Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمان امریکہ میں بالکل محفوظ ہیں

***صلاح الدین حیدر ***
امریکہ آنے کا میرا مقصد تو نواسی کی ہائی اسکول گریجویشن تقریب میں شرکت تھی۔جو مناظر pine اسکول ، جنوبی ریاست فلوریڈا میںنظروں سے گزرے وہ ہم سب کے لیے کسی سبق سے کم نہیں تھے۔ پاکستان میں اسکول کی تقسیم اسناد کا تصور ہی نہیں۔ صرف یورنیورسٹی میں BA  اور MAکی طلباء کیلئے یہ رسم ادا کی جاتی ہے ، لیکن اگر ہم بھی وہاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کو 12سال پر محیط کر کے کالج یا یونیورسٹی کی طرح بچوں کو تقسیم اسناد سے روشناس کرائیں تو اُن میں زیادہ اعتماد آئے گا اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ذہنی طور پر بہتر تیاری کرسکیں گے۔
میری نواسی فائزہ امریکہ میں پیدا ہوئی۔  12 سال تک pineاسکول میں تعلیم مکمل کرکے اب وہ ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے والی ہے۔ گریجویشن تقریباً انتہائی سادہ اورپُرجوش تھی۔ اسکول پرنسپل کی افتتاحی تقریب کے بعد 2لڑکیوں کو اپنے تجربات کے بارے میں ہال میں موجود اساتذہ، والدین اور دوسرے مہمان کو باور کرانا تھا کہ انہیں کیا سکھایا گیا۔ محض کتابی نصاب ہی نہیں  بلکہ اچھا انسان بنانا مقصود تھا۔ 2 لڑکیاں  میری نواسی فائزہ احمد ، اور صوفیہ سیگل نے اپنی تقریر سے مہمانوں کو بے انتہا محظوظ کیا ۔ہال میں موجود لوگ کبھی ہنستے اور کبھی  خوشی سے آنسونکل پڑتے۔ماحول یقینا جذباتی مگر ملا جلا تھا ۔پاکستان میںان روایت کا آغاز کرد ینا چاہیے ۔ایک تو ہمارا نظام ِ تعلیم ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹری کے علاوہ اور کچھ نہیں دیتا۔انسان بنانا تو دور کی بات، وہ تو گورنمنٹ اسکول سے نقل اور بدمعاشی سیکھتے ہیں۔دوسری طرف پرائیویٹ اسکول تعلیم و تربیت گاہ کی بجائے کاروبار بن چکے ہیں۔ فیس اس قدر زیادہ ہے کہ اوسط درجے کے والدین تو گھر بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔انسانیت تو ویسے بھی مقصود نہیں تھا، بس تجارت بڑھانا ہی ان پرائیویٹ اسکولوںکا کام ہے۔ 
امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران مجھے کچھ اور بھی سوچنے سمجھنے کا موقع ملا ، مثلاً یہی کہ امریکہ میں پاکستانیوں اور مسلمانوں پر کیا گزرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے پس منظرمیں اچھی خاصی افواہیں پھیلا دی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہور ہاہے، ا ن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاہے۔حقائق معلوم کرنے پر کم ازکم مجھے تو اس میںمبالغہ آرائی زیادہ نظر آئی۔ اس ملک میں قانون کا راج ہے۔اگر کچھ واقعات اس قسم کے ہوئے بھی ہوں جہاں رنگ و نسل کی بنیاد پر قومی اور بیرونِ ممالک سے تعلق رکھنے والے جو امریکہ میں 40/50 سال یا 10،20 سال سے رہائش پذیر ہیں امتیازی سلوک رنگ و نسل کی بنیاد پر اکادکا ہوئے ہوں تو ہوں، لیکن انتظامیہ یا ریاست کا اس میں کوئی حصہ کبھی بھی نہیں رہا۔سب سے یکساں سلوک ہوتاہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ خواہ وہ گورے ہوں یا کالے ، کسی میں تمیز نہیں کی جاتی ۔ اگر ایک سفید نسل ملک میں کالا افریقی صدر مملکت ہو سکتاہے، تو اب یہاں مشرقی اسٹیٹ جارجیا میں ایک کالی نسل کی عورت stacey abramکو ڈیموکریٹ پارٹی نے گورنر جیسے اہم منصب کے لیے نامزد کیا ہے۔ آنجہانی جان ایف کینیڈی اور اسکے بعد کالے امریکہ کو برابری کے حقوق کی جدو جہد کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ کو قتل تو کر دیا گیا لیکن ان کا خون رائیگاں نہیںگیا اور آج امریکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ڈونلڈٹرمپ کا نظریۂ زندگی اور پالیسی کچھ بھی ہوں ، عام آدمی سینیٹ اور کانگریس  کے ممبران ان سے پوری طرح متفق نہیں ۔ یہی امریکہ کی اصل طاقت ہے۔ اس کا نظام جو کسی میں تفریق نہیں کرتا رنگ ونسل کی بنیاد پر تفریق کا نعرہ ہے یا بیان یا محض پروپیگنڈا ہے۔ٹرمپ کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا لیکن صرف ایک ہفتے پہلے ایک مشہور مصنف نے مضمون میں اعداد و شمار پیش کیے ہیں جہاں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ معیشت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ 
 

شیئر: