اسلامی نظریاتی کونسل ساڑھے6ہزار سفارشات مرتب کر چکی، اللہ بخش کلیار
اب تک 211اجلاس ہوئے ہیں،سود، کوٹہ سسٹم، خلع و طلاق، قانون شہادت، قانون ناموسِ رسالت، قانون قصاص،احترام رمضان آرڈینس جیسے لا تعداد موضوعات پر عمل ہوچکا، رکن کونسل کی اردونیوز سے گفتگو
محمد عامل عثمانی۔مکہ مکرمہ
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن ملک اللہ بخش کلیار عمرہ کی ادائیگی کے لئے ارض مقدس آئے ہوئے ہیں۔ان سے محلہ المسفلہ میں ملاقات ہوئی جس کے دوران کونسل کی تشکیل اور اغراض و مقاصد کے حوالے سے گفتگو ہوئی ۔ انہوں نے اردو نےوز سے بات چیت میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کاایک آئینی ادارہ ہے۔اسے 1962ءکے آئین کی اسلامی دفعات کے نتیجے میں آرٹیکل 204 کے تحت تشکیل دیا گیا۔ اس وقت اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیاتھا۔ 1973ءکے آئین میں اس کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔
آئین کی شق نمبر 227 کے مطابق پاکستان میںقرآن وسنت طیبہ سے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ اس قانون پر عمل درآمدکی غرض سے آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کا قرآن و حدیث طیبہ کی روشنی میںجائزہ لے کر 15 دنوں کے اندراپنی سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے۔بات واضح ہے کہ آئین پاکستان کی ابتدا میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اسلام ریاست کا مذہب ہے۔ آئین کے تحت تمام مروجہ قوانین کو اسلامی روح اور قرآن و سنت طیبہ کے مطابق بنایا جائے گا اور اس سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی جبکہ غیر مسلموں کے لئے ان کے پرسنل لاز کے مطابق عمل کیا جائے گا جنہیںکسی طور متاثر نہیں کیا جائے گا۔ریاست ایسے اقدامات کرے گی جن کی مدد سے مسلمان اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ ملک میں جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور سماجی انصاف ہوگا۔ اس مقصد کے لئے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ایسی سفارشات پیش کرے کہ جن سے مسلمانان پاکستان کو ایسی رہنمائی مل سکے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں اور تصور کے تحت بسر کر سکیں۔ کونسل ایسی سفارشات طے اور لائحہ عمل مرتب کرے جس کے مطابق مروجہ قوانین کو اسلامی روح کے مطابق ڈھالا جاسکے یعنی ایسی سفارشات پیش کرے جنہیں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں قانونی شکل دے سکیں۔
دستور کی شق نمبر 228 میں یہ کہا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوگی جن کا انتخاب صدر پاکستان کریں گے۔ ممبران میں ایسے افراد شامل ہونگے جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، وہ قرآن و سنت طیبہ ،معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔ دو ممبران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار کے لئے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ ایک خاتون ممبربھی لازمی ہوگی۔ ممبران کی مدت تین سال رکھی گئی ہے۔ اب تک کونسل کے 211 اجلاس ہوچکے ہیں جن میں قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظاموں کا جائزہ لے کر ساڑھے 6 ہزار سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔90 سے زائد سفارشات جن میںسود، کوٹہ سسٹم، خلع و طلاق، قانون شہادت، قانون ناموسِ رسالت، قانون قصاص،احترام رمضان آرڈینس، وراثت، حق ملکیت، خواتین و بچوں کے حقوق اور غیر شرعی رسومات جیسے لا تعداد موضوعات پر عمل ہوچکا ہے بقیہ پر حکومت سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل ہر سال اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے جسے دونوں ایوانوں میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔اسی طرح صوبائی اسمبلیاں اس کی وصولی کے 6 ماہ کے اندر اسے قانونی شکل دے دیتی ہیں۔
ملک اللہ بخش کلیار 3 کتابوں کے مصنف ہیں پہلی کتاب کا نام مستجاب دعائیں، دوسری اسرار دل اور ± تیسری کا نام قرآنی دعوت فکر ہے۔ نور طیبہ اور آگہی کے نام سے کالم بھی پاکستان کے مختلف اخبارات میں لکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭