Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہُلّڑ

***جاوید اقبال***
ہٹلر کا پروپیگنڈا منسٹر  یوں تو صرف ایک جملہ کہہ گیا تھامگر ان چند الفاظ میں دروغ گو اور بدنیت انسانوں کے لیے کئی راہیں متعین کر گیا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے‘‘ ۔یہ دوسری عالمی جنگ کے دوران گوئبلز کی پروپیگنڈا مشین کا ہی سحر تھا کہ روسی فوجیں برلن پر دستک دے رہی تھیں اور توپوں کی گھن گرج تلے لرزتا شہر ڈھے جانے کو تیار بیٹھا تھا مگر جرمن شہری اسی یقین میں تھے کہ فیوہرر ہٹلر بس اب دنوں میں فاتح عالم ہونے والا ہے اور پارکنسزم کے مرض ہٹلر کو بھی گوئبلز کے دروغ نے یہ باور کرا رکھا تھا کہ ہر محاذ پر اتحادی پسپا ہورہے تھے۔جرمن رہنما بڑے پرُاعتماد  انداز میں اپنے کمانڈروں رومیل ، گوئرنگ اور دوسروں کو آخری دن تک احکامات دیتا رہا تھااور آج اس جنگ کی تقریباً 8 دہائیوں بعد سوشل میڈیا کی یلغار نے انسانی ذہن کو عاجز کرکے رکھ دیا ہے۔ کہاں جاکے جھوٹ کی حدیں رکتی ہیں اور کہاں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے کچھ اندازہ نہیں ہوپارہا۔ ان دنوں سیاست کا بازار گرم ہے۔ سوشل میڈیا نے طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک مختصر سا کلپ دیکھا ’’فوجی حکومتوں کا عرصہ اقتدار 42 برس ، پیپلز پارٹی کا عرصہ 14 برس اورمسلم لیگ کا عرصہ اقتدار 9 برس۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی مسلم لیگ کے دور حکومت میں ہوئی‘‘۔ 
تو اب کیا صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سیاسی اور شخصی تعصبات نے نقطہ ہائے نظر کو افسوسناک حد تک یکطرفہ کرنا شروع کردیا ہے؟ آج بھی پاکستان میں ایسی نسل موجود ہے جس نے بقائمی ٔ ہوش و حواس اپنے وطن کے 70 برس دیکھے ہیں۔ ان بزرگوں کا ہمیشہ سے بجاطور پر یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان کا ہر لحاظ سے بہترین دور وہ تھا جب ایوب خان نے اسے ترقی کی راہوں پر ڈالا تھا۔  جب اس نے اگست 1959ء میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر Elected Bodies Disqulification Orderکے زیر عنوان ایک حکمنامے کا اجرا کرکے ایک دوسرے پر گزشتہ 12برس سے جھپٹتے ، اقتدار کے لیے لڑتے ، نوچتے جھگڑتے 78 سیاستدانوں پر پابندی لگائی تھی۔ ’’ایبڈو‘‘ کے نام سے معروف اس ڈنڈے نے ملک میں سکوت طاری کردیا تھا اور پھر ایوب خان نے تعلیم یافتہ ماہرین کو وزراء کے طور پر لیا۔ وزیر خزانہ شعیب ، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، وزیر منصوبہ بندی ایم ایم احمد ، وزیر قانون ایس ایم ظفر جیسے نابغہ ہائے روزگار راضی خوشی کام پر لگ گئے۔ ملک اٹھا اور اس کا شہرہ کرہ ارض پر پھیلا۔ کوریا تک کے ماہرین بھاگے بھاگے آئے اور ہمارا پنج سالہ منصوبہ مانگ کر لے گئے جس پر من وعن عمل کرکے انہوں نے اگلے 10 برسوں میں اپنے جزیرہ نما کو ایشین ٹائیگر بنادیا۔ یہاں مختصراً اُن منصوبوں کا ذکر کرنا مناسب رہے گا جو ایوب خان کے زیر نگرانی تکمیل کو پہنچے۔
دارالحکومت کراچی سے محفوظ مقام اسلام آباد پر منتقل کیا گیا اور ایک منصوبے کے تحت اس کی منظم تعمیر عمل میں لائی گئی۔ زرعی میدان میںسارے ملک میں اشتمالِ اراضیات کرایا گیا۔ یوں گندم میں خو د کفالت کی طرف سفر کا آغاز ہوا۔ فیصل آباد میں ایشیاء کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں مختلف ممالک سے طلباء بھی حصول تعلیم کے لیے آتے تھے۔ یہ دانش گاہ 100 ایکڑ رقبے پر تعمیر کی گئی۔ پاکستانیوں کو آبپاشی اور بجلی میں خوشحال کرنے کے لیے وارسک ، تربیلا اور منگلا ڈیم بنوائے گئے۔ کالا باغ ڈیم کی بنیاد رکھی گئی جو بعد کے برسوں میں سیاسی چشمکوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آج بھی تشنہ تکمیل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کو توسیع دے کر نہر کے دونوں طرف 27 مربع اراضی الاٹ کرکے اس پر عمارات تعمیر کرائی گئیں۔ دریائے راوی ، چناب ، جہلم اور اٹک پر نئے پل تعمیر کرائے گئے۔ سکھر میںدریائے سندھ پر نئے پل کے ساتھ ساتھ انتہائی چوڑے پاٹ پر ستونوں کا شاندار معلق پل بنوایا گیا۔ کراچی سے حیدرآباد تک 100 میل لمبی سپرہائی وے تعمیر کرائی گئی۔ ٹیکسلا کے مقام پر ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور پہاڑوں کے اندر ٹینک ساز فیکٹری کا قیام عمل میں لایا گیا۔  آج یہ فیکٹری مشہور الخالد ٹینک تیار کرتی ہے۔ رسالپور میں ریلوے انجن بنانے کی فیکٹری لگائی گئی جبکہ اسلام  آباد میں ریلوے کی بوگیاں تیار کرنے کا کارخانہ قائم کیا گیا۔ لاہور ، کراچی ، فیصل آباد اور ملتان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ فیصل آباد کے کارخانوں میں اتنا  اعلیٰ کپڑا تیار ہوتا تھا کہ اسے پاکستان کا مانچسٹر کہا جانے لگا۔اس کے ساتھ ہی کپڑے کی صنعت کو ملک کے تعلیمی حلقوں میں فروغ دینے کے لیے فیصل آباد میں ہی کئی ایکڑ رقبے پر ٹیکسٹائل یونیورسٹی قائم کی گئی۔ ایوب خان کے دور میں ہی لاہور سے خانیوال تک تجرباتی طور پر الیکٹرک ٹرین چلائی گئی۔ بعد کے برسوں میں ہماری عزیز از جان قوم اس ٹرین کی تاریں اور بجلی کے کھمبے تک بیچ کر کھا گئی۔ اسی دس سالہ دور میں مشرقی پاکستان میں چائے تیار کرنے کے کارخانے اور بانس سے کاغذ تیار کرنے کی ایک عظیم الشان کرنافلی پیپر مل لگائی گئی۔ پٹ سن سے کپڑا اور بوریاں بنانے کے لیے جوٹ ملیں قائم کی گئیں جبکہ لاکھوں مچھیروں کی کشتیوں میں انجن لگائے گئے تاکہ انہیں سمندر میں دور تک جاکر ماہی گیری کرنے میں آسانی ہو۔ اسی ایوب خان کے وقت میں بٹالہ انجینیئرنگ کمپنی بیکو نے بائیسکل کے بعد کاریں بنانے کا آغازبھی کردیا تھا اور اس کارخانے کا دورہ خصوصا چینی وزیراعظم چُو این لائی نے بھی کیا تھا۔ بعد کے برسوں میں صنعتی انحطاط کی ضرب بیکو کا مالک چوہدری بشیر سہہ نہ سکا اور وطن چھوڑ کر بڑے سکوت اور گمنامی میں جرمنی میں جامرا۔
تو یہ ایوب خان تھا ! فوجی آمر ! وطن عزیز کی سیاسی زندگی کو گھُن کی طرح چاٹتا ایک سرطان ! میں اپنا ایک چشم دید واقعہ یہاں بیان کرتا ہوں۔ 1963ء کے آخری مہینوں کا ذکر ہے۔ ہمارا کالج جی ٹی روڈ پر واقع تھا۔ ایک صبح معلوم ہوا کہ صدر ایوب خان منگلا ڈیم کا افتتاح کرنے آرہے ہیں۔ صرف 12,11 کلومیٹر دور برال کالونی میں تقریب تھی۔ ہم ایک درجن کے قریب طلباء اپنے بائیسکل سنبھال کر چل دیئے۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پہنچ گئے۔ ان دنوں راہنماؤں کے لیے اتنے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے تھے۔ نصف درجن کے قریب کاہل الوجود پولیس کے سپاہیوں نے لاپرواہی سے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ کھلے میدان میں قنات کے نیچے کرسیاں لگی تھیں۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہیلی کاپٹر آن اترا۔ سرخ و سفید ایوب خان شاندار وردی میں باہر آئے۔ چند لوگوں سے ہاتھ ملایا اور اگلی صف میں بیٹھ گئے۔ تقریب کا آغاز ہوا۔ قاری نے سورہ حدید کی تلاوت سے آغاز کیا اور پھر ہم ششدر رہ گئے۔ آیات ربانی کی گونج سکوت کا سینہ چیر رہی تھی۔ ایوب خان نے پتلون کی جیب میں سے رومال نکالا اور اپنی آنکھوں میں امنڈے آنسو پونچھنے لگ پڑے۔ چھولداری کے سائے میں بیٹھا مجمع ساکت تھا۔ کلام ربانی کی اٹھان  ۔  ۔  ۔  اور اشکوں سے تر 2 آنکھیں ! ! چھوڑو یارو ! کیوں سوشل میڈیا پر ہلڑ مچاتے ہو۔
 

شیئر: