Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام اور عقیدہ توحید کے آسان ، واضح اسلوب کا مرقع ،انسائیکلوپیڈیا

ڈاکٹر سید سعیداحسن عابدی ۔ جدہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کان الناس امة واحدة فبعث اللہ النبین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیمااختلفوا فیہ و ما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ماجاءتھم البینٰت بغیا بینہم فھدی اللہ الذین ءامنو الما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ واللہ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم۔
لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے نبی بھیجے اور ان کے ہمراہ حق کی حامل کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں انہی لوگوں نے اختلاف کیا تھا جن کو وہ دی گئی تھی ۔ انہوں نے یہ اختلاف اپنے پاس واضح دلیلیں آجانے کے بعد محض ہٹ دھرمی کے جذبے سے کیا تھا پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے ان کو اس حق کی معرفت بخشی جس کے بارے میں انہوںنے اختلاف کیا تھا اور اللہ کریم جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورہ بقرہ: 213)
تفسیر:
امت کا لفظ قرآن پاک میں متعدد معنوں میں آیا ہے۔
1۔ ہم عقیدہ وہم عمل جماعت جس کو طائفہ بھی کہتے ہیں ۔
2۔ طریقہ اور ملت ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قالوا انا وجدنا آباءنا علی امة ۔۔انہوں نے کہا درحقیقت ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے۔(سورہ زخرف،22)
3۔ زمانہ اور عرصہ ، ارشاد الٰہی ہے: وقال الذی نجا منھما واذکر بعد امة ۔۔اور ان دونوں میں سے جو رہا ہوا تھا اور جسے ایک عرصہ کے بعد یاد آیا اس نے کہا۔(سورہ یوسف،45)
4۔ امام ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کے بارے میں ارشاد فرمایاہے: ان ابراہیم کان امة قانتاً للہ حنیفا ولم یک من المشرکین۔۔درحقیقت ابراہیم اللہ کا فرمانبردار ، ہرطرف سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجانے والا پیشوا تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔(سورہ نحل،120)
ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کی امامت اور وجہ امامت کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واذ ابتلی ابراہیم ربہ بکلمٰت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً۔۔اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا اور اس نے ان باتوں کو پورا کردیا تو فرمایا درحقیقت میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔(سورہ بقرہ 124)
یاد رہے کہ ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کا احترام یہود و نصاریٰ اور مشرکین سب کرتے تھے اور سب ان کو اپنا جد امجد مانتے تھے اور ان کی اولاد ہونے پر فخر کرتے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ان دعووں پر یہ فرماکر ان کی سرزنش کی ہے کہ ابراہیم سے تمہارا انتساب جھوٹ ہے کیونکہ وہ موحد تھا اور تم مشرک ہو۔ماکان ابراہیم یہودیاً ولا نصرانیا ولٰکن کان حنیفاً مسلماً وماکان من المشرکین۔۔۔ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی بلکہ ہر طرف سے کٹ کر ایک طرف ہوجانے والا فرمانبردار تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا ۔ (سورہ آل عمران67)
پھر فرمایا کہ ابراہیم سے نسبت رکھنے والے اس کی زندگی میں اس کی پیروی کرنے والے تھے اور اس کی وفات کے بعد اس سے تعلق رکھنے والے نبی اور مو¿منین ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے: ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ و ھذاالنبی والذین ءامنوا واللہ ولی المو¿منین۔۔۔درحقیقت ابراہیم سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی پیروی کی تھی اور یہ نبی اور جو ایمان لائے اور اللہ مومنوں کا دوست ہے۔(68)
سورہ بقرہ کی زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ اولاد آدم کی پہلی جماعت موحد تھی اور سب ملت تو حید پرتھے اور اس مسئلہ میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا اور جب ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اس وقت اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجنا شروع کیا۔ یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والوںکوکامیابی اور فلاح کی بشارت دینے والے اور اللہ و رسول کی نافرمانی کرنیوالوں کو عقاب اور سزا سے خبردار کرنے والے کی حیثیت سے بھیجنا شروع کیا۔
سورہ بقرہ کی اس آیت کریمہ میں نبیوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجنے کا سبب نہیں بیان کیا گیا ہے لیکن سورہ یونس میں اس کو کھول دیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:وماکان الناس الاامة واحدة فاختلفوا۔۔۔اور لوگ تو صرف ایک ہی جماعت تھے پھر وہ اختلاف کربیٹھے(19) اور یہ اختلاف عقیدہ اور عمل دونوں میں پیدا ہوگیا ۔ ویسے عمل میں اختلاف عقیدہ میں اختلاف ہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور صرف انہی لوگوں میں عقائدی اتحاد اور اتفاق رہتا ہے جن کے عقائد کتاب و سنت سے ماخوذ ہوتے ہیں اور کتاب و سنت کی ظاہری نصوص پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی غلط تاویلوں پر نہیں۔
آیت میں یہ بھی واضح فرمادیا گیا ہے کہ سابقہ مومنوں میں عموماً اور اہل کتاب میں خصوصاً اختلافات کے پیچھے ،تعدی، سرکشی، ہٹ دھرمی اور انکار حق کے جذبات کارفرما رہے ہیں۔ 
آیت کریمہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اہل کتاب کے اختلافات کا سبب یہ نہیں تھا کہ ان کو حق کا علم نہیں حاصل تھا بلکہ اللہ کی کتابیں رکھنے اور حق کی معرفت رکھنے کے باوجود انہوں نے اختلاف کیا جو ان کی ہٹ دھرمی اور زیادتی پر دلالت کرتا ہے۔
آیت کا یہ فقرہ: فھدی اللہ الذین ءامنو الما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ۔۔۔تو جو لوگ ایمان لائے اللہ نے اپنے حکم سے ان کو اس حق کی معرفت بخشی جس کے بارے میں انہوں نے اختلاف کیا تھا وہ یہ واضح کررہا ہے کہ بندے کا ایمان اس کی اصابت رائے اور اس کی معرفت حق میں ممدو معاون ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت یعنی حق کے علم اور معرفت کو ایمان سے موصوف ہونے سے جوڑدیا ہے۔ لہذا جس قدر ایمان قوی ہوگا اسی قدر علم حق قوی ہوگا اور جس کا ایمان کمزور ہوگا اس کے اندر حق کا علم بھی کم ہوگا۔
اس آیت کریمہ نے اولاد آدم کے اختلافات ، ان کے اسباب اور پھر ان کے ازالہ کی تدابیرسب کچھ بیان کردی ہیں اور جب ہم اس امت سے نسبت رکھنے والوں یا نسبت کا دعویٰ کرنے والوں کے عقائدی اور مسلکی اختلافات پر سنجیدہ نظر ڈالتے ہیں تو ان کا بنیادی سبب ہم کو وہی نظر آتا ہے جس کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے ”بغیا“سے کی ہے۔
قرآن پاک کی آیات اور احادیث رسول اپنے معانی اور مطالب میں اتنی واضح اور دوٹوک ہیں اور عقائدی مسائل کو اتنی تفصیل اور اتنی مثالوں سے بیان کردیا گیا ہے کہ اگر ذہن و دماغ صاف ہو اور دل کجی سے پاک ہوں تو کسی اختلاف میں پڑنے کی گنجائش نہیں ہے الا یہ کہ اختلاف تنوع اور توسیع ہو جو معیوب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ قرآن پاک میں اتنی کثرت اور شدت سے اختلاف کی مذمت کی گئی ہے کہ اس کا ارتکاب ایسا ہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل ایمان کا لذت آشنا نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ حقیقت واقعہ ہے کہ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے فرقوں کی تعداد یہود و نصاریٰ میں پیدا ہونے والے فرقوں سے زیادہ ہے جبکہ اسلام کے دونوں ماخذ کتاب و سنت طیبہ محفوظ ہیں۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں:
قال رسول اللہ :افترقت الیھود علی احدی او ثنتین و سبعین فرقةوتفرقت النصاری علی احدی او ثنتین و سبعین فرقة وتفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة
رسول اللہ نے فرمایاہے: یہود 71یا 72فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ 71یا 72فرقوں میں منقسم ہوگئے اور میری امت 73فرقوں میں تقسیم ہوجائیگی۔(ابوداﺅد4596، ترمی 2642، ابن ماجہ3991)
معاویہ بن ابو سفیان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 
الا ان من قبلکم من اھل الکتاب افترقوا علی ثنتین و سبعین ملة وان ھذہ الملة ستفترق علی ثلاث و سبعین ، ثنتان و سبعون فی النار وواحدة فی الجنة 
غور سے سن لو! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے وہ 72ملتوں میں منقسم ہوگئے اور یہ ملت 73ملتوں میں تقسیم ہوجائیگی جن میں سے 72ملت جہنم میں جائیگی اور ایک جنت میں (ابو داﺅد4592)
اس طرح کی اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن میں امت مسلمہ کے اختلاف و افتراق کی پیشین گوئی فرمائی گئی ہے اور یہ اختلاف عقائدی ہوگا ، فقہی نہیں اور ان میں سے جن فرقوں کے جہنم میں جانے کی وعید آئی ہے وہ سب جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ وہی جہنم میں ہمیشہ رہیں گے جو شرک کے مرتکب ہونگے۔
موجودہ وقت میں مسلمانوں میں شمار ہونیوالی بہت سی جماعتیں صریح مشرکانہ اعمال کا ارتکاب کرتی ہیں بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت بھی کہتی ہیں بلکہ اپنے سوا دوسری مسلم جماعتوں کو گمراہ اور صرف اپنے آپ کو برحق مانتی ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت اسلامی عقائد سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں کی فریب خوردہ ہے اور ان کے مشرکانہ عقائد اور اعمال کو عین اسلامی عقائد اور اعمال سمجھتی ہے۔
ایسے وقت میں اس بات کی بیحد ضرورت تھی کہ اردو زبان میں ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں اسلام اور اس کے عقیدہ توحید کو نہایت آسان اور واضح اسلوب میں بیان کرنے کے ساتھ اہل سنت و جماعت کا ایسا تعارف کرادیا جائے کہ عام اردو داں اس کو پڑھ کر اسلامی عقائد کو بھی سمجھ جائے اور اسے یہ بھی معلوم ہوجائے کہ قرآن و حدیث طیبہ کی روشنی میں کون لوگ سچے مسلمان ہیں۔
اسلام اور اہل سنت و جماعت کی صحیح تصویر پیش کردینے کے بعد اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنیوالی جماعتوں ، تنظیموں اور تحریکوں کا ایسا غیر جانبدارانہ تعارف بھی ضروری تھا جس کے ذریعے اہل سنت و جماعت اور ان جماعتوں ، تنظیموںاور تحریکوں کے درمیان تمیز کرنا آسان ہو۔
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان نے وقت کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اسلامی عقائد اور اس کے عقیدہ توحید کی تینوں قسموں، توحید الوہیت ، توحید ربوبیت اور توحید اسماءو صفات کو مختصراً مگر تشفی بخش طریقے سے بیان کردیا اور اس کے بعد اہل سنت و جماعت کا ایسا جامع و مانع تعارف کرادیا کہ اس کی صحیح تصویر سامنے آگئی ہے۔
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان جامعہ ازہر کے شریعہ کالج کے فارغ التحصیل ہیں تقریباً30سال سے سعودی ریڈیو جدہ کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں اور صدر شعبہ بھی ہیں۔ اسی کے ساتھ جدہ سے شائع ہونیوالے اردو روزنامہ اور اردو نیوز کے عملہ میں اس کی اشاعت کے پہلے دن سے شامل ہیں اس طرح عربی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔
اپنے عقیدہ کی صحت اور سلامتی اور اسلامی شریعت کی غیر معمولی معرفت اور آگہی کے ساتھ حد درجہ سنجیدہ اور متوازن نقطہ نظر کے حامل ہیں اور ذاتی پسند و ناپسند سے بہت بلند ہوکر کسی مسئلے پر کوئی حکم لگاتے ہیں اور ان کی سیرت و کردار کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ وہ سب کے خیر خواہ ہیں اور بدخواہی کی صفت سے میری معلومات اور طویل تجربات کی روشنی میں ان کی ذات پاک ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس منفرد اور جامع کتاب میں اسلام اور اہل سنت و جماعت کے تعارف کے بعد ان فرقوں کا تعارف کرایا ہے جو عقائد میں اہل سنت و جماعت سے بنیادی اختلاف رکھتے ہیں۔ ادیان و مذاہب کے ذکر میں یہی منطقی ترتیب ہے۔ 
عقائدی فرقوں کے بارے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان فرقوں کی امہات الکتب کا نچوڑ ہے ۔ اس فصل کے تحت لائق مصنف نے اپنی طرف سے کوئی ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے اور نہ ان فرقوں میں سے کسی فرقے کے اہل حق ہونے یا اہل باطل ہونے کا کوئی حکم ہی لگایا ہے بلکہ یہ فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے جو اسلام اور اس کے بنیادی عقائداور پھر اہل سنت و جماعت کے اوصاف کی روشنی میں ہر فرقہ کے برحق ہونے یا باطل ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اہل سنت و جماعت کے عقائد سے مختلف عقائد رکھنے والے جن فرقوں کے بارے میں گفتگو کی ہے وہ یہ ہیں :
شیعہ امامیہ ، اباضیہ فرقہ جو خوارج کے فرقوں میں سے ایک ہے اور اس کو یہ نام اس کے بانی عبداللہ بن اباض تمیمی کی نسبت سے دیا گیا ہے۔ معتزلہ ، زیدی فرقہ ، اشاعرہ فرقہ اور ماتریدی فرقہ۔
پہلے انہوں نے ان فرقوں کے ظہور کے حالات اور اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے پھر ان میں سے ہر ایک کے عقائد بیان کئے ہیں جو ان کی بنیادی کتابوں سے ماخوذ ہیں اور زبان و بیان ایسا ہے کہ ہر فرقہ کی صحیح تصویر سامنے آگئی ہے۔
عقائدی فرقوں کے ذکر کے بعد فقہی مسلکوں کے ذکر کا محل ہے اور فاضل مصنف نے اس کی پوری رعایت بھی کی ہے اور ان مسلکوں میں سے ہر مسلک پر گفتگو کرنے سے پہلے مجموعی طور پر ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ”فقہی مذاہب یا مسلک دراصل اسلام کے فروعی شرعی مسائل میں اجتہادی اسکول سے عبارت ہیں اور اسلام کے اصولی مسائل میں ان کے درمیان کسی ایک جزئیہ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ “
تو عرض یہ ہے کہ یہ حکم صرف ان عالی مقام ائمہ اور ان کے بعض شاگردوںکے حق میں درست ہے جن سے یہ فقہی اسکول منسوب ہیں لیکن دوسری صدی ہجری کے بعد ان مسلکوں کے جن ائمہ کا نام ملتا ہے ان کی اکثریت متکلمین کے عقائد رکھتی تھی اس طرح ان کے اور اہل سنت و جماعت کے عقائد میںاختلاف پیدا ہوگیاتھا۔
مذاہب اربعہ اور ان کے عالی مقام ائمہ کا تعارف بھی غیر جانبدارانہ اور قابل تحسین ہے۔ 
چاروں فقہی مسلکوں کے ذکر کے بعد ڈاکٹر محمد خان نے نئی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کیا ہے جن کے سرفہرست شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی سلفی اصلاحی تحریک ہے۔ اس فصل کے تحت انہوں نے جماعت اہل حدیث ، جماعت انصارالسنة المحمدیہ، الاخوان المسلمون ، برصغیر کی جماعت اسلامی، تیونس کی اسلامی اتجاہ ، ترکی کی قومی سلامتی پارٹی، کردستان کی اسلامی پارٹی ، سوڈان کا قومی محاذ ، فلسطین کی تحریک حماس اور الجزائر کا بچاﺅ محاذ کا احاطہ کیا ہے۔
مصنف نے ان تمام تحریکوں کا بالکل صحیح تعارف کرادیا ہے اور ہر ایک کی ایسی تصویر پیش کردی ہے جو اسکی حقیقی تصویر ہے۔
مسلمانوں میں بظاہر سب سے پاکباز ، سب سے صالح اور سب سے دیندار صوفیاکی جماعت ہے مگر اپنے غیر اسلامی عقائد ، اپنی خود ساختہ اور من گھڑت عبادات اور اوراد و اذکار اور ریاضتوں کی وجہ سے یہ جماعت کتاب و سنت طیبہ کی تعلیمات عالی سے سب سے زیادہ دور بھی ہے۔ یوں تو تصوف اسلام کے متوازی ایک دوسرا دین ہے اگر چہ اس میں اسلام کی بھی بہت سی باتیں ہیں مگر ان کو بھی صوفی بنالیا گیاہے ، اس طرح وہ اس مفہوم میں باقی نہیں رہ گئی ہیں جس مفہوم میں وہ کتاب و سنت طیبہ میں ہے اور جس مفہوم میں ان کو اہل سنت و جماعت لیتے ہیں۔ 
توحید جو اسلام کا طرہ امتیاز ہے اور جس کے گرد اس کی ساری تعلیمات گھومتی ہیں اور جس کی دعوت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کو اس دنیا میں بھیجا تھا اس توحید کا تصوف کی کتابوں اور صوفیا کے اعمال میں کوئی ذکر نہیں ملتا اگر بعض صوفیا نے اپنی کتابوں میں توحید کا ذکر کیا بھی ہے تو اس سے وحدة الوجود مراد لی ہے اور انبیاءاور رسولوں کی توحید کو عوام کی توحید قراردیا ہے۔
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان نے کتاب کی چھٹی فصل میں پہلے تو یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے اور اس کی روح توحید ہے اور اس میں دلوں کی طہارت اور تزکیہ نفوس کاپورا سامان موجود ہے اور کتاب و سنت طیبہ سے باہر کی کسی بھرتی اور اضافے کا محتاج نہیں ہے بلکہ اس طرح کا ہر اضافہ مسترد کردیئے جانے کے قابل ہے۔
اس کے بعد انہوں نے دلائل وبراہین سے یہ ثابت کیا ہے کہ تصوف کا ظہور دراصل تیسری صدی ہجری میں زہد و توکل ، کثرت عبادت و شب بیداری اور دنیا اور متاع دنیا سے دوری کی دعوت سے ہوا۔ انہوں نے تصوف کے رموز و اشارات ، اس کی اصطلاحات اور سلوک کے مقامات و غیرہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
پھر انہوں نے تصوف کے چند معروف اور مشہور اسکولوں ، مثلاً شاذلیہ، تیجانیہ، سنوسیہ ، ختیمہ اور بریلویہ کا تعارف کرایا ہے اور ان کو ان کے افکار و عقائد کی روشنی میں اپنے اضافے کے بغیر اس طرح پیش کردیا ہے کہ ہر اسکول جیسا کچھ ہے سامنے آگیا ہے۔
مصنف نے تصوف کے مذکورہ بالا اسکولوں کے تذکرے کے بعد ایسی چند جماعتوں کے تذکرے بھی کردیئے ہیں جو تصوف کے عقائد و افکار سے صرف متاثر مانے جاتے ہیں مگر حقیقت میں یہ صوفیا ہی کے اسکول ہیں اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ دیوبندی جماعت، مہدی جماعت، جماعت تبلیغ اور ترکی کی نورسی جماعت کا تعارف کرایا ہے۔
صوفیا کے تفصیلی تذکرے کے بعد انہوں نے ان جماعتوں اور تحریکوں کا ذکر کیا ہے جو اپنی انتہاپسندیوں اور تشدد و غلو کے نتیجے میں اہل سنت و جماعت سے خارج ہیں اور تکفیری ذہنیت رکھتی ہیں۔ 
تکفیری جماعتوں کے ذکر کے بعد ان جماعتوں کا تذکرہ بھی ضروی تھا جو اسلامی خلافت کی داعی ہیں چنانچہ انہوں نے اس ضمن میںفلسطین کی حزب آزادی اور مصر کی اسلامی جماعت کا ذکر کیا ہے۔
مسلم مسلکوں ، جماعتوں اور تحریکوں کا تعارف کرانے کے بعد کتاب کے مصنف نے ایسی تنظیموں اور تحریکوں کے تذکرے کئے ہیں جو نسل پرستی کی داعی ہیں اور ان کے ناموں کے ساتھ اگرچہ اسلام کا نام لگا ہوا ہے مگر ان کے اغراض ومقاصد اور اسلامی تعلیمات کے درمیان بعد المشرقین ہے اور ان کو کسی بھی حیثیت سے اسلام کا ترجمان نہیں قراردیا جاسکتا۔
دراصل یہ کتاب اسلام کے فقہی مسلکوں ، اہل سنت وجماعت کے عقائد سے مختلف عقائد رکھنے والے فرقوں ، صوفیا اور صوفیا کے عقائد سے متاثر جماعتوں اور اصلاحی تحریکوں ، انتہا پسند تنظیموں ، بحالی خلافت کی داعی پارٹیوں اور نسل پرستی کی داعی غیر اسلامی تنظیموں کا دائرة المعارف ہے۔
اس کتاب کے گرانقدر مصنف نے ادیان و مذاہب کے موضوع سے متعلق دسیوں کتابوں کے ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی معلومات کی روشنی میں نہایت مہارت اور جامعیت کے ساتھ کوئی 126جماعتوں ، تحریکوں اور تنظیموں کا صحیح اور غیر جانبدارانہ تعارف کرایا ہے اور کتاب کے آخر میں کوئی 200ایسی اصطلاحوں کی آسان اور قابل فہم تشریح کردی ہے جو شریعت ، سیاست ، معاشیات ، فلسفہ ، تصوف ،یہودیت ، نصرانیت اور مشرقی ادیان و مذاہب اور اسلام سے منسوب نفس پرستوں کے عقائد و افکار سے متعلق ہیں۔
حق یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ادیان و مذاہب کی ’ ’ جمہرة“ہے عربی میں الموسوعہ اور اردو میں دائرة المعارف اغیار سے مستعار ہیں جبکہ عربی میں الموسوعہ اور دائرة المعارف کے مفہوم کو ادا کرنے والا زیادہ جامع اور خوبصورت لفظ ”جمہرہ“موجود ہے تو پھر اغیار کی خوشہ چینی کیوں کی جائے؟ 
موجودوقت میں براہ راست کتاب و سنت طیبہ سے استفادے کی صلاحیت اور استعداد کے کم ہوجانے اور غیر اسلامی عقائد کی حامل جماعتوں اور فرقوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوجانے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت ”توحید خالص“سے ناواقف ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں وہ بڑی آسانی سے وہ ان فرقوں اور جماعتوں کے عقائد کو اپنا لیتی ہے جو مسلمانوں کے حالات اوردین سے ان کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نت نئے طریقوں سے ان کو گمراہ کررہی ہیں۔ 
ایسے وقت میں یہ کتاب ایک ایسی روشنی ہے جس کے ذریعے اسلام مخالف ہر مسلک ، ہر جماعت اور ہر تحریک کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے آغاز میں اسلام اورپھر اہل سنت و جماعت کا جو جامع اور مبنی برحق تعارف موجود ہے وہ ہر جماعت اور تحریک کے عقائد کو جانچنے کی ایسی کسوٹی ہے جس کا حکم اور فیصلہ حرف آخر ہے لہٰذا اس کتاب کو تمام کتب خانوں اور تمام مدرسوں ، جامعات اور علمی و دینی اداروں میں پھیلانا ضروری ہے،اور مسلمانوں کے حالات اور اسلام سے لوگوں کی دوری کا بھی تقاضا ہے کہ اس کو عام مسلمانوں اور نوجوانوں میں پھیلایا جائے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عظیم اور شاہکار کتاب کے فاضل و گرانقدر مصنف کو اس کی تصنیف پر جزائے خیرسے نوازے اور ان کو اس طرح کی مزید شاہکار کتابیں لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو مقبول عام بنائے۔ آمین۔
 
 

شیئر: