آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں گھرا ہوا ہے ،اُس میں ضرورت ہے کہ سورۃ العصر سے رہنمائی حاصل کرکے اسلامی عقائد کو اپنایا جائے
* * *عبدالمنان معاویہ * * *
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت انسان کی رہنمائی کے لئے اپنی آخری نبی ورسول کو جامع دستورِ حیات عطا فرمایا ،جو صرف اہلیان ِ اسلام کے لئے دستورِ حیات ہی نہیں بلکہ شان والے نبی پر نازل ہونے والا عظیم الشان معجزہ بھی ہے ،جو قیام ِقیامت تک بنی نوع انسان کے لئے نشانِ منزل ہدایت اور جدید ایجادات کی راہ سجھانے والی کتاب یعنی قرآن الکریم ہے ۔
اس وقت مجموعی صورت حال اہلیان اسلام کی کچھ یوں ہے کہ قرآن کریم کا مطالعہ بغیر سمجھے کرتے ہیں یا قرآن کریم کا مطالعہ اپنے مسلک ونظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے یا پھر قرآن کریم کو چوم کر الماری میں واپس رکھ دیا جاتا ہے ،الا قلیل لوگ کہ ابھی کچھ دیوانگانِ عشق ایسے باقی ہیں جو قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور انہیں عشاقِ قرآن کی برکت سے یہ کائنات ہستی کا وجود باقی ہے ۔
اس وقت مسلمان بحیثیت ایک قوم کے ذلالت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے ،لیکن جب ہم سورۃ العصر کا معانی ومفاہیم وتفسیر کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر آج کی مسلم امہ صرف سورت العصر پر عمل پیرا ہوجائے تو بھی بہت جلدزوال کی شب ِ تاریک سے نکل مسند ِ عزت وعروج پاسکتی ہے ،سب سے پہلے ایک بار سورۃ العصر کا مفہوم ملاحظہ فرمالیجئے:
’’اور قسم کے زمانہ کی ،بے شک انسان خسارے میں ہے ،مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے ،(وہ ایک دوسرے کو) حق کی طرف رغبت کرنے اور صبر کرنے کی بھی وصیت کرتے ہیں‘‘۔
یہاں یہ امر لائق تو جہ ہے کہ زمانہ کی قسم کیوں اٹھائی گئی جب کہ فی زمانہ فحاشی وعریانی عام ہے ،جھوٹ کا بازار گرم ہے اور خاص کر ہمارے تھانہ کچہری کا کلچرہی جھوٹ وفریب پر مبنی ہے ،اغواء برائے تاوان وجنسی خواہشات کی تکمیل ،بھتہ خوری،گھریلو جھگڑے ،قتل وغارت گری ،طلاق کی بڑھتی شرح ،جسم فروشی وہم جنس پرستی کے بڑھتے واقعات یہ سب فی زمانہ عام ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں تو زمانہ کی قسم کیوں اٹھائی گئی ،اس لئے کہ زمانہ انسان پر گواہ ہے ،انسان اپنی حیات کے شب ِ وروز جس طرح گزارتا ہے ،دہر کی چلتی نبضیں اس کی رفتار خیر وشر کو نوٹ کرتی ہیں اور بروزِ حشر انسان کے حق یا خلاف کراماً کاتبین کی تحریریں ، انسان کے اپنے اجزاء جسم ،زمین ،اور دہر سب کے سب گواہی دیں گے اور پھر انسان بے ساختہ پکار اٹھے گا:اور زمین اپنے بوجھ کر نکال باہر کرے گی ،اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوا،اس دن وہ اپنی خبریں بیان کردے گی ۔(الزلزال2تا4)
بعض حضرات زمانہ کو برا کہتے ہیں حالانکہ زمانہ کو بر انہیں کہتے کیونکہ برے افعال کا سرزد ہونا یا نہ ہونا انسان سے ہے،زمانہ سے نہیں اور نہ ہی زمانہ ہمیں برے افعال پر یا برائی کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ ہم انسان ہی اچھائی یا برائی کی طرف اپنی نفسانی خواہشات ، بری سوسائٹی ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا برا استعمال ،انٹرنیٹ کا برا استعمال یہ سب ہم خود کرتے ہیں ،ورنہ آپ غور کریں کہ آج بھی دینی مدارس میں بڑے سے بڑے منصب پر فائز عالم دین یعنی شیخ الحدیث کی ماہانہ تنخواہ 15 سے20 ہزار تک ہی ہوتی ہے ،اب دیکھئے کہ مہنگائی کے اس دور میں وہ کس طرح گھر کی گاڑی چلائے اور کیسے نئے موضوعات پر شائع ہونی والی کتب خریدے تو یہ معاملہ انٹرنیٹ نے سہل کردیا ہے کہ نئی نئی کتب فری ڈائونلوڈ کرکے ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ،عربی ،فارسی ،انگریزی ،اردو اور دیگر زبانوں میں کثیر تعداد میں دینی وادبی لٹریچر موجو د ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ،یعنی چیزوں کا استعمال بذات خود اچھا یا بر انہیں ہوتابلکہ اُن کو استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس شئے کا اچھا استعمال کرتا ہے یا برا۔اس لئے زمانہ کو بر ا نہیں کہنا چاہیے۔
آگے فرمایاکہ :’’بے شک انسان خسارے میں ہے ‘‘ لفظ انسان لاکر تخصیص ختم کردی کہ کسی کے ذہن میں یہ نہ رہے کہ صرف کافر خسارے میں ہیں ،ہم نے کلمہ نبی آخرلزماں کا پڑھ لیا ہے ،اب ہم جو کچھ مرضی کرتے پھریں ،گویا کلمہ طیبہ ہمارے ہر کام کے لئے سرٹیفیکٹ ہے،ایسا نہیں ہے بلکہ لفظ انسان لاکر اس سوچ کی نفی فرمادی گئی ہے۔
اُس صانع عالم کے علم ماکان ومایکون میں یہ بات روزِ اول سے تھی کہ انسان مجموعی لحاظ سے اس فانی دنیا میں جاکر عالم ارواح میں حق تعالیٰ سے کیے گئے معاہدے کوفراموش کردے گا ،اور فانی دنیا کی آرائش وآسائش میں ایسا گم ہوگا کہ وہ مقصد ِ تخلیق کو ہی بھول جائے گا ،اور دنیا کی بھول بھلیوں میں مختصر مہلت کے دن پورے کرکے ابدی طورنقصان اٹھائے گا،اور ابدی نقصان ہی درحقیقت ایسا خسارہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا خسارہ اس کے بالمقابل کچھ حیثیت نہیں رکھتا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ سارے انسان ہی خسارے میں ہیں ،اس لئے فوراً آگے فرمایا کہ :’’ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے او ر انہوں نے نیک اعمال کیے ‘‘یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ جس طرح کلمہ طیبہ میں ہے کہ :۔لا الٰہ ، کہ کوئی معبود نہیں ،کوئی اس لائق نہیں کہ بنی نوع انسانی اس کے سامنے سر بسجود ہو،لیکن اس نفی کے فوراً بعد اثبات میں فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ تم بغیر کسی خالق ومالک وصانع کے خود بخود معرض وجود میں آگئے ہو ،اور تمہیں کسی کے سامنے بھی سر تسلیم خم نہیں کرنا بلکہ ایسا نہیں کیونکہ:۔الااللّٰہ،مگر اللہ ہے کہ اس کے سامنے سربسجود ہوا جائے گا،اس کی عبادت جسمانی و روحانی کی جائے گی ،اس کی صفات کو اسی طرح مانا جائے گا جس طرح محمد رسول اللّٰہ نے منوایا ہے ،بتایا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھایا ہے ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بعد والوں کو دین سکھایا ہے ۔توخیر بات ہورہی تھی کہ جب الاکہا تو معلوم ہوا کہ سب کی نفی نہیں بلکہ کوئی ذات ہے ،اسی طرح یہاں بھی اولاً جس طرح انسانوں کے خسارے کا بیان ہوا ،اس سے شک ہورہا تھا کہ ساری انسانیت ہی خسارے کا شکار ہوجائے گی ،لیکن حق تبارک وتعالیٰ نے ساتھ ہی لفظ الا لا کر انسانیت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ سارے نہیں ،بلکہ صرف وہ جو ایمان نہ لائیں اور نیک اعمال نہ کریں۔
اسلام’’ اقرارٌ باللسان‘‘ کو کہاجاتا ہے یعنی زبان سے اقرار کرنااور ’’تصدیقٌ بالقلب‘‘یعنی ایمان دل کی تصدیق کو کہتے ہیں ، اور ایمان کو دوسرے لفظوں میں عقائد صحیحہ بھی کہاجاسکتا ہے ،یعنی ایک آدمی کارِ خیر کرے لیکن اس کے عقائد درست نہیں ،تو اس کے اعمال خیریہ کا بدلہ حق جل مجدہ دنیا میں ہی اسے عطا فرمادیں گے ،لیکن اگر اس بندے کے عقائد صحیحہ رکھتا ہے تو اس کے اعمال خیریہ اسے آخرت میں کام دیں گے ،اور اصل نفع ونقصان آخرت کا ہے ،جو روزِ محشر کامیاب ہوگیا ،وہ نفع مند ثابت ہوا،اور جو اس دن ناکام ہوا وہ خسارے میں گیا ۔
جس بندے کے عقائد، اسلامی عقائد کے مطابق ہوں اور وہ اعمال صالحہ پر بھی کار بند ہو،ایسے لوگوں کو مزید حکم ہے کہ لوگوں کو حق کی طرف دعوت بھی دیں ،کہ وہ بھی حق کو قبول کریں ،اور قبول حق میں مشکلات ومصائب کا آنا لازمی حصہ ہے ،اس لیے قبول حق کرنے والے حضرات مشکلات ومصائب میں گھبر ا نہ جائیں بلکہ دین اسلام کی خاطر آنے والے مشکلات ومصائب پر صبر کریں ،کیونکہ اس صبر کی جزا جنت ہے ،صبر کا مفہو م یہ نہیں ہے کہ دوسرے کے ظلم وزیادتی کو خاموشی سے برداشت کیا ،بلکہ یہ ہے کہ اپنا حق گنوا کر بھی زبان سے کوئی جملہ شکایت ادا نہ کیا ۔
آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں گھرا ہوا ہے ،اُس میں ضرورت ہے کہ سورۃ العصر سے رہنمائی حاصل کرکے اسلامی عقائد کو اپنایا جائے اور اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ کا ایک اچھا فرد ثابت ہو ،اور پھر اسی اچھائی کی دعوت کو عزیز واقارب میں دوست واحباب میں حکمت وتدبر کے ساتھ عام کرنے کی سعی کرے اور اس راہ میں دوستوں کی یا عزیز واقارب کی کڑوی کسیلی باتوں پر صبر کا مظاہر ہ کرے ،ایسے لوگ ہی دنیاوی واُخروی کامیابی کے حامل ہوں گے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔آمین