Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان جرنلسٹ فورم کے تحت علامہ اقبال کی یاد میں نشست

شہزاد اعظم۔جدہ
21اپریل شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کایوم وفات ہے۔ جدہ میں قائم پاکستانی صحافیوں کی انجمن ”پی جے ایف“ جس کا ”ترجمہ “ پاکستان جرنلسٹ فورم کیا جاتا ہے ، انتہائی فعال ہے ۔ ہمارے وطن عزیز میں تو صورتحال ایسی ہے کہ جو شخص دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، اس کے گُن گائے جانے لگتے ہیں۔کسی بے نام شخصیت کا ہی انتقال کیوں نہ ہو جائے ، کونے کھدروں میں سے نکل کر لوگ کہیں نہ کہیں جمع ہو جاتے ہیں اور مرنے والے کی تعریف کرنے لگتے ہیں کہ :
”خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“
اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر سید محمد جعفری نے دل کی بھڑاس کچھ یوں نکالی تھی کہ :
اس ملک میں ترا بھی منائیں گے ایک دن
پہلے یہ شرط ہے کہ ترا انتقال ہو
جو جعفری کو داد دے ، اس کو بھی دیجے داد
خارش کا تاکہ دونوں طرف احتمال ہو
پی جے ایف چونکہ بیرون ملک یعنی ”فارن کنٹری“ میں رہ کر صحافیوں کی خدمات کا فریضہ انجام دے رہا ہے اس لئے اس کے اطواربھی ”فارنرز“ جیسے ہی ہیں چنانچہ پی جے ایف نہ صرف ”رفتگاں“ کو یاد رکھتا ہے بلکہ زندہ ، چلتے پھرتے لوگوں کی بھی پذیرائی کرتا ہے۔ اپنی ان روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان جرنلسٹ فورم نے جدہ کے مقامی ریستوران میں ایک نشست کا انعقاد کیا۔جس کے مہمان خاص پاکستان قونصلیٹ جنرل ، جدہ کے پریس قونصلر ارشد منیر تھے۔ فورم کے صدر شاہد نعیم ، سیکریٹری جنرل جمیل راٹھور اور دیگر عہدیداران بھی شریک ہوئے تاہم چیئرمین پی جے ایف ، امیر محمد خان کی کمی انتہائی شدت سے محسوس کی گئی کیونکہ موصوف ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر صدارت چلنے والی ریاست ہائے متحدہ امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ انہیں جدہ میں اقبال کی یاد میں منعقدہ نشست اور اس کے منٹس سے باقاعدہ طور پر آگاہ رکھا گیا۔ انہوں نے فورم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے نشست کے انعقاد کو سراہا۔
پی جے ایف نے ناشتے کا اہتمام کیا تھا اس لئے کئی ایسے صحافی بھی تھے جو صبح صبح ریستوران نہیں پہنچ پائے۔ انہوں نے اپنی غیر حاضری کے اسباب و علل بیان کرتے ہوئے معذرت بھی کی جسے پی جے ایف کے صدر شاہد نعیم نے قبول کر لیا۔
نشست کا باقاعدہ آغاز ہونے کے بعد حاضرین نے اقبال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے ہندوستان میں مسلمانوں کی کسمپرسی کو بھانپ لیا تھا۔ وہ مردان خرد مند کو لاچار و مجبور دیکھتے تھے تو ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ انہوں نے مسلمانانِ ہند کے لئے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا ، اسی لئے انہیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے ۔ مصور پاکستان کے تصور کو تصویر کرنے کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جد و جہد کی اور علامہ اقبال کے انتقال کے 9برس بعد ہی ان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ 
ایک مقرر نے کہا کہ علامہ اقبال مسلمانانِ ہند کو نہ صرف بیدار کرنا چاہتے تھے بلکہ انہیں متحد اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند دیکھنے کے خواہشمند تھے۔
مہمان خصوصی پاکستا ن قونصلیٹ جنرل کے پریس قونصلر ارشد منیر نے اس موقع پر کہا کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں گل و بلبل کا ذکر نہیں کیا، لب و رخسار کی باتیں نہیں کیں، عشق و محبت کی داستانیں بیان نہیں کیں بلکہ انہوں نے نوجوانان، صاحبان ایمان، مسلمانان ہندوستان کو یک جان ہو کر علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کی تگ و دو کی طرف راغب کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو ان حقائق سے آگاہ کیا جنہیں وہ فراموش کر بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن ، نئی شان 
گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان
٭٭٭
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاﺅں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
٭٭٭
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
علامہ اقبال نے نوجوانانِ ہندوستان کو بیداری کا سبق دینے اور اپنی اہمیت کا ادراک کرنے کے تلقین کرتے ہوئے انہیں شاہین کہہ کر مخاطب کیااور کہا:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بصیرہ کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
٭٭٭
تو شاہیں ہے ، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ایک مقام پر اقبال نے دعائیہ کلمات یوں بیان کئے:
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
کہیں ا قبال نے نوجوانوں کو عقاب سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
ایک مقرر نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتیں کہ اگر علامہ اقبال ، مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ وطن کا خواب نہ دیکھتے تو لوگوں میں پاکستان بنانے کی خواہش بیدار ہوتی اور نہ تحریک پاکستان کے باعث ایک آزاد و خود مختار مملکت منصہ¿ شہود پر نمودار ہوتی۔
یوں پی جے ایف کی مختصر مگر جامع تقریب اس عزم کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی کہ ہم اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے علامہ اقبال کا پیغام عام کرنے کی جدو جہد تیز تر کریں گے۔
 

شیئر: