” گھر کا آسان پتا یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں“
رپورٹ: طاہرعظیم۔بحرین
سعید قیس 28 مئی 1928ءکو موچی دروازہ، لاہور میں پیدائے ہوئے۔انہوں نے لاہور سے بحرین تک ایک طویل ادبی و معاشی سفر طے کیا۔ ایک بھرپور شاعرانہ زندگی گزاری۔ ان کا رہن سہن، عادات و اطوار مکمل شاعرانہ تھے۔ ان سے پہلی ملاقات اکثر شعراء کو منیر نیازی کی یاد دلاتی تھی۔ان کا اصل نام محمد سعید تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم رنگ محل لاہور میں واقع مشن ہائی اسکول سے حاصل کی۔
باباجی کشمیری نژاد تھے، ان کی شخصیت میں وہی دلآویزی، رعنائی و شگفتگی پائی جاتی تھی جو چمن زار کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کی خصوصیت ہے۔
باباجی قیام پاکستان سے قبل تلاشِ رزق میں پہلے سعودی عرب اور پھر بحرین آگئے۔انہوں نے 1947ءمیں بحرین میں اپنی پسند سے شادی کی۔باباجی کے تین بیٹے اور پانج بیٹیاں ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ 1968ءمیں شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ ”ہجر کے موسم“ 1980ءمیںاور ”دیوار ودر“ 1994ءمیں سامنے آیا۔باباجی کا چوتھا مجموعہ کلام ”محبت روشنی ہے“ 1997ءمیں اشاعت پذیر ہوا۔ پانچواں مجموعہ ”عکس پڑتا ہے چاند کا“ 2006ءمیں شائع ہوا:
اس قدر غور سے نہ دیکھ مجھے
عکس پڑتا ہے چاند کا مجھ میں
ان پانچ اردو شعری مجموعوں کے بعد ان کا پنجابی کلام پر مشتمل پہلا مجموعہ ”کھاری مٹی“ کے نام سے 2012ءمیں شائع ہوا۔
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انجمن فروغ ادب، بحرین کی جانب سے مئی 2016ءمیں ان کا جشن منایا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ کلیات سعیدقیس کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ قریباً7 سو صفحات پر مشتمل اس کلیات میں ان کا پورا اردو کلام شامل ہے۔
باباجی اتنا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود اپنی لاہور کی زندگی کو یاد کرتے۔ لاہور کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی تھی۔ اکثر ملنے والوں سے اس کا تذکرہ کرتے۔ بقول نصیر ترابی ، سعید قیس سے مل کر یہ نہیں لگتا کہ وہ کبھی لاہور سے باہر بھی گئے ہیں۔
سعید قیس 12 دسمبر 2016ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔باباجی بحرین میں ادبی سرمایہ تھے۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کرنا مشکل ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، آمین۔
ذرا دیوار کے پیچھے تو دیکھو
محبت ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے
ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے لیکن
ہماری آرزو کتنی بڑی ہے
٭٭٭
روشنی مجھ کو بھلانے میرے گھر تک آئی
اس نے دیوار پہ مٹی کا دیا کیا رکھا
٭٭٭
جو مجھ سے روز پریوں کی کہانی سن کے سوتے تھے
انہی بچوں کو میرا بولنا اچھا نہیں لگتا
٭٭٭
جان قربان کون کرتا ہے
اپنا نقصان کون کرتا ہے
٭٭٭
کیا زمیں پر اتر نہیں آیا
کیوں مرا چاند گھر نہیں آیا
ہم بہت انتظار کرتے رہے
اور کوئی لوٹ کرنہیں آیا
حرف الٹے لکھے ہوئے تھے قیس
یوں غزل میں اثر نہیں آیا
٭٭٭
لے اڑا شوقِ انتہا مجھ کو
دیکھتی رہ گئی ہوا مجھ کو
٭٭٭
اڑتا اڑتا پھرتا ہوں
سوکھے پتوں جیسا ہوں
بحرین کی معروف ادبی تنظیم انجمن فروغ ادب نے اپنا 10واں عالمی مشاعرہ 2018 ءبیادِ سعید قیس منعقد کیا۔ مشاعرے میں شرکت کے لئے پاکستان سے معروف مزاح گو شاعر انور مسعود، خالد معین،افضل خان، سعدیہ صفدر سعدی،ڈاکٹر محمد کلیم،ہندوستان سے منصور عثمانی ،شارق کیفی، مشتاق احمد مشتاق،کینیڈا سے عرفان ستار شریک ہوئے جبکہ بحرین کی نمائندگی رخسارناظم آبادی،احمد عادل، طاہر عظیم، عدنان افضال اور عمر سیف نے کی۔ اس شام کے مہمان خصوصی ناظم الامورسفارت خانہ پاکستان مراد علی وزیر تھے۔ انور مسعود نے کرسی صدارت کو رونق بخشی۔ مہمان اعزازی سعید قیس کے فرزند یوسف سعید تھے۔تقریب کی نظامت افروز مجتبیٰ برلاس نے کی جبکہ مشاعرے کی نظامت اردو دنیا کے معروف ناظم ِمشاعرہ منصور عثمانی کے سپرد کی گئی۔ناظم تقریب نے دعائیہ کلمات سے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ آج کی شام ہم جس شخصیت کی یاد میں یکجا ہوئے ہیں وہ ہندوستان اور پاکستان میں اردو کے حوالے سے یکساں مقبول ہیں۔ سعید قیس کے لاتعداد چاہنے والے اور لاتعداد شاگرد ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کے گرد ہروقت چاہنے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔آپ کے چاہنے والے آپ کو باباجی پکارتے تھے۔ بہت سارے افراد شاعری کے رموز اور باریکیاں سیکھنے کے لئے آپ کی نظر التفات کے منتظر رہتے تھے اور بہت سارے افراد آپ کے متروک اشعار کو حسب توفیق اپنی بیاض میں اضافے کے لئے لے لیتے تھے مگر آپ کی تربیت ان کو ہمیشہ حاصل رہتی تھی۔ اس طرح بحرین میں اچھی خاصی تعداد اردو شعراءکی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحرین خلیج میں اردو ادب کے حوالے سے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
مشاعرے کے منتظم طاہر عظیم نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہاکہ انجمن فروغِ ادب بحرین کے قیام کوتقریباً 14 سال ہوگئے ہیںاور یہ ہمارا10واں عالمی مشاعرہ ہے جن میں سے نو مشاعرے موجودہ انتظامیہ نے منعقد کئے۔ ان برسوں میں ہماری کوشش رہی ہے کہ کسی قسم کی ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر بہترین ادبی تقاریب کے ذریعے اعلیٰ و معیاری تخلیقات قارئین تک پہنچائیں۔ ہمیشہ ان شعراءکو ترجیح دی ہے جو اس سے قبل بحرین نہیں آئے یا پھر ایک بار کئی برس پہلے آئے۔2 سال قبل ہم نے سعیدقیس صاحب کا جشن مناکر اپنی ایک ادبی ذمہ داری پوری کی تھی اور آج ان کی یاد میں عالمی مشاعرہ منعقد کرکے ایک اور ذمہ داری پوری کرنے جارہے ہیں۔اس سلسلے میں ہمیں ان کے اہل خانہ بطورِخاص محترمہ نجمہ سعید اور محترم عبدالخالق کی مکمل معاونت حاصل رہی ہے۔ان کی خواہش تھی کہ اس مشاعرے کے تمام اخراجات وہ ادا کریں لیکن ان کی یہ خواہش ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں تھی۔ اس مشاعرے کے 40 فیصد اخراجات انہوں نے ادا کئے ہیں۔ہم ان کے اور باقی دیگر معاونین کے بے حد ممنون ہیںجن میں محترم شکیل احمد صبرحدی ،سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین، عنایت اللہ، الطاف عظیم، اقبال جوز،عامر شہزاد، فہد عارف صادق اور خورشید علیگ کے نام شامل ہیں۔ہم سفارت خانہ ِپاکستان، بحرین کے شکر گزار ہیں جن کی معاونت نے اس شام کے وقار میں اضافہ کیا۔میں ذاتی طور پر انجمن فروغِ ادب کے سرپرست صہیب قدوائی، عدیل احمد ملک، مشاعرہ کمیٹی کے اراکین احمد عادل، قمرالحسن ، محمد عرفان، ملک ظفر ، احمد نواز، محمد شمیر ، مختار عدیل،کاتب زہیر، عدنان افضال،خرم عباسی، ساجدبٹ، عمرسیف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی محنت سے اس مشاعرے کا انعقاد ممکن ہوسکا۔
بحرین کی معروف کاروباری شخصیت اور ادبی ، مجلس فخربحرین ،برائے فروغ اردو کے بانی و سرپرست شکیل احمد صبرحدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سعید قیس نے اپنی شاعری کے مضبوط حوالوں سے اردو دنیا کے نقشے پر بحرین کو ایک باوقارپہچان عطا کی۔ نہ صرف بحرین بلکہ خلیجِ عرب کے کسی ملک میں سعید قیس جیسے توانا اور معتبرلہجے کے شاعرکا ظہور اب تک نہیں ہوسکا ۔ بحرین کے ادبی منظرنامے اور ادبی سلسلے میں سعید قیس جیسے اہم شاعر کے نام کا شامل ہوجانا اہلِ بحرین کے لئے کسی فخر اور اعزاز سے کم نہیں۔ان کی شاعری میں موجود تنہائی اور اکائی کا سفراپنی ذات کے نہاں خانوں سے نمودار ہوتا ہے اور آفاقیت اور اجتماعیت کی وسعتوں کی روشنی میں دور دور تک نمایاں ہوجاتا ہے:
میں بھی اپنی ذات میں آباد ہوں
میرے اندر بھی قبیلے ہیں بہت
لاہور سے خصوصی دعوت پر تشریف لائے ہوئے سعید قیس کے دیرینہ دوست معروف صحافی طفیل اختر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سعید قیس کی شاعری جوان اور توانا ہے خلیج کا میں احسان مند ہوں اور خلیج کو سعید قیس کا احسان مند ہونا چاہئے۔سعید قیس کے فرزند اس شام کے مہمانِ اعزازی یوسف سعید نے اپنے والد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
میں تو پاگل تھا اور لوگوں نے
سوچنے ہی نہیں دیا مجھ کو
مہمان خصوصی ناظم الامور سفارت خانہ پاکستان مراد علی وزیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس مشاعرے کے منتظم طاہرعظیم انجمن فروغ ادب، بحرین اور ان کے ساتھیوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اتنی قلیل مدت میں ایسی خوبصورت شام منعقد کی ہے جہاں اردو دنیا کے معروف شعراءسعید قیس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے موجود ہیں۔ دیار غیر میں رہتے ہوئے آپ کو جس طرح اپنی زبان کی ترویج و اشاعت ،ترقی اور اس کے لئے پھیلاﺅ کے لئے محنت کر رہے ہیں یہ یقینا قابل تعریف و تحسین ہے۔
بحرین میں پاکستانی کمیونٹی انتہائی پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی ہے اور آج آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ کو اپنی زبان و ادب سے کتنا لگاﺅ ہے۔
موجودہ دور میں جہاں نوجوان نسل فیس بک اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہے وہاں ان کے دلوں میں شاعری کا ذوق پیدا کرنا یقیناسعید قیس کا بڑا کارنامہ ہے۔آج ہمارا معاشرہ بے یقینی اور بے روزگاری، دہشت گردی تفرقہ بازی کا شکار ہے۔ اس وقت ہمیں یگانت اخوت بھائی چارے کی ضرورت ہے ۔ہمارے شعراءو ادبا ءہی ہمیں موثر انداز میں اس طرف راغب کرسکتے ہیں۔
اس عالمی مشاعرہ بیادِ سعید قیس کی مناسبت سے ایک مجلہ”اظہار“ کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی رسم اجراءقائم مقام سفیر پاکستان مراد علی وزیر نے ا دا کی۔ اس موقع پر صدرِ مشاعرہ انور مسعود، انجمن فروغ ادب کے سرپرست صہیب قدوائی ،عدیل احمد ملک ،شکیل احمد صبرحدی، یوسف سعید،عبدالخالق سعید ،قمر الحسن، نور پٹھان ، احمد عادل، محمد عرفان اور طارق عظیم اسٹیج پر موجود تھے۔تقریب کے اختتام پر ناظم تقریب نے تمام مہمان و میزبان شعراءکو اسٹیج پر دعوت دی اور مشاعرے کی باقاعدہ کارروائی کی ذمہ داری ناظم مشاعرہ منصور عثمانی کے سپرد کی۔
اسے انجمن فروغ ادب کا دسواں عالمی مشاعرہ کہا جارہا ہے میں اسے طاہرعظیم کا دسواں کارنامہ کہہ رہا ہوں۔سعید قیس جو شاعر خلیج بھی ہیں، میں جب دو سال قبل حاضر ہوا تھا تو ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ شاعر اگر سلیقے کا ہو تو دلوں پر دستک دینے کا ہنر جانتا ہے۔اس کے اندر دماغوں کو جگمگانے کی صلاحیت ہو تو وہ دنیا سے چلاجاتا ہے اور اپنی شاعری چھوڑ جاتا ہے ۔ انجمن فروغ ادب بحرین نے ان کی زندگی میں جشن منایا پچھلے سال کا مشاعرہ ان سے منسوب کیا اور آج کا یہ مکمل مشاعرہ بیاد سعید قیس منعقد ہو رہا ہے ۔
وہ لاہور کا چراغ جو سعودی عرب میں روشن ہوا اور بحرین میں جگمگایا۔ہم ایک عظیم شاعر کو آج یاد کر رہے ہیں یقینا یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری بھی تھی اور زندہ قوموں کی علامات بھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو نہیں بھولتیں اس لئے کہ اگر وہ اپنے بزرگوں کو بھول جائیں تو کل خود بھی بھلا دی جائیں گی۔اس تاریخی مشاعرے کے پہلے شاعر شاعر نوجوان عمر سیف تھے جن کے پہلے شعر سے ہی مشاعرے کا آغاز ہوا۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
٭٭عمر سیف :
اک ربط لازمی ہو مگر رابطہ نہ ہو
یعنی کہ وہ مرا ہو مگر با وفا نہ ہو
کتنی عجیب بات ہے دونوں کے درمیاں
میلوں کا فاصلہ ہو مگر فاصلہ نہ ہو
٭٭٭
دوستوں سے جاں چھڑانے کے لئے
کر رہاہوں دشمنوں سے دوستی
٭٭عدنان افضال :
جان بے شک عزیز ہے لیکن
جاں سے بڑھ ہے جانِ جاں اپنا
تو مجھے آئنہ دکھاتا تھا
منہ چھپاتا ہے اب کہاں اپنا
٭٭طاہرعظیم :
نظر اب بھی ہے محروم نظارہ
مگر تصویر دکھلائی گئی ہے
تو کیا دنیا یہاں پہلے نہیں تھی
تو کیا دنیا یہاں لائی گئی ہے
ضروری تو نہیں وہ بات سچ ہو
ہمیں جو بات پہنچائی گئی ہے
٭٭احمد عادل:
مصروف رہ گزر تھی چلا جارہا تھا میں
پھر کیوں لگا کہ سب سے جدا جارہا تھا میں
حاصل تھی جن کو راحتیں وہ بھی فنا ہوئے
کیوں اپنی مفلسی سے ڈرا جارہا تھا میں
میں گردِ راہ تھا مگر اعجاز دیکھئے
ہر کارواں کے ساتھ اڑا جارہا تھا میں
٭٭رخسارناظم آبادی:
ممکن ہے کوئی موج کنارے پہ چھوڑ دے
چل زندگی کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ دے
٭٭٭
یہ زندگی غزل ہے غزل بھی کچھ اس طرح
آئینہ قافیہ ہے تو پتھر ردیف ہے
٭٭٭
نواجوانی کے جب آثار ہوا کرتے تھے
تب محبت میں گرفتار ہوا کرتے تھے
٭٭ ڈاکٹر محمد کلیم :
ہم پہ الزام آئے جاتے ہیں
تم غلط ہو، بتائے جاتے ہیں
٭٭سعدیہ صفدر سعدی:
ہم تو جیسے بھی بنے ،بن ہی گئے
دیکھئے آپ کا کیا بنتا ہے
اب تو میں اور کسی کی نہیں ہوں
اب تو وہ شخص مرا بنتا ہے
٭٭مشتاق احمد مشتاق :
گزرتے وقت کو زنجیر کرتا رہتا ہوں
تصورات کو تصویر کرتا رہتا ہوں
غزل کو نظم کو اکثر بہانہ کر کر کے
میں اپنے درد کی تشہیر کرتا رہتا ہوں
٭٭٭
لئے حرف حرف کا بوجھ وہ کئی مدتوں سے سفر میں تھا
یہ خبر دے کوئی کتاب کو اسے آج مٹی نگل گئی
میرے ساتھ میں میرا یار تھا، وہی لمحہ فصل بہار تھا
وہ بچھڑ گیا تو پہاڑ پر جوتھی برف وہ بھی پگھل گئی
٭٭٭
اندھیری رات کی چادر ہٹاا رہا تھا میں
کل ایک چاند کو چھت پر بلارہا تھا میں
سنبھل کے دیکھا تو تخلیق ہوگیا سورج
تمہاری یاد میں آنسو بہا رہا تھا میں
مرے خلاف مرا شہر ہوگیا مشتاق
خراب لوگوں کو اچھا بنا رہا تھا میں
٭٭٭
میں چاہتا ہوں کہ میں بھی ہوا سا بن جاﺅں
کہ تجھ کو چھوتا رہوں اور تجھے دکھائی نہ دوں
٭٭ افضل خان:
پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے
گھر کا آسان پتا یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں
٭٭٭
بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مرجائیں
٭٭٭
میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں
مگر یہ بیچ میں کمبخت شاعری ہے نا
٭٭٭
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں
جتنے غم پالے ہیں اے دامن ِ دنیا تم نے
اتنے غم تو مرے رومال میں آجاتے ہیں
٭٭٭
تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
٭٭شارق کیفی:
اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے
پہلے یار بنایا پھر سمجھایا ہم نے
خود بھی آخرکار انہی وعدوں سے بہلے
جن سے ساری دنیا کو بہلایا ہم نے
٭٭٭
وہ بات سوچ کہ میں جس کو مدتوں جیتا
بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی
ہزار بار اشاروں میں اس کو سمجھایا
مگر اسے تو مرے جھوٹ سے محبت تھی
٭٭٭
٭٭عرفان ستار:
تیرے لہجے میں ترا جہل دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے
٭٭٭
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواح ِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاںحسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے
٭٭٭
سنا یہ ہے کہ ہے سب کے لئے کوئی نہ کوئی
تو یعنی میرے لئے بھی ہے کوئی ،کیا کوئی ہے؟
طبیبِ عشق ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے بتا
مریض ہونگے مگر مجھ سا مبتلا کوئی ہے؟
٭٭منصور عثمانی:
تم تو کیا چیز ہو کچھ سوچ سمجھ کر بولو
ڈال دی وقت نے فرعون کی گفتار پہ خاک
کاش روٹھے ہوئے بادل کو بتائے کوئی
جم گئی ہے مرے گھر کی درودیوار پہ خاک
یہ خبر بھی انہیں بھیجیں گے غزل میں منصور
پڑگئی ہجر میں اب کے تیرے بیمار پہ خاک
٭٭٭
منصور روشنی سے اندھیرا ہی ٹھیک تھا
سائے بھی اس میں آکے برابر کے ہوگئے
٭٭ خالدمعین:
ہم زخم عشق نذر نمائش نہ کرسکے
بکھرے تو پھر سمٹنے کی خواہش نہ کرسکے
شاید وہ مان جاتا ہمیں اس کا رنج ہے
باردگر ہم اس سے گزارش نہ کرسکے
ہم تو بساط وقت الٹنے کے حق میں تھے
پر کیا کریں کہ ہم کوئی سازش نہ کرسکے
٭٭٭
بچے نے ایک لفظ نہ بولا زبان سے
لیکن کھلونا چیخ پڑا خود دکان سے
اپنے ادھور ے پن میں عجب لطف دے گئی
جو بات کٹ گئی تھی کہیں درمیان سے
٭٭٭
اک عشق اک دھمال کیا اور کیا کیا
ہم نے یہی کمال کیا وار کیا کیا
کم قامتوں کے طرز تفاخر پہ کی نظر
تادیر پھر ملال کیا اور کیا کیا
٭٭ انور مسعود :
ان کے بغیر فصل ِ بہاراں بھی برگریز
وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشہ بھی مرسڈیز
٭٭٭
وزیر خارجہ ترکی کے دورے پر ہیں کل سے
گھروں میں گیس کی بندش مسلسل ہوگئی ہے
کوئی خطرہ نہیں ہے آمریت کا وطن میں
نصیبو لال کی البم مکمل ہوگئی ہے
٭٭٭
ان پہ مٹی ضرور ڈالیں گے
جو مسائل بھی سر اٹھائیں گے
سوچتا ہوں کہ چوہدری صاحب
اتنی مٹی کہاں سے لائیں گے
٭٭٭
پوچھتا مجھ سے یہی ہے مرا افسر بابا
فائلیں کتنی ہوئیں داخلِ دفتر بابا
اس کی تقریر کے دوارن میں حسرت ہی رہی
کاش ہوتے میرے تھیلے میں ٹماٹر بابا
یوںانجمن فروغ ادب بحرین کا دسواں عالمی مشاعرہ بیادسعید قیس اختتام کو پہنچا جسے مہمان شعراءکے علاوہ بحرین کے سخن فہم ادب نواز دوستوں نے ایک یادگار اور کامیاب مشاعرہ قرار دیا۔