Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات کے بارے میں شکوک و شبھات

***صلاح الدین حیدر***
قومی اسمبلی آدھی رات کو تحلیل ہو چکی ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی عہدہ چھوڑ کے سرکاری رہائش خالی کرچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی ہے کہ الیکشن طے شدہ تاریخ 25جولائی کو ہی ہوں گے لیکن کچھ واقعات اور شواہد اب بھی شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں۔3,2 باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اوّل تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا اعلان کہ 6اضلاع کے حلقوںمیں تبدیلیاں ابھی تک فیصلوں کی منتظر ہیں، دوئم یہ بھی خبرہے کہ بلوچستان نے انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا اور اور تیسرے ایم کیو ایم کی بائیکاٹ کی دھمکی۔اس سب کے باوجود الیکشن ہو سکتے ہیں۔متنازعہ علاقوں میں بعدمیں کسی اور تاریخ کو ہو ں گے۔ قانونی اور آئینی طریقے سے تو یہ ممکن ہے لیکن بد انتظامی اور جھگڑے ، فساد کا گڑ ھ ہے جو نگراںوزیر اعظم ناصر الملک کیلئے بھی درد سر بن سکتا ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کا کہنا ہے کہ جولائی کے مہینے میں پاکستانی بڑی تعداد میں حج پر ہوں گے اسلئے الیکشن اگست کے آخر میںکرائے جائیں۔شیخ رشید تو کئی باراس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں۔ 
پھر عمران خان کا پہلے سے چنندہ نگراں وزیر اعلیٰ کے فیصلے کو رد کردینا، اور کچھ ایسی صورتحال پنجاب میں بھی ہے جہاں پہلے سے نگراں وزیر اعلیٰ ناصر محمود پر ایک نیا جھگڑا شروع ہوگیا۔پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن لیڈر نے وزیراعلیٰ شہبا شریف سے میٹنگ کے بعد ناصر محمود کھوسہ پر حامی بھر لی تھی لیکن جب میڈیا نے یہ سوال اٹھایا کہ ناصر محمود سابق وزیراعظم نوازشریف کے ماتحت کی حیثیت سے لمبے عرصے کام کر چکے ہیں، تو عمران خان نے اس کی مخالفت کردی اور اب کسی نئے نگراں وزیر اعلیٰ کی تلاش جاری ہے۔ پی ٹی آئی نے 2 نام دئیے ہیں ، لیکن ان میں سے ایک نے پہلے ہی معذرت کرلی ہے۔ سندھ میں بھی صورتحال کشیدہ ہیں۔ ایم کیو ایم جو کہ سندھ اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ے ملاقات کی۔ اب ایم کیو ایم نے دھمکی دی ہے کہ جب تک حلقہ بندیوں پر اتفاق نہیں ہوتا، وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ڈاکٹر فاروق ستار جوابھی تک پی آئی بی کالونی کے دھڑے کے سربراہ ہیں، نے شدید انداز میں غم وغصے کا اظہار کیا ہے کہ مہاجر یا اردو بولنے والوں کے ساتھ جان بوجھ کر امتیازی سلوک کیا جارہاہے۔ ایسے میں انکی پارٹی انتخابات کی شدید مخالفت کریگی اور بائیکاٹ کے لیے ابھی سے تیار ہے۔ 
اس تمام صورتحال میں تجزیہ کیا جائے تو انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ دیکھیں (ن) لیگ ، الیکشن کمیشن اور نگراں وزیرا عظم جسٹس ناصر الملک کیا فیصلہ کرتے ہیں،کیا ان میںبھی اتفاق رائے ہوسکے گا، ورنہ پھر؟
 

شیئر: