Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پڑ پھوپھی‘‘

***شہزاد اعظم***
نام تو اس کا شاہد تھا مگر گھر سے اسکول تک اور انجانے علاقے سے تھانے تک، ہر جگہ وہ ’’شدّو‘‘ کے نام سے جانا، مانا اور پہچانا جاتا تھا۔ ہمارا تو وہ انتہائی قریبی دوست تھا۔ ’’شدو‘‘ کے ابا کی پھوپھی جو اپنی آخری سانس کی منتظرتھیں، ’’شدو‘‘ کے گھر میں ہی رہتی تھیں۔ وہ 102سال کی تھیں پھر بھی کہا کرتی تھیں کہ ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔’’شدو‘‘ اپنی ’’پڑ پھوپھی‘‘کی خدمت کیا کرتا تھا اور ان سے بے تحاشا دعائیں لینااس کی علت بن چکا تھا۔ اسے جو بھی کام کرنا ہوتا وہ پڑپھوپھی سے دعا کیلئے کہتا اور اس کا کام ہو جاتا۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی یہی کام شروع کر دیا ۔ ہم روزانہ ہی اپنی امی کی خدمات سے فارغ ہو کر پڑپھوپھی سے ملنے پہنچ جاتے۔وہ کبھی پانی مانگتیں تو ہم بھاگ کر پانی لے آتے، وہ پاندان طلب کرتیں تو ہم دوڑ کر لے آتے۔ جب وہ دعائیں دینے کے لئے ہاتھ اٹھاتیں تو ہم فرمائش کرتے کہ پڑپھوپھی، آج ہمارے لئے فلاں میدان میں کامیابی کی دعا فرمائیے۔ دعا اور کام کے دوران جو فارغ وقت ملتا اس میں پڑپھوپھی ہمیں ایسی ایسی باتیں بتاتیں کہ ہمارا 14واں طبق بھی روشن ہو جاتا۔ 
پڑپھوپھی سے جب ہماری تازہ ترین یعنی اب تک کی آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہمیں خواب کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جو نہ اس سے پہلے ہم نے کبھی سنی تھیں اور نہ ہی شاید آئندہ کوئی ہمیں سنا سکے گا۔ انہوں نے ہم سے استفسار فرمایا کہ ذرا بتائیے ، خواب کتنی قسم کے ہوتے ہیں؟ ہم نے کہا آپ ہی بتائیے ناں۔ انہوں نے جواب دیا کہ :
’’خواب 3قسم کے ہوتے ہیں۔ایک ڈرائونے خواب، ایک سہانے خواب اور ایک درمیانے خواب۔اب آپ دریافت کریں گے کہ پڑپھوپھی ان خوابوں کی کوئی مثال بھی دیجئے تو میں اس کی وضاحت کر دیتی ہوں کہ اگر آپ یہ خواب دیکھیں کہ جیسے میں 6برس کی ہوں اور آپ 102برس کے، تو یہ ہے ڈرائونا خواب، اسی طرح میں6برس کی اور آپ 10برس کے تو یہ ہے سہانا خواب اوراگر آپ 6 برس کے اور میں 102کی تو یہ ہے درمیانہ خواب۔ ‘‘
پڑپھوپھی سے خواب کی باتیں سنے ہوئے کل ہی 3ماہ مکمل ہوئے ۔اتفاق دیکھئے کہ ہم بستر پر دراز ہوئے تو ایسا سہ جہتی خواب آیاجو ڈرائونا بھی تھا، سہانا بھی اور درمیانہ بھی۔ ہم نے دیکھاکہ ایک عالیشان ہال ہے جس میں ہزاروںکی تعداد میں رنگ برنگی کرسیاں بچھی ہیںاور ان پر پیکرانِ جمال جلوہ افروز ہیں۔ ہال کے ایک جانب بلند اور وسیع اسٹیج ہے جس کے دونوں جانب ایک ا یک روسٹرم رکھا ہے۔ درمیان میں3 کرسیاں ہیں ۔ درمیانی کرسی ’’جج‘‘ کی ہے جس میں ہم دھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے دائیں جانب 11.5انچ کی دوری پر دھری کرسی پر مسز چوہدری بحیثیت صدر تشریف فرما ہیں اور بائیں جانب 2.5انچ کی دوری پرسابق رکن قومی اسمبلی مہمان خصوصی بنے بیٹھے ہیں۔ تمام مہمانان کی آمد کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوتے ہی اسٹیج پر نصب پردے پر ایک وڈیو دکھائی گئی جس میں پنجاب کے ’’دیرینہ وزیر اعلیٰ‘‘لندن کی پختہ اور ہموار سڑک عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بس اور تیز رفتار ٹریفک سے جان بچانے کیلئے بھا گتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔یہ وڈیو دیکھ کر ہمیں شدید غصہ آیا کہ ہمارے وطن کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کے ’’کہنہ وزیر اعلیٰ‘‘ کے ساتھ گوروں کا یہ سلوک؟ اس کے بعد فوراًبعد ایک اور وڈیو دکھائی گئی جس میں ہمارے یہی وزیر اعلیٰ لاہور میں کسی کام کاج کیلئے انتہائی غیر ضروری پروٹوکول کے ساتھ ایک ’’محلے ‘‘ سے دوسرے ’’محلے‘‘ تک جا رہے ہیں، کروڑوں روپے مالیت کی درجن بھرسے زائد گاڑیوںنے موصوف کو اپنے مسلح جلو میں لے رکھا ہے۔ عوام کی خدمت و مدد پر مامور پولیس کے افسران و اہلکاران، بااختیار صاحبان کے اس مسلح کاروان کوتیز رفتاری سے گزارنے کیلئے ہزاروں افرادکو روکے کھڑے ہیںجس کے باعث ٹریفک بری طرح جام ہے اور اس میں لامحالہ اسکول جانے والے بچے، دفاتر جانے والی شخصیات اور اسپتال جانے والے مریض سب ہی موجود تھے۔ یہ دونوں وڈیوز دکھانے کے بعد حاضرین میں سے ایک شخصیت کو دعوت دی گئی کہ وہ دائیں جانب کے روسٹرم پر آکر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔انہوں نے مائیک سنبھالتے ہی نہایت دبنگ انداز میں چلانا شروع کیا کہ اگر ہمارے کہنہ سیاسی رہنما لندن جا کر پیدل دوڑ کرسڑک عبور کرتے پائے گئے تو کیا ہوا، وہاں بااختیار و بے اختیار سب کے سب یونہی سڑکوں پر بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے رہنما نے اگر ا یسا کیا تو انہوں نے در حقیقت اس’’ عالمگیر قول‘‘ پر عمل کر کے دکھایا ہے کہ ’’ڈو ان روم ایز دا رومن ڈز‘‘یعنی روم میں وہی کرو جیسا رومن کرتا ہے۔ وڈیومیں دکھایا گیا یہ منظر ایک سہانا خواب تھا۔
اب آتے ہیں ہم دوسری وڈیو کی جانب۔ اس میں لندن کی سڑکوں پر بھاگتے اسی رہنما کومتعدد گاڑیوں کے سایۂ عاطفت میں سفر کرتے دکھایاگیا ہے تو جناب عالی، اس میں کون سی اچنبھے والی بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے اس’’ ملک گیر قول‘‘پر عمل کر کے دکھایا ہے کہ ’’ڈو اِن ہوم ایز دا ہیومن ڈز‘‘یعنی ہوم میں وہی کرو جیسا ہیومن کرتا ہے ۔اس پر سامعین نے تالیاں پیٹیں اور وہ شخصیت اسٹیج سے نیچے اتر گئی۔ اب بائیں جانب کے روسٹرم پر ایک اور ہستی کو دعوت دی گئی۔انہوں نے فرمایا’’کسی بھی اصول کو پرکھنے کاایک طریقہ یہ ہے کہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھ لیں تو ذرا سوچئے اگر روم کو ہوم سمجھ لیا جائے اور وہاں جا کر رومن کی بجائے ہیومن جیسی حرکتیں کی جائیں تو کیا حشر ہوگا۔ وہاں لوگ تمام اختیارات واپس لے کر،بے اختیار کر کے آزادی بھی سلب کر لیں گے۔ اسی طرح اگر ہوم کو روم سمجھ لیاجائے اور لاہور ، اسلام آباد یا کراچی شراچی کی کسی بھی سڑک پر یہ کہنہ سیاستداں سڑک عبور کرنے کے لئے پیدل بھاگتے دکھائی دیں تو لوگ انہیں گھیر لیں گے ، ایسی افراتفری مچے گی کہ حالات پر قابوپانا مشکل ہوجائے گا۔پس اس سے ثابت ہوا کہ رومن کورومن رہنے دیاجائے اور ہیومن کو ہیومن۔اگر ان کی جگہیں تبدیل کریں گے توہا ہا کار ہی مچے گی۔ یہ منظر ہمارے لئے درمیانہ خواب تھا ۔  
اب مائیک ہمارے سامنے رکھ دیا گیا۔ہم نے فرمایا:
’’یہ امر حقیقت ہے کہ روم میں رومن کو رہنے دیاجائے اور ہوم میں ہیومن کو۔اس طرح دونوں جگہوںپر امن رہے گا۔اس کے برخلاف اگر دونوں کی جگہیں بدل دی گئیں تو بدامنی پھیلے گی۔ہماری گفتگو کے دوران صاحبِ صدر نے لقمہ دیا کہ یہی تو مسئلہ ہے،ترقی پذیر قوم پر ترقی یافتہ اور ناخواندگان پر خواندہ نظام مسلط کرنا ایسا ہی ہے جیسے رومن کو ہوم میں یا کہنہ رہنما کو روم میں چھوڑ دیا گیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ........یقین جانئے موصوفہ کا یہ لقمہ ہمارے لئے انتہائی ڈرائونا خواب تھا۔یہ کہہ کر اس ہستی نے نقاب ہٹایا تو ہم حیرت زدہ رہ گئے، یہ تو پڑپھوپھی تھیں۔
 

شیئر: