Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر مملکت کے بیرونی دورے؟

***صلاح الدین حیدر ***
صدر ممنون حسین مستقل غیر ملکی دورے کررہے ہیں، لیکن کس حیثیت میں یہ وہ خود ہی بتاسکتے ہیں۔ اصولاً دیکھا جائے تو ملک کا نظم و نسق وزیراعظم کی ذمہ داری ہے۔وہی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ نگراں وزیراعظم جسٹس ناصر الملک کے پاس وہ تمام اختیارات ہیں جو منتخب وزیراعظم کو حاصل ہوتے ہیں۔نگراں وزیراعظم کوئی نئی تجاویز یا منصوبے دینے یا منظور کرنے کا مجاز نہیں ہوتا، لیکن بین الاقوامی اجتماعات میں ملک کی نمائندگی انہی کا حق ہے۔
وزیراعظم کے ہوتے ہوئے صدر مملکت صرف ان کی اجازت سے بیرونی دوروں پر جاسکتے ہیں نا کہ ایسے بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت کریں جہاں ہند، روس اور چین کے وزرائے اعظم اپنے ملکوں کی نمائندگی کررہے ہوں۔ ECO ایک بہت اہم پلیٹ فارم ہے۔ وہاں پاکستان کی نمائندگی کیلئے وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو جانا چاہئے تھا۔
وزارتِ خارجہ کے چند افسران ان کے ساتھ تھے لیکن انہوں نے ان سے کیا کہلوایا،یہ قوم کو کیسے پتا چلے گا؟ واپسی میں انہوں نے پھر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ پاک،افغان تعلقات برسوں سے پیچیدہ ہیں۔ انہیں  عقل مندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ممنون حسین کو عالمی امور پر کتنا اختیار یا تجربہ ہے،یہ تو وہ خود ہی بتاسکتے ہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ آخر نگراں وزیراعظم کو کیوں نظرانداز کیا گیا۔
نگراں وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کو بھی چاہیے کہ وہ وزارتِ خارجہ پر پورا کنٹرول حاصل کریں۔پاکستان پہلے ہی تنہائی کا شکار ہے، آج اس کا کوئی دوست یا حمایتی نہیں۔ چین واحد ملک ہے جو ہمارے ہر اچھے برے وقت میں کام آتا ہے لیکن اگر ہم خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے شوقین ہوں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
میں پچھلے 3 ہفتوں سے امریکہ میں ہوں۔ یہاں بھی ملکی حالات پر گہری نظر رکھ رہا ہوں۔ مجھے حیرت ہوئی صدر ممنون حسین کو چین اور تاجکستان کا دورہ کرتے دیکھ کر۔دنیا میں وہ ممالک سرخرو ہوتے ہیں جو اصولوں پر کاربند رہتے ہیں۔
امریکہ میرے لیے کوئی نیا ملک نہیں، پچھلے40 برسوں میں یہاں بیسویں یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ آیا ہوں۔ جہاں ملکی حالات کو جان کر دکھ ہوتا ہے وہیں امریکہ میں نظم و نسق کو دیکھ کر رشک بھی ہوتا ہے کہ کاش ہم بھی اصول پرست ہوتے، کسی نظام کے تحت اپنے ملک کو چلاتے۔ قائداعظمؒ اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کشمکش اور بدنظمی کا شکار رہا ہے۔ بیرونی ممالک میں رہنے و الے پاکستانیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، وہ تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن مایوسی کا شکار ہوکر آج کل بہت سے پاکستانیوں نے پیسے بھیجنے بند کردیئے ہیں۔ برآمدات بھی گررہی ہیں۔روپے کی قیمت میں روز افزوں گراوٹ ہورہی ہے۔ درآمدات مہنگی ہوگئی ہیں۔ملکی حالات دگرگوں ہیں لیکن کس کو پروا ہے؟ یہاں امریکہ میں قدم قدم پر میڈیا اور پارلیمان ملکی صدر کے فیصلوں پر نظر رکھتے ہیں۔اکثروبیشتر انہیں تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔کاش پاکستان میں بھی ہمارے مبصرین خصوصاً کالم نگار، ٹی وی اینکرز حکومتی فیصلوں کو گہری نگاہ سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ قوم ان سے جاننا چاہتی ہے کہ آخر ملک کب صحیح طور پر چلے گا۔ 
 

شیئر: