صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
ایک سیاست دان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نااہلی کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہئے۔ ارے بھئی کوئی ان کو سمجھائے کہ بھائی صاحب، حکومت کی نااہلی نہیں بلکہ نااہلیوں کی سزا صرف عوام کو ہی ملتی ہے۔ اگر حکمرانوں کو ملی ہوتی تو آج ہمارے ہاں کوئی حکومت تو ڈھنگ کی آئی ہوتی۔ اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ ہمارے صاحبان اور سیاست دان آپس میں گتھم گتھا ہیں کیونکہ ہمارے صاحبان اپنی ناکامیوں ، نااہلیوں کی ذمہ داری نااہل ہو کر بھی قبول نہیں کرتے او راپنی مخالف حریف پارٹیوں سے خوب جم کر زبانی کلامی جنگ میں لفظوں کے تیر اور گولہ بارود ایک دوسرے پر برساتے ذرا نہیں تھکتے بلکہ ساتھ ہی جوتوں لاتوں ڈنڈوں سے بھی ایک دوسرے کی خبر لی جاتی ہے۔ اکثر ہمارے سیاست دان اپنے سینوں میں دبے راز آشکار کرنے کا بیان دے کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ راز بتاتے پھر بھی نہیں۔
ہمارے اکثر سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اس لئے ان کی سیاست صرف مفادات کی تابع ہوتی ہے اور انہیں جہاں فائدہ دکھائی دیتا ہے،وہیں کھنچے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ایک ہی خاندان کے لوگ مختلف پارٹیوں میں نظر آتے ہیں مثلاً باپ”ڑ“ پارٹی میں ہے توبیٹا ”ڈ“میں ۔ اسی طرح بھائی”عین“ گروپ میں ہے تو بہنوئی ”غین“ پارٹی میں۔ اس تنوع کا مقصد یہ ہے کہ سیاست میں عمل دخل برقرار رہے اور وزارتیں چلتی رہیں ،چاہے حکومت چلے نہ چلے۔
جب ہمارے سیاست دان حکومت سے دور ہوتے ہیں توان میں سے اکثر ذہنی مریض ہو جاتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ وہ اتنے وہمی اور شکی ہو جاتے ہیں کہ انہیں ہیولے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ وہ خود زمین پر ہوتے ہیں مگر ان کے خیال میں ان کے خلاف غیر زمینی مقامات سے سازشیں کی جاتی ہیںجس کا وہ ذکر کرتے نہیں تھکتے۔اب تو مزید انہونے شکوک و شبہات ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ بھلا بتائیے،غیر زمینی اقوام تو خود انسانوں سے بھاگتی پھرتی ہیں۔ ہالی وڈ والے انہیں کروڑ کوششوں سے ڈھونڈتے ہیں اور فوراًانہیں فلموں میں کاسٹ کر لیتے ہیںپھر بھی وہ غیر زمینی مرد و زن انسانوں کے جھانسے میں نہیں آرہے۔ لگتا ہے کہ وہ زمینی اقوام یعنی انسانوں کی فطرت سے واقف ہیں اس لئے سمجھتے ہیں کہ جس دن انسان کے ہتھے چڑھے توان کا باہمی اتحاد و یکجہتی ختم ہوجائے گی او روہ کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انہیںکرپشن ، رشوت کی لت بھی لگ جائے گی۔
دیکھا جائے تو ہمارے بعض سیاست دانوں کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ساری کمزوریوں ، برائیوں ، خامیوں ، نااہلیوں کا الزام ایک دوسرے کے سرتھوپتے ہیں یا پھر غیر ملکی طاقتوں اور خفیہ ہاتھ او رنامعلوم سازشی عناصر کے سر مڑھ دیتے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے کہ ان حالات کے ذمہ دار وہ خود ہیں، ان کا لالچ ہے۔ ان کا مقصد صرف کرسی حاصل کرنا ہوتا ہے او راس کا بھوت ان کے سرپر اس طرح سوار ہوجاتا ہے کہ وہ غریب عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں کہ جن کے ووٹ سے یہ مسند خاص حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں ۔ کرسی ملتے ہی وہ عوام کے بنیادی حقوق اور مسائل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹنے کھسوٹنے لگتے ہیں اور ساتھ اپنے خوشامدیوں اور مفاد پرست ٹولے کو لگائے رکھتے ہیں جو سب اچھا ہے کی گردان کرتے ہیں۔ ان کے بیانات مستقل جھوٹ کا پلندہ ہی ثابت ہوتے ہیں۔
عموماً جمہوریت کیلئے صرف ایک انتہائی بنیادی اور ضروری شے درکار ہوتی ہے اور وہ ہے سیاستدان ۔ جس ملک کے جیسے سیاستدان ہوتے ہیں اس کا ویسا ہی معاشرہ اور ویسی ہی اچھی بری حالت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنا شجرہ نسب اور سارا خاندانی ریکارڈ جاننا چاہتے ہیں تو کسی لائبریری میں جانے کی ضرورت نہیں ،بس سیاست میں قدم رنجہ فرما لیں ۔ آپ کی حریف پارٹی آپ کا سارا کچا چٹھا نکال لائے گی۔ جھوٹی خبریں، افواہیں پھیلانا، بہتان طرازی، جعلسازی ہماری قومی علت بن گئی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں ایسے فسادی ذہن بھی پائے جاتے ہیں جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے میں ڈگری یافتہ ہیں۔ کاش یہ لوگ اپنے اس زرخیز دماغ کواگر ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے استعمال کرتے تو آج ملک ترقی کے راستوں پر گامزن ہوتا۔
مجموعی طور پر اس وقت ہمارا ملک اور اس کا معاشرہ ان گنت بیماریوں کا شکار ہوچکا ہے۔ ہماری سیاست ہو یا عام زندگی،دغا اور دوغلا پن ہمارے مزاجوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ہر شخص دوسرے کو ایمانداری او رنیکی کی تلقین کرتا ہے جبکہ اس کا اپناطرز عمل اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ فی زمانہ 10میں سے 8افراد دہری فطرت کے مالک او رخود غرض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کا ہرشعبہ اس سے متاثرہورہاہے۔ خوشامد ، چاپلوسی اور مک مکاکی پالیسیوں نے اداروں کو کمزور کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ جھوٹ سے زیادہ خوش ،مطمئن ہوتے ہیں۔ ہماری یہی روش بہت ساری معاشرتی برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر نادم یا شرمندہ نہیں ہورہا ہے۔
یہی حال سیاست کا ہے۔ کوئی اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق نہیںسیکھ رہا بلکہ اس کا الزام دیگرلوگوں پر عائد کر رہا ہے۔ سچ سننے کی کسی میں تاب نہیں۔دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا طرز عمل بھی عجیب و غریب اورکم از کم ہماری سمجھ سے بالا ترین ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے بلکہ وہ خود ہی عہدہ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ تو یہ پوچھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ مجھے کیوں نکالا۔ نہ وہ کسی عدلیہ ، شدلیہ کے چکر میں پڑتے ہیں بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کرایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے ”گھوڑے کے سر سے سینگ“۔ یہ طرز عمل کردار کی مضبوطی اور اچھا سیاست داں ہونے کی پہچان ہے۔