Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آثار قدیمہ،سعودی عرب کا انمول خزانہ

 حسن علی العمری ۔ مکہ
آثار قدیمہ انسانی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی سنانے والے انمول شواہد ہیں۔ یہ وقت اور نسلوں کی تاریخ کے شاہد ِ اول ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کی نشاندہی کرنے والا اہم سرچشمہ ہے۔ یہ اقوام و ممالک کے تجربات اور تصرفات کا ریکارڈبیان کرنے والے نمونے ہیں۔
آثار قدیمہ کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے بھی کم نہیں۔ بہت سارے لوگ آثار قدیمہ کی چوری، تباہی اور اسمگلنگ میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بعض افراد اقوام و ممالک کی پہچان مٹانے اور ان کی تاریخی یادداشت کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کیلئے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ انہی نظریات سے متاثر ہوکر وہ مختلف اقوام و ممالک کے آثار قدیمہ پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اس قسم کے عناصر سے نمٹنے کیلئے قانون سازی ناگزیر ہے۔ بنی نوع انسا ں کے تاریخی ورثے کے تحفظ کیلئے ایسے قوانین اور ایسی پالیسیاں ترتیب دینا لازم ہے جن کے ہوتے ہوئے اسمگلر اور تخریب کار آثار قدیمہ پر ہاتھ ڈالنے سے قبل ایک ہزار بار سوچیں۔ قانون سازی کا دائرہ کافی وسیع و عریض ہے۔ آثار قدیمہ کے حوالے سے درج ہے کہ آثار قدیمہ کی تلاش، تاریخی مقامات کی نشاندہی اورایسے مقامات پر تعمیریا منصوبے یا کسی اسکیم کی بابت بھی قانون سازی لازم ہے۔ مثلاً اگر کوئی جگہ یقینی طور پر آثار قدیمہ سے مالا مال ہو یا کسی جگہ آثار قدیمہ کی موجودگی کے شبہات پائے جاتے ہوں، ایسے مقامات پر کسی بھی فرد، کسی بھی ادارے ، کسی بھی کمپنی یا محکمے کو کوئی بھی پروگرام شروع کرنے سے قبل محکمہ آثار قدیمہ سے اجازت نامے کا حصول لازمی ہے۔ 
سعودی قانون سازوں نے آثار قدیمہ کے حوالے سے اپنے کردار کو نبھانے کا اہتمام کیا ہے۔ آثار قدیمہ کی باقاعدہ تعریف مقرر کی ہے۔ اسکی وجہ سے بہت سارے مسائل ازخود حل ہوگئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آثار قدیمہ یا نوادر کی چوری کوئی معمولی واردات نہیں۔ یہ نہایت خطرناک عمل ہے۔ یہ وطن کے حقوق پر ہاتھ صاف کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے قدیم اقوام ہی نہیں ،بعد میں آنے والی اقوام کے حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے بین براعظمی منظم جرائم کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ کام انتہائی منظم جرائم پیشہ جماعتیں کررہی ہیں۔ نوادر کی چوری ایک نہیں بلکہ متعدد جرائم کا مجموعہ ہوتی ہے۔
آثار قدیمہ ایک طرح سے پوری انسانیت کا تاریخی ورثہ شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری آثار قدیمہ اور نوادر کے تحفظ میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی ہے لہذا مملکت میںآثار قدیمہ کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی بھی عالمی درجے کی ہونی چاہئے۔ اسے عالمی جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزائیں بھی اسی زمرے کی ہونی چاہئے۔جرائم پیشہ عناصر کو یقین ہوجائے کہ وہ کہیں سے بھی، کبھی بھی نوادر چوری کریں گے تو انہیں اپنے اس جرم کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑیگا۔ ضروری نہیں کہ وہ اسی جگہ پکڑے جائیں جہاں سے انہوں نے نوادر اڑائے ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ نوادر فروخت کرنے میں کامیاب ہوجانے کے بعد بھی سزاﺅ ںکی گرفت سے بچ پائیں۔ اگر یہ پیغام منظم جرائم پیشہ عناصر اور تنظیموں تک پہنچ گیا کہ وہ جس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں وہ بین الاقوامی ہیں او راس کی سزا جو مقرر کی گئی ہے، اس سے بچنا محال ہے، ایسی صورت میں وہ نوادر اور آثار قدیمہ کی چوری سے ہاتھ اٹھالیں گے۔ نواد رکی چوری کے واقعات صرف اس وجہ سے ہورہے ہیں کیونکہ اس دھندے میں ملوث عناصر کو یقین ہے کہ وہ قانون کے شکنجے میں نہیں آسکیں گے، انکی چالاکی اور منظم انداز میں واردات کی حکمت عملی انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پکڑ سے بچالے گی۔
تاریخی مقامات میں تخریب کاری کا جرم عام افراد بھی کرتے ہیں اور ادارے بھی۔ اس قسم کے جرائم عارضی نہیں ہوتے۔ دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جب تک جرائم پیشہ عناصر اس واردات سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک جرم کا سلسلہ جاری و ساری رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: