ہم وطن عزیز پاکستان کے انتہائی گھاگ شہری ہیں۔ ہم نے ملک میں سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، صحافتی، روایتی ہی نہیں بلکہ جمہوری، دستوری، عبوری ، ضروری ا ور غیر ضروری ہر طرح کے بحران جھیلے ہیں۔ نجانے ایسا کیوں ہوا کہ بحرانوں کی ’’بارات‘‘ عوامی دور میں ہی آنا شروع ہوئی۔اس سے قبل کے غیر جمہوری اور غیرعوامی دورکی خود شنید و چشم دیدحقیقت بیان کی جا رہی ہے،برائے مہربانی چند سطور کے لئے تمام بصارتیں مرکوز فرمالیں:
1965ء کی بات ہے ، ہم عیسائیوں کے اسکول میں فقط اس لئے زیر تعلیم و تربیت تھے کیونکہ وہ انگریزی بولتے تھے۔ہمارے گھر والوں نے ہمیں ا س اسکول میں اسی لئے داخلہ دلوایا تھاکہ ہم وہاں سے فر فر انگلش بولتے نکلیں اور بڑے ہو کر اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جو گھر سے کسی کام کے لئے تنہا نہیں نکلتے بلکہ ’’پروٹوکول‘‘ کے نام پردرجن بھر گاڑیاں ان کے آگے پیچھے چلتی ہیں۔ بہر حال ہم عیسائیوں کے اسکول میں ’’انگریزی ترقی‘‘ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ ایک روز اچانک ہمارے روایتی بدترین حریف، ہندوستان نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا۔ ہندو ئوںاور مسلمانوں کے لڑاکا طیارے شہر لاہور کی فضا میں لڑ رہے تھے ، زمین پرسب کی سٹی گم تھی۔ اسکول والوں نے ہنگامی طور پر چھٹی کر دی۔ ہمیں فوری طور پر گھر لے جایا گیا۔جنگ چونکہ غیر معینہ مدت کیلئے تھی اس لئے اسکول بھی غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیئے گئے۔ہمیں ہندوستان پر بے حد غصہ آیا کیونکہ اس کی اس جارحیت کے نتیجے میں نہ صرف ہماری تدریس بلکہ اس سے منسلک دیگر معاملات بھی منقطع ہوگئے تھے۔ ہمارا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح دشمن ہمارے سامنے آئے تو اسے دندان شکن جواب دیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے معمولات میں تغیر آگیا۔ہم دن کے اوقات میں سو جاتے مگر رات کو جب کرفیو لگتا اور بلیک آئوٹ ہوتا تو ہم خوب جاگتے۔ چاندنی رات ہوتی،گھر کی چھتوں پر بچھی چارپائیوں پر جا بیٹھتے، چائے بنتی ، پاپے اور نان خطائیاں کھائی جاتیں۔ کسی شے مثلاً چائے کیلئے چینی کی ضرورت ہوتی توپسِ دیوار ہمسائے کو مخاطب کر کے کہتے کہ ذرامحلے کے دکاندار ’’سیلے‘‘ سے کہنا کہ آدھ سیر چینی دے جائے۔ ہمارا پیغام’’ چھت در چھت‘‘ سیلے تک پہنچتا اور چینی گھر پہنچ جاتی۔ ساتھ ہی کہا جاتا کہ پیسے لکھ لئے ہیں، جنگ ختم ہوگی، کام کاج پر جانا شروع کریں گے تو پیسے بھی دے دینا، فی ا لحال ادھار ہی لے لو۔
پھر یوں ہوا کہ عوام کو سیاستدانوں نے ابھارا، انہیں تبدیلی پر آمادہ کیا اور اس غیر عوامی دورکو چلتا کیا۔اسی دوران 1971ء میں ہمارے روایتی حریف کی رگِ فساد پھڑکی اور اس نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ اب 1965ء والی حکومت تھی اور نہ وہ جذبہ، چنانچہ دکانداروں نے جنگ کے بہانے ایک جانب اشیاء کے نرخ من مانے انداز میں کئی گنا بڑھا دیئے اور دوسری جانب خور و نوش کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی، ناجائز منافع خوری شروع کر دی۔پاکستان وہ جنگ ہار گیا، ملک دو لخت ہو گیا اور ملکی باگ ڈور عوامی قسم کے رہنمائوں کے ہاتھ میں آگئی۔پھر نجانے کیوں کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے، پڑھنے لکھنے، سونے جاگنے ،آنے جانے ، بیمار پڑنے، علاج کرانے ، جینے مرنے،ہنسنے رونے ،سینے پرونے ا ورنہانے دھونے کی چیزوں کے نرخوں میں اندھا دھند اضافہ کر دیا گیا۔ اشیائے ضروری مثلاً چینی، گھی،آٹا، چاول، دال ، مٹی کے تیل اور خشک دودھ کی ذخیرہ اندوزی کا وتیرہ عام ہو گیا۔ہم چائے کے شوقین تھے، مگر ہمیں اپنے اس شوق کے باعث ناکوں چنے چبانے پڑ گئے کیونکہ چینی ہی عنقا ہو گئی۔ پرچون کی دکان پر جا کر چینی طلب کرتے تو دکاندار ایسے گھورتا جیسے ہم نے اسے نازیبا الفاظ سے یاد کیا ہے۔ہم کیا کرتے ، چائے تو بہر حال پینی ہوتی تھی چنانچہ ان حالات میں زردی مائل چینی دکانوں پر فروخت کی جانے لگی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ سفید چینی کا متبادل ہے اور اسکا نام ’’پاکستانی چینی‘‘ ہے۔ ہم یہ چینی ڈال کر چائے پیتے تو ایسا لگتا جیسے گنے کا رس بھی چائے میں ملا ہوا ہے۔ پھر بھی مجبوراً ہم نے خود کو سمجھایا کہ ہم پاکستانی، یہ چینی پاکستانی۔ کچھ عرصہ گزرا تو پاکستانی چینی بھی بازار سے غائب ہوگئی۔ اب ہم کیا کرتے،کسی نے بتایا کہ بھیا،گڑ استعمال کیا کرو۔ چائے پکاتے وقت اس میں گڑ کا ڈھیلا ڈال دو، میٹھی چائے تیار ہو جائے گی۔ ہم نے خود کو گڑ کا عادی بنانے کی مشق شروع کر دی کیونکہ چائے کے شوقین تھے۔
ہمارے احباب کے حلقے میں ایک ’’کہاوت‘‘ عام تھی کہ معاشرے کے حالات اور حقائق بھانڈوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہم اس کہاوت پر متفق نہیں تھے مگر ہوا یوں کہ ہم ایک شادی میں شریک تھے۔ سڑک پر شامیانہ لگا تھا۔جس کا دل چاہتا منہ اٹھا کر اندر آجاتا۔ دولہا کے گھر والے تھوڑی تھوڑی دیر میں آکر دیکھتے اور انجانوں کو پکڑ کر باہر نکال دیتے۔اسی دوران 2 بھانڈ بھی آگئے ۔ انہوں نے ماضی کی غیر جمہوری اورحال کی جمہوری حکومتوں کا موازنہ شروع کیا۔ ایک نے کہا کہ پہلے والی حکومت اچھی تھی، اس نے بڑے بند بنائے مثلاًتربیلا بند، وارسک بند، منگلا بند، راول بند وغیرہ۔ دوسرے نے کہا کہ اس جمہوری حکومت نے تو گزشتہ حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بند بنائے۔ پہلے بھانڈ نے حیرت سے استفسار کیا ’’وہ کون سے‘‘، دوسرے نے جواب دیا’’چینی بند، گھی بند‘ آٹا بند، تیل بند‘‘۔
یوں تویہ برسوں پرانی گزشتہ صدی کی باتیں تھیں مگر ہم اس وقت ہکا بکا رہ گئے جب ہمارے ایک دوست نے شادی میں شرکت کے دوران روڈ پر لگے شامیانے میں کرسی پر براجمان ہو کر وڈیو کال کی جہاں2 بھانڈ یوں محو گفتگو تھے:
’’مبارک ہو جی!کتنی دہائیوں کے بعد ہمارے ملک میں پھر سے حکومت نے ’’بند ‘‘کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔دوسرے نے کہا کہ ہاں عدلیہ نے ایک بند بنانے کا حکم دیا ہے ، جس کے لئے فنڈ بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ دوسرے بھانڈنے کہا: یار!ایک نہیں، ان گنت بند بننا شروع ہو رہے ہیں،بند کے ساتھ فنڈ بھی ملیں گے۔ پہلے نے کہا وہ کون سے؟ دوسرے نے کہا’’بندہ بند یعنی وڈابند، چھوٹا بند، بھائی بند،جوائی بند‘‘ یہ سلسلہ بدعنوانی کے جڑ سے خاتمے تک رُکنے والا نہیں۔اسی دوران بیٹری ختم ہوئی اور انجام کار ہماراموبائل’’ بند‘‘۔