Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زُود فراموش

***جاوید اقبال***
ہم ایک انتہائی لاپرواہ، بے حس اور زُود فراموش قوم ہیں۔ ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ بحیرہ عرب اور خلیج عرب کے ملاپ پر واقع اس ننھی سی بندرگاہ گوادر کا سہرا پرویز مشرف کے سر ہے تو وہ غلط ہیں اور اگر کچھ کا خیال ہے کہ بلوچستان کے ساحلوں سے ٹکراتے گرم پانیوں کی اس آغوش کے وجود کا سبب آصف علی زرداری اور ان کی حکومت ہے تو یہ بھی خیال خام ہے اور اگر کوئی اپنے ذہن میں یہ یقین بسائے بیٹھا ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے مشرق میں 75  کلومیٹر کی دوری پر گہرے پانیوں کا حامل یہ گوادر کا ساحل اپنے وجود کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت کا مرہون منت ہے تو اس کی یہ سوچ بھی صرف جنون ہے۔ ہم بہت لاپروا اور زود فراموش ہیں۔ ہم نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ سہرا جو ہر حاکم اپنے سر پر باندھنے کی کوشش کررہا ہے دراصل 70 برس قبل کسی اور کے سر کی زینت بن چکا ہے لیکن چونکہ ہم لاپروا ہیں، چونکہ ہم زود فراموش ہیں اس لیے ہمیں ہر دم ضرورت رہتی ہے کہ کوئی آکر ہمارے ماضی کے اوراق کھولے اور ہم پر ہماری ہی حقیقت واضح کرے۔
بحیرہ عرب کے مغربی کونے پر واقع یہ چھوٹا سا ساحلی قصبہ 1784ء سے پہلے خان آف قلات میر محمد نصیر خان اول کی حکومتی عملداری میں تھا لیکن وہ مقامی قبائل کی شورش سے نالاں تھا۔ انہی دنوں پڑوسی ریاست مسقط میں اقتدار کی جنگ گرم تھی۔ آل سعید وہاں کے حکمراں تھے۔ سلطان بن احمد آل سعید اپنے بھائی سعید بن احمد سے اس کشمکش میں شکست کھا کر مسقط سے بھاگا اور گوادر میں پناہ گزیں ہوگیا۔ یہ 1784ء کی بات ہے ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اس ساحلی قصبے کا مالک تو خان آف قلات تھا لیکن اس پر مسقط کے حکمران کو پناہ دی گئی تھی۔ 8 برس گزرنے کے بعد سلطان بن احمد آل سعید نے اپنا جنگی بیڑا گوادر سے نکالا اور مسقط پر حملہ آور ہوگیا۔ کامیابی نصیب ہوئی تاہم اپنی آبائی ریاست میں حصول اقتدار کے بعد بھی سلطان بن احمد نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور وہاں اپنا گورنر مقرر کرنے کے بعد ایک قلعہ کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ 1784ء سے گوادر پر مسقط کا آل سعید خاندان حکمران رہا۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو مختلف ریاستوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا شروع کیا۔ 15 اگست 1947ء کو برطانوی بلوچستان کے صوبے نے جبکہ خاران ، مکران اور لسبیلہ نے 17 مارچ 1948ء اور قلات نے 27 جون 1948ء کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ اسی وقت ہی گوادر کے شہریوں نے بھی پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کردیا۔ بحیرہ عرب کے گہرے پانیوں پر واقع اس قصبے کے بارے میں ہمیشہ ہی خیال کیا جاتا تھا کہ آنے والے برسوں میں یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ 1954ء میں پاکستانی حکومت نے امریکی جیولوجیکل سروے کے ارکان سے گوادر کا سروے کرنے کو کہا۔ ٹیم کے نگران ورتھ کانڈ ریک نے اس کے ساحل کو گہرے پانی کی بندرگاہ کے لیے مثالی قرار دے دیا۔ تب حکومت پاکستان نے مسقط اور عمان کے سلطان سعید بن تیمور سے تحریری طور پر درخواست کردی کہ گوادر کو پاکستان کا حصہ قرار دے دیا جائے۔ مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ عمان سرکاری طور پر برطانیہ کی عملداری میں تھا۔ کوئی بھی فیصلہ حکومت برطانیہ کی منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ تو تھالیکن ایک اور عذاب بھی درپیش تھا۔ انہی دنوں امریکہ نے ایران میں مصدق کی روس نواز حکومت کا تختہ الٹ کر نوخیز محمد رضا شاہ پہلوی کو تخت طاؤس پر بٹھا یا تھا اور سی آئی اے کی کوشش تھی کہ گوادر کو شاہ ایران کی جھولی میں ڈالا جائے۔ برطانوی حکومت سخت دباؤ میں تھی اور تبھی وہ نیک سیرت خاتون منصہ شہود پر آئی جو آج ہماری تاریخ کے حواشی میں بھی موجود نہیں لیکن جس نے تن تنہا برطانوی حکومتی ایوانوں اور پارلیمان میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور فتح حاصل کی۔ یہ خاتون جو اسلام قبول کرنے کے بعد وقار النساء نون ہوئیں اصلا آسٹریائی عیسائی تھیں۔ وکٹوریہ رکھینی نام تھا ملک فیروز خان نون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد وکٹوریہ سے وقار النساء ہوئیں اور اپنا آپ پاکستان پر نچھاور کردیا۔ 1956ء میں جب سی آئی اے مسلسل برطانوی حکومت پر زور ڈال رہی تھی کہ وہ گوادر کو ایران کے حوالے کرے ، وقار النساء نون برطانوی پارلیمان اور حکومت میں لگاتار پاکستان کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ سر ونسٹن چرچل ان دنوں وزارت عظمی سے مستعفی ہوکر حکومتی مصروفیات سے تقریبا کنارہ کش ہوچکے تھے۔ وقار النساء نے ان سے بھی ملاقات کی اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ ایک سفید فام راہنما کی نظروں میں سفید فام خاتون کی التجا یقینا زیادہ وقعت کی حامل تھی۔ چنانچہ برطانوی دار الامراء نے سی آئی اے کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
برطانوی پارلیمان میں نومسلم وقار النساء نون نے تن تنہا اپنے نئے وطن کا مقدمہ لڑا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ آخری 6 ماہ کے مذاکرات انتہائی سخت اور اہم تھے۔ 7 ستمبر 1958ء کو ان کے خاوند پاکستان کے 7ویں وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کی خوشخبری دی۔ اگلے 3 ماہ معاملات کو اختتام تک پہنچایا گیا۔ 3 لاکھ امریکی ڈالر کے عوض گوادر پاکستان کے نام کردی گئی۔ رقم آغا خان نے عطیہ کی۔ 8 دسمبر 1958ء کو سرکاری طور پر بحیرہ عرب پر واقع عمیق پانیوں والا یہ قصبہ پاکستان بن گیا۔
تاریخ کے اس کہر آلود گوشے کا کتنوںکو علم ہے؟ آج گوادر کا نام ذہن میں آتے ہی کیسے کیسے نعرے گونجتے ہیں؟ جنرل مشرف زندہ باد !  ۔ ۔ ۔ ۔  نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ آصف زرداری زندہ باد  ! ۔ ۔ ۔  نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ بالکل غلط !  ۔ ۔ ۔  نواز شریف زندہ باد  ! !  ۔ ۔ ۔  بالکل نہیں ! !
کہیں سے ، کسی گوشے سے یہ صدا بلند نہیں ہوتی ! وکٹوریہ رکھینی ۔ ۔ ۔  وقار النساء نون  ۔ ۔ ۔  زندہ باد  ۔ ۔ ۔  وطن پاک کی محسنہ پائندہ باد  !  ہم ایک انتہائی لاپروا ، بے حس اور زُود فراموش قوم ہیں۔ 
 

شیئر: