Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’وبالپور، مثالپور‘‘

***شہزاد اعظم***
ہم چھوٹے تھے، جسمانی اعتبار سے ذرا موٹے تھے، عقلی لحاظ سے کھوٹے تھے، ابو اور امی دونوں میں سے جس سے بھی کچھ کھانے پینے کی چیز ملنے کے امکانات سجھائی دیتے، اسی کی گود میں جا بیٹھتے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم لوٹے تھے۔یہ وہ دن تھے جب ہم مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ تھے چنانچہ اس کا ایک انتہائی مفید و مثبت پہلو یہ تھا کہ ہمارا زیادہ تر وقت گودوں میں ہی گزرتا تھا۔کبھی ہم  بڑی پھوپھوکی گود میں ہوتے، کبھی منجھلی پھوپھو کی گود میں اور کبھی چھوٹی پھوپھوکی گودی میں، اسی طرح کبھی بڑی خالہ کی گود ہمارا مسکن ہوتی، کبھی منجھلی خالہ کی گود ہمارا بوجھ اٹھاتی اور کبھی ہم چھوٹی خالہ کی گود میں پر مسلط ہوتے۔رہی بات ابو اور امی کی گودوں کی تو وہ تو اپنی میراث تھیں، بے  مِنت، بے احسان۔ ان گودوں میں تو ہم کسی انتباہ یا فرمائش کے بغیر ہی کسی ’’در انداز‘‘ یعنی ’’گھس پیٹھئے‘‘ کی مانند جا بیٹھتے تھے۔ یوںدن بھر میں ہمارا پائوں شاذ و نادر ہی زمین پر ٹکتا تھا۔
وقت گزرتا رہا ، ہمارے گھر کے برآمدے میں دیوار پر لٹکا گھڑیال ، عمر کی گھٹتی گھڑیوں کی منادی کرتا رہا ۔ پھر ہماری عمرِ عزیز کا وہ دلخراش دور بھی آ گیا جب ہمیں ’’گود بدر‘‘ کر دیا گیا۔وہ تمام حقائق پارینہ ہوگئے جب ہمیں گودوں گود لیاجاتا تھا ۔ کہاں وہ دور کہ ہماری  خالائیں اور پھوپھیاں ہمیں گود میں لینے کے لئے آپس میںکبھی گتھم گتھا اور کبھی لٹھم لٹھا ہوجاتی تھیںاور کہاں یہ حال کہ ہم رو رو کر دہائیاں دیتے کہ پھوپھو، خالہ ہمیں گود میں لے لیں تو وہ ’’بالترتیب ‘‘ کہتیںکہ یہ ڈھائی من کابھتیجا، بھانجا ہم سے نہیں اٹھایاجاتا۔انجام کار ہم نے خود ہی پائوں پائوں چلنا شروع کر دیا ۔یوں کئی دہائیوں قبل سے یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔بہر حال:
ہمیں ابھی ’’بے گود‘‘ ہوئے سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ہمارے خاندان کے صرف55افراد نے فارم ہائوس جانے کا پروگرام بنایا۔ ایک بس اور ایک منی بس کرائے پر لائی گئیں۔بچے بڑے سب کے سب تیار ہو کر بس نشین ہوگئے ۔ گاڑی بانوں نے ساتھ ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلنے کا قصد کیا۔ خوشگوار سفر کا آغاز ہوا۔ہم نے اپنی طینت کے مطابق سفر سے لطف ا ندوز ہونا شروع کیا۔ کبھی ایک خالہ کے ساتھ والی نشست پر براجمان ہوتے اور کبھی پھوپھی کے ساتھ والی نشست پر جا بیٹھتے۔ کبھی ابو سے ڈانٹ کھا کر امی کی گود میں پناہ گزیں کی حیثیت سے کچھ عرصے قیام کرتے ۔ 9گھنٹے کے سفر کے بعد بالآخر ہماری بسیں قومی شاہراہ سے یکدم دائیں مڑیں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گویا’’پیدل‘‘چلنے لگیں۔ ہم گرد و غبار میں اٹے تنگ و تاریک راستوں سے ہوتے ہوئے بالآخر ایک مقام پر جا کر ٹھہر گئے ۔ ہم نے اپنے ماموں سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ ’’وبالپور‘‘ ہے ۔مغرب کا تنگ وقت تھا۔ وہاں ہمارے میز بانوں نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ ریسٹ ہائوس میں تمام کمروں کے دروازے بند کر کے ان میں تالے ڈال کر رکھئے کیونکہ مغرب کے بعد سے یہاں چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں ا ور قاتلوںکا راج ہوتا ہے۔ ہم صبح 8بجے ناشتہ لے کر حاضر ہو جائیں گے۔یہ کہہ کر میزبان تو چلے گئے مگر ہم بستر میں دبک گئے۔ہوا سے دروازہ ہلتا تو ہم اپنی ا می کو اٹھا دیتے کہ مما! کوئی لٹیرا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امی ہماری کمر پر
’’تھپڑانہ تسلی ‘‘دیتیں ۔ ہم نے چوری اور ڈکیتی کے ڈر کے مارے آنکھوں ہی آنکھوں رات کاٹ دی۔صبح کو ناشتہ آیا۔ پراٹھے تھے مگراتنے سخت کہ انہیں چبانا مشکل تھا۔ انڈہ اصیل مرغی کا تھا مگر وولایتی انڈے کے مقابلے میں بد مزہ۔مکھن بھی تھا مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے جما ہوا دہی۔ہم نے دودھ پینے کے لئے پیالہ منہ سے لگایا تو اس میں سے عجب قسم کی بو آ رہی تھی۔ ہم سے ایک گھونٹ بھی نہیں پیاگیا۔دن چڑھے ہمیں کھیتوں کی سیر کیلئے لے جایاگیا ۔ وہاں کھیت تو تھے مگر ویران، آب پاشی کے لئے نالے موجود تھے مگر ان میں پانی نہیں تھا۔آم کے چند درخت دکھائی دیئے مگر ان پر شاذ و نادر ہی کہیں پھل دکھائی دیتا تھا۔استفسار پر معلوم ہوا کہ بجلی کی قلت کے باعث ٹیوب ویل نہیں چل سکتے اور بارش اس علاقے میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔اس خشک سالی کے باعث بعض اوقات تو فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ کسان قرضے مانگتے ہیںانہیں قرض نہیں دیا جاتا کیونکہ صاحبان اختیار خود ہی دنڈ کھا جاتے ہیں۔ اگر چیخ چلا کر ہڑتالیں کر کے کسان قرضہ لے بھی لیں تو ان کی اکثریت قرضے واپس نہیں کرتی کیونکہ وہ اس کے عادی نہیں۔ اسی دوران ہم نے پینے کے لئے پانی مانگا تو مہمان نے جگ بھر کر سامنے رکھااور کہا کہ ابھی اسے پینے کی کوشش نہ کیجئے ۔یہ مٹیالہ پانی تھا ۔ میزبان نے اس  میںپھٹکری کا ڈھیلا گھمایا اور کچھ ہی دیر میں چھوٹے چھوٹے گچھوں کی شکل میں مٹی تہہ نشین ہونے لگی۔ میزبان نے کہا کہ کافی عرصے سے پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، ماہرین نے گندے پانی کی صفائی کا یہ طریقہ بتایا ہے۔ ہم لوگ یہی پانی پیتے ہیں۔بعد ازاں ہمیں کینو کھانے کے لئے دیئے گئے مگر نجانے کیوں ان کی قاشوں میںصرف پھوک تھا، رَس موجود ہی نہیں تھا۔ہم کھلیان میں تھے مگرشدیدحبس ہو رہا تھا۔ ہم ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد گئے ۔ وہاں نمازیوں کی ایک صف بھی بمشکل ہی مکمل ہوئی ۔ ہمارا دل بالکل نہیں لگا چنانچہ ہم نے رونا شروع کر دیا اور مما سے ضد کرنے لگے کہ واپس چلو۔ ہمارا رونا رنگ لایا اور دونوں بسیں سفر کے لئے روانہ ہوگئیں ۔ چند گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مثالپور پہنچے۔جہاں کشادہ سڑکوں، اٹھلاتی ہوائوں، مہکتی فضائوں، سرسبز و شاداب کیاریوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ریسٹ ہائوس پہنچے تو ہمیں روشن، ہوا دار اور صاف ستھرے کمرے دیئے گئے ۔ عشا ء کا وقت ہوا تو چہار دانگ سے اذان کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ لوگ تمام کام کاج چھوڑ کر مسجد جانے کے لئے چل پڑے۔عشائیے میں میزبانوں نے پلائو پیش کیاجو اپنی مثال آپ تھا۔ یہاں ہر شخص مسکرا کر مل رہا تھا۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ رات کو دروازے مقفل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں کسی چوری چکاری کا خدشہ نہیں۔ یہاں کے باسی صاحب ایمان و ایقان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو ہم اللہ کریم سے مانگتے ہیں، کسی کا مال ہتھیانا یا کسی کے آگے دست سوال دراز کرنا درست نہیں، ہم صرف اور صرف رب کریم سے مانگتے ہیں اور بس۔ہم نے کہا کھیتوں میں پانی کہاں سے آتا ہے؟ جواب ملا کہ اگر بارش نہ ہو تو ہم نماز استسقاء اداکرنے جاتے ہیں اور ساتھ چھتریاں لے جاتے ہیں کیونکہ استسقاء اداکرنے کے بعد اکثر بارش شروع ہو جاتی ہے اور واپسی پر بھیگتے ہوئے آنا پڑتا ہے ۔ہم نے کہا پینے کا پانی کیسا ہے، جواب ملا ہرگھر، ہر گلی میں ہینڈ پمپ موجود ہے۔ میٹھا ، صاف اور ٹھنڈا پانی ہر وقت ملتا ہے ۔یہاں کوئی جرم نہیں ہوتا۔ صاحبان ا ختیارتمام سرکاری فنڈ عوام کی خدمت کے لئے صرف کرتے ہیں۔ وہ گھر گھر دستک دے کر احوال دریافت کرتے ہیں اور مشورے طلب کرتے ہیں۔
آج ہمیں اپنی ’’گود بدری‘‘ کے بعد کا وہ سفر بہت یاد آ رہا ہے اور دل خون کے آنسو روتے ہوئے دعا کر رہا ہے کہ کاش! ہمارا وطن عزیز’’ وبالپور‘‘ کی بجائے ’’مثالپور‘‘ بن جائے۔  
 

شیئر:

متعلقہ خبریں