردیا تھا۔ نہ میں کسی لفظ کا اضافہ کرسکتا تھا اور نہ کوئی اضافی صفحہ شامل ہوسکتا تھا۔ پھر اگلا مرحلہ سامنے تھا۔ کتاب کی رجسٹریشن کرانا تھی۔ اسکے لیے مکتبہ الملک فہد جانا پڑا۔ تصنیف کو بین الاقوامی حلقوں میں احترام اور شناخت دلانے کے لیے وہاں ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بک نمبر نئی تصنیف کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ تحریر لاوارث نہیں رہتی۔ وہاں ایک دن لگا اور خصوصی سرٹیفکیٹ ملا۔ اب مسودہ طباعت کے لیے مستعد تھا۔ مشینوں نے اسے بصد رضا و فرحت قبول کیا اور تقریباً ایک ماہ بعد کتاب بازار میں تھی۔ بڑے سکون اور بے خوفی سے تقریب رونمائی کا انعقاد ہوا۔ پاکستان سے امجد اسلام امجد مدعو تھے جبکہ ہمارے وطن کے دوست ممالک کے چند سفراء نے بھی اجتماع کی رونق بڑھائی۔ سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کا اجازت نامہ تھا، مکتب الملک فہد میں ا ندراج ہوچکا تھا۔ مملکت کے قوانین و ضوابط برائے نشرو اشاعت کی جانچ پر تحریر پورا اتر چکی تھی اس لیے تقسیم کاروں نے اسے کتب فروشوں تک پہنچانے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہ کیا۔
2 برس گزرے۔پھر خیال آیا کہ ایسا ہی ایک اور مجموعہ اشاعت پذیر ہو۔ ایک سو کے قریب کالم باہم کیے اور ’’صحرا میں گونج‘‘ کے زیر عنوان وزارت ثقافت و اطلاعات کے مرکز اعلام میں جا رکھے۔ حسب سابق منظوری حاصل کی اور پھر مکتبہ الملک فہد سے رجسٹریشن کرائی۔ آج کل اشاعت ہورہی ہے۔ عیدالفطر کے بعد نذر قارئین ہوگی۔ انتہائی سادہ اور دلچسپ مراحل ہیں۔ یہ تو مملکت میں شائع ہونے والی کتب کے لیے طریقہ کار ہے۔ اگر کوئی باہر سے اپنی تصنیف یہاں لانا چاہتا ہے تو اس کی کتب ہوائی اڈے یا زمینی سفر کی صورت میں سرحد پر روک لی جاتی ہیں۔ایک نسخہ مکتب اعلام کو ارسال کیا جاتا ہے۔ منظوری مل جانے کی صورت میں روکے گئے نسخے مسافر کے حوالے کردئیے جاتے ہیں۔ راوی چین و سکون لکھتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ہندوستانی را کے سابق چیف امرجیت سندھ دلت کے ہمراہ ایک کتاب لکھی: The Spy Chronicles RAW, ISI and the Illusion of Peace کے زیر عنوان منصہ شہود پر آنے والی اس مشترکہ کاوش نے جنرل درانی کی وطن دوستی پر بہت سے سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ دونوں افسروں کی ملاقاتیں کب ہوتی رہیں؟ کیا کیا مکالمے ہوئے؟ کچھ تو نوشتہ صورت میں سامنے آگیا اور وہ بہت کچھ جو دوران گفتگو ایک دوسرے پر منکشف کیا گیا، کیا تھا؟ کس حال میں کیا کیا عیاں کیا گیا؟ کرہ ارض کی بہترین ایجنسی آئی ایس آئی کا سابقہ سربراہ جب باہمی ملاقاتوں میں ’’مسرور‘‘ کیا جاتا ہوگا تو پھر اگست 1990ء سے مارچ 1992ء تک کے ان پونے 2برسوں کے ہر لمحے کا احوال کہتا ہوگا۔ جب وہ سیاستدانوں کو اپنی انگلیوں پر رقص کراتا تھا ، انہیں اٹھا کر اپنی جیب میں ڈالتا تھا، ان کا بھاؤ لگاتا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت کا ارتکاب کیا ہے اور اپنے اس حلف سے غداری کی ہے جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرکے فوج میں ذمہ داریاں سنبھالنے والا ہر کیڈٹ اٹھاتا ہے۔ جنرل درانی کو فوج سے برطرف کیا گیا تھا ! حیف ! کہ بہت دیر میں جاکر ان کے لچھن قابل گرفت سمجھے گئے۔ اب معاملہ چونکہ کورٹ آف انکوائری میں ہے اس  لیے ہم فیصلے کا انتظار کریں گے اور واپس اس افطار کی میز پر آتے ہیں جہاں جنرل درانی کا تذکرہ تھا۔تب ہی کچھ حقائق آشکار ہوئے۔ 2000ء سے 2002ء تک کے 2برس جنرل اسد درانی مملکت میں پاکستان کے سفیر رہے تھے۔ خود تو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر سیاستدانوں کو ترازو میں تولتے رہے تھے لیکن ریاض میں سیاست پر گفتگو کرنے والے اپنے ہموطنوںسے متنفر تھے۔ اکثر غصے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے اور ناقابل یقین حرکتوں سے لوگوں کو ششدر کردیتے۔ ریاض میں اُن دنوں مسلم لیگ (ن) کے مقامی صدر عبدالعزیز بٹ نامی ہوا کرتے تھے۔ ایک بارپاکستانی اسکول ناصریہ میں مینا بازار منعقد ہوا۔ سفیر محترم بھی دورہ کرنے آئے۔ وہیں عبدالعزیز بٹ نے ہجوم میں سے آواز اٹھائی اور ایک سیاسی سوال کردیا۔ اسد درانی کا پارہ یکدم بلند ہوا۔ انہوں نے جواب دینے کی بجائے پاس پڑی کرسی اٹھائی اور اسے سر سے بلند کرتے ہوئے عبدالعزیز بٹ پر حملہ آور ہوگئے۔ ہمراہیوں نے بڑی مشکل سے کرسی چھینی ، صحافیوں سے موصوف کو خاص چڑ تھی اور اکثر ان کے سوالوں پر سیخ پا ہوجاتے ۔ مرحوم گل محمد بھٹہ ان دنوں ریاض میں نوائے وقت کے نمائندے تھے۔ چانسری ہال میں ایک اجتماع میں اسد درانی تقریر کر رہے تھے۔ اختتام پر بھٹہ نے ایک سوال کردیا۔ درانی بھڑک اٹھے اور چیخے ’’اوئے بیٹھ جاؤ ! بیٹھ جاؤ! تمہیں کون صحافی کہتا ہے؟ خیاط نسائی کے ویزے پر ہو تم !!‘‘ افطار کی اس میز پر اور بھی کچھ عیاں ہوا۔ ان ایک درجن کے قریب مسلم لیگیوں کی بات بھی چلی جنہیں اسددرانی نے سعودی عرب سے نکلوادیا تھا۔ ان میں انجینیئرافتخار چوہدری بھی تھا۔
ہم کورٹ آف انکوائری کے فیصلے کے منتظر رہیں گے۔
 

شیئر: