Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ ، جونگ ملاقات امن کےلئے نیا پیغام

***صلاح الدین حیدر۔ بیورو چیف***
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے چیئر مین کم جونگ اَن نے سنگاپور میں ملاقات کرکے دنیا کو امن کا ایک نیا پیغام دیا ہے ۔دونوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کر کے ایک نیا پیغام دیاہے کہ کوریا کو نیوکلیئر فری علاقہ بنا کر خطے میں خاص طور پر اور عالمی طور پر امن و سلامتی کا آغاز ہوگا۔
معاملات کو سمجھنے سے پہلے کوریا کی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔ہزاروں سال کی تاریخ ، تہذیب و تمدن والا جزیرہ نما خطہ 1905میں روس و جاپان معاہدے کے تحت جاپا ن کے قبضے میں آیا، لیکن اس عمل کو مکمل کرنے میں 5سال لگ گئے۔1910سے  1945 تک35 سال کے عرصہ کوریا پوری طرح جاپان کا مفتوح علاقہ رہالیکن دوسری جنگ عظیم ختم ہوتے ہی امریکی ، برطانوی اور روسی قائدین ، فرینکل روزویلٹ ، سر واشگٹن چرچل اور جوزف اسٹالن نے آپس میں مقبوضہ کے تحت اسکے حصے بخرے کر دیئے اور ایک اچھا خاصا ملک 2 ٹکڑوں میں بٹ گیا۔شمالی کوریا سابق سویت یونین کے زیرِثر آگیا اور امریکی افواج نے جنوبی کوریا پر اپنا حق جتا دیا۔چند سالوں بعد ہی 1950سے 1953 تک کوریا میں چین اور امریکہ کی جنگ ہوئی اور بالآخر گو کہ جنوبی کوریا ایک نیا ملک ہی بنا رہا، مگر اس پر امریکہ کا تسلط آج تک قائم ہے۔ 
شمالی کوریا کے اصل لیڈر کم لی سونگ نے کمیونزم فیصلے کے تحت وطن عزیز کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کیا جو کہ ان کے بیٹے ، ملک کے موجودہ چیئر مین کم جونگ اَن نے آج تک سلسلہ جاری رکھامگر گزشتہ چند سالوں میں شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے جاپان اور جنوبی کوریا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ امریکہ برسوں سے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو روکنے میں ناکام رہا ۔  نتیجتاً شمالی اور جنوبی کوریا کے قائدین کے درمیان دو نوں ملکوں کو ایک کرنے کے معاملے پربات چیت شروع ہوئی مگر بے سود ۔ٹرمپ نے شمالی کوریا کودھمکی دی کہ امریکہ اسے تباہ و برباد کردے گا مگر 2جنگوں کے بعد اب یہ بات سب کو سمجھ آگئی ہے کہ مذکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، جنگوں سے کوئی فائدہ نہیں۔
چین اور سابق سویت یونین امریکہ کیلئے شجرممنوعہ کا درجہ رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ پاکستان کو بھی اُن سے روابط رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔یہ اور بات ہے کہ 60کی دہائی میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کونئی راہ دکھائی اور چین اور سوویت یونین ہمارے دوست بن گئے۔بدلتے ہوئے حالات میںا مریکی صدر رچرڈ نکسن کو بھی احساس ہوا کہ انہیں اپنی روش بدلنی پڑے گی ۔1972ء   میںنکسن نے چین کا دورہ کرکے امن و سلامتی کی نئی راہ اختیار کی۔ دنیا نے سکھ کا سانس لیا۔ٹرمپ اور کم جونگ اَن کی 12جون کی ملاقات  کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے
پوری دنیا کی نگاہیں اس اہم سربراہان کی ملاقات پر مرکوز تھیں۔پہلی ہی ملاقات میں دونوں قائدین نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے شمالی کوریا کا نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر آمادہ ہوئے جو کرہ عرض کے لیے پچھلے کئی دہائیوں کی سب سے بڑی خوشخبری تھی۔ ٹرمپ اور کم جونگ اَن نے ذہانت کا ثبوت دیا ۔ جاپان اور جنوبی کوریا کے ردعمل کا انتظار تھا لیکن دونوں ہی یقینابہت خوش ہوں گے۔خطے سے جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹ گئے اور اب تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوتا نظر آتاہے۔
واشگٹن میں بیٹھ کر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ امریکی ملاقات سے کافی خوش نظرآتا ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔سربراہان کی ملاقات کے نتائج حوصلہ افزا تھے ۔سی این این، فوکس نیوز، نیو یارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ سب نے اس کا خیر مقدم کیا۔ 
گو چند تحفظات بھی تھے۔ ایسے تحفظات بالکل فطری ہیں۔ برسوں کی لفظی جنگ کے بعدا من کے مذکرات کے نتائج آنے میں وقت لگتاہے۔ مجھے عام امریکیوں سے ملاقات کرکے ان کی خوشیوں کا اندازہ ہوا ۔ خوشی ہے کہ ملاقات کے اچھے اثرات شروع سے ہی نظر آنے لگے ہیں۔ 
 

شیئر: