عبادات میں افراط و تفریط ، انتہا پسند ی
اتوار 15 جولائی 2018 3:00
کسی نے نبی اکرم کی سنت کی خلاف ورزی کی اور افراط و تفریط کا شکار ہوا تو نہ صرف اس کا وہ عمل نامقبول ہے بلکہ وہ امت میں سے نہیں
* * *محمد منیر قمر۔ الخبر***
اتباعِ رسول کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ جو نبی اکرم نے خود کیا یا کرنے کا حکم فرمایا یا کسی کو کر تے دیکھا اور اسے منع نہ فرمایا ہواسے اپنایا جائے۔جوکام نہ آپ نے خود کیا، نہ کرنے کا کسی کو حکم دیا بلکہ اس سے روکا ہو، ایسا کام کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اسی کا نام اتباع رسول یا اتباع سنت ہے جو کہ ہمارے لئے ذریعۂ نجات ہے۔ کوئی کام بظاہر کتنا ہی اچھاکیوں نہ نظر آتا ہو، اگر وہ سنت کے مطابق نہیں تو نا مقبول ہے۔ ایسے ہی انتہا پسندی کا رجحان بھی شریعت اسلامیہ کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا ۔مثلاً ایک کام تو اچھا اور نیک ہے مگر اس کی ادائیگی میں ایسا رویہ اختیار کرلیا کہ وہ رسول اللہ سے پیش قدمی کے ضمن میں آجائے تو یہ بھی روا نہیں کیونکہ سورہ الحجرات کی پہلی آیت ہی میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کر نے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول () سے آگے مت بڑھو(یعنی ان کے احکام سے پیش قدمی مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا او ر جاننے والا ہے۔‘‘
اس انتہا پسندی یا پیش قدمی کاایک واقعہ کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ صحیح بخاری ومسلم شریف میں حضرت انسؓ سے مروی ہے :
’’3 آدمی رسول اللہ () کی ازواج مطہرات(میں سے کسی) کے پاس آئے اور ان سے نبی () کی عبادت کے بارے میں پوچھا، جب ا نہیں آپ کی عبادت کے بار ے میں بتادیا گیا، تو انہوں نے کہا :
نبی اکرم () (کی اس عبادت) کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے؟آپ () کے تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر رکھے ہیں (تب بھی آپ اتنے عبادت گزار ہیں)
لہذا ان میں سے ایک نے کہا :
’’میں تو ہمیشہ ساری رات ہی نماز پڑھا کروںگا۔‘‘
دوسرے نے کہا :
’’میں تو بلا ناغہ روزہ رکھتا رہوں گا۔‘‘
اور تیسرے نے کہا :
’’میں(کثرت عبادت کی خاطر)عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا او ر کبھی شادی نہ کروں گا۔‘‘
نبی اکرم کو یہ باتیں پہنچیں تو ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
’’کیا وہ تم ہی ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟مجھے اللہ کی قسم !میں تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ والاہوں لیکن پھر بھی میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کر تا ہوں(یعنی کبھی نہیں بھی رکھتا ) اور میں رات کوقیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں کے ساتھ شادی بھی کر تاہوں۔
اور اپنی عبادت و عمل کا طریقہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
’’جس نے میرے اس طریقے سے بے رغبتی کی وہ میری امت میں سے نہیں۔‘‘(مشکاۃ )۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ اگر کسی نے نبی اکرم کے طریقہ عبادت یا سنت کی خلاف ورزی کی اور افراط و تفریط کا شکار ہوا تو نہ صرف اس کا وہ عمل نامقبول ہے بلکہ ساتھ ہی وہ ارشاد نبویؐ ’’ وہ میری امت میں سے نہیں‘‘کا بھی مصداق ہو گا۔
جب کوئی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ ایمان باللہ اور توحید الہٰی کے ساتھ ساتھ نبی اکرم کی رسالت کا بھی اقرار کر تا ہے، یہ اقرار اس پر واجب کردیتا ہے کہ وہ آپ کے احکام و فرمودات کی اطاعت کرے اور آپ کے منع کر دہ فرمودات سے مکمل احتراز و اجتناب کرے، جیسا کہ سور ۃالحشر کی آیت 7 میں ارشاد الہٰی ہے:
’’تمہیں رسول اللہ( ) جو حکم دیں اسے اپنالو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آجاؤ۔‘‘
محمد رسول اللہ کا اقرار یہ مطالبہ کرتا ہے کہ امور دینیہ میں اپنی مرضی اور من مانی کی بجائے سنت رسول کے مطابق عمل کیا جائے ، آپ کے تابناک اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزاری جائے اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کر کے عذاب الہٰی کو آواز نہ دی جائے کیونکہ سورۃا لنور کی آیت63 میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’نبی اکرم () کی مخالفت کر نے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ کسی فتنے کا شکار نہ ہوجائیں یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ ‘‘
محمد رسول اللہ کا اقرار یہ تقاضا کرتا ہے کہ زندگی بھر پیش آنے والے ہر معاملہ میں نبی کے فرمان کو منصف اور حکم تسلیم کیا جائے ورنہ ایمان کی سلامتی خطرے میں ہے، سورۃالنساء کی آیت65 میںارشاد الہٰی ہے:
’’(اے نبی)! تیرے رب کی قسم ہے کہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تمام اختلافات میں آپ () کو منصف نہ مان لیں۔‘‘
سرور کائنات کے قول و عمل کا نام ہی’’سنت ‘‘ ہے اور جو مسلمان آپ کی صحیح اور ثابت شدہ سنت کے مطابق زندگی گزار رہا ہو،وہی اہل سنت ہے اور وہی اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بھی ہے کیونکہ بخاری شریف میں ارشاد نبویؐ ہے:
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ ‘‘
جو شخص عبادات کے معاملہ میں من مانی کرے، نبی اکرم کے ارشادات کو مد نظر نہ رکھے اور بعض ایسے کاموں کو بھی دین اور ثواب سمجھ کر بجالائے جو آپ نے نہ کئے ہوں اور نہ ہی کر نے کا حکم فرمایا ہو، وہ کام باعث اجر و ثواب نہیں بلکہ موجب عتاب و عذاب ہیں۔ کیوں کہ ہر وہ کام جو نبی اکرم کے عہد مسعود کے بعددین میں داخل کیا گیا ہو مگر حقیقتاً دین سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، ایسے ہی کام کو شرعی وفقہی اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہا جا تا ہے جس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
یہاں ایک بات بطور خاص ذہن نشین رہے کہ شرعاً صرف وہ کام بدعت کہلاتا ہے جو:
* نبی اکرم کے عہد مبارک کے بعد نیا ایجادکیا گیا ہو اور سنت رسول میں اس کی کوئی نظیرنہ ہو۔
* وہ کام دین میں داخل سمجھا جاتا ہو او ر اسے باعث اجر وثواب اور ذریعۂ تقرب بھی مانا جائے۔
البتہ وہ کام جو نیا تو ضرور ہے مگر جزودین شمار نہیں کیا جاتا، اسے ’’بدعت‘‘ نہیں کہا جا ئے گا ۔ اس طرح مختلف قسم کی تمام مفید و مباح ایجادات بدعت کی تعریف میں سے خارج ہو جا تی ہیں جو اگر چہ عہد نبوت کے بہت بعد وجود میں آئیں مگر انہیں کار ثواب ، باعث تقرب الی اللہ اور دین کا جزو تو کسی نے قرار نہیں دیا ، مثلاً بس ، کار ، موٹر سائیکل کی سواری کرنا، اذان و جماعت اور خطبہ کیلئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ، روشنی کیلئے ٹیوب یا بلب کا استعمال ، عینک لگانا، گھڑی باندھنا وغیرہ امور بدعت کے ضمن میں نہیں آتے۔ بدعت صرف وہی کام ہو تا ہے جونیا بھی ہو اور جسے دین کا جزو یا باعث ثواب بھی سمجھا جائے۔
ان بدعات کا وجود میں آنا در اصل تو طلب ثواب کیلئے ہی ہو تا ہے مگر ہمارے سادہ دل بھائی یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے اس فعل سے انہیں ثواب تو کیاسخت گناہ ہوگا ۔حقیقت یہ ہے کہ شیطان لعین نے ثوابِ دارین کا چکر دے کر کچھ لوگوں کو بدعات کی ترویج واشاعت پر لگا رکھا ہے اور حالات ہمارے سامنے ہیں کہ ان خرافات کا جال امربیل کے تاروں کی طرح پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ جس طرح امربیل درخت کو کھاجا تی ہے، ایسے ہی بدعات و خرافات کی دبیز تہوں میں سنت رسول اللہ بھی دھندلا رہی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہر وہ کام جس کا زما نۂ رسالت میں بھی موقع آیا اور جس کے سر انجام دینے سے کوئی مجبوری مانع بھی نہ تھی، اس کے باوجود اُس زمانۂ مسعود میں نہیں کیا گیا، اسے آ ج کیا جا رہا ہو اور فخر یہ کیا جا رہا ہو تو ایسے کام میں خیر کہاں سے آئے گی جبکہ دینِ مصطفی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر ایسا کوئی کام واقعی ثواب دارین ہوتا تو سرور کائنات اپنی امت کو ضرور مطلع کر جا تے کیونکہ آپ مسلمانوں کی بھلائی کے بڑے حریص تھے اور جب آپ نے ایسے کام کو مشروع قرار نہیں دیا تو آج جو آدمی ایسا کوئی عمل ایجاد کرتا ہے، وہ گویا شریعت کو ناقص قرار دیتا ہے اور شریعت سازی کا ارتکاب کر تا ہے جو عظیم جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعات و خرافات کی نبی اکرم نے سخت مذمت فرمائی ہے جیسا کہ بخاری ومسلم شریف میں ارشاد نبوی ؐہے:
’’جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نیا عمل ایجاد کیا جو در حقیقت دین میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
مسلم شریف میں ارشاد رسالت مآب ہے:
’’بے شک بہترین حدیث اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد رسول اللہ( )کی سنت ہے اور بدترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
یہی روایت نسائی شریف میں بھی ہے جس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
’’ اور ہر گمراہی کا انجام نا ر جہنم ہے۔‘‘
شاید کوئی دوسرا گناہ ایسا نہیں جس کی اس قدر مذمت کی گئی ہو جتنی بدعت کی کی گئی ہے۔ نبی اکرم جب بھی خطاب فرماتے تو خطبۂ مسنونہ میں یہی الفاظ دہرایا کرتے کہ:
’’میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا ، تب تم پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ لازم ہے۔ انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نئے نئے امور سے بچو، بے شک (دین میں)ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘(ابو داؤد)۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ( ) نے ہمارے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا (سیدھا) راستہ ہے، پھر اس کے بعد دائیں اور بائیں لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ مختلف راستے ہیں جن میں ہر ایک راستے پر شیطان بیٹھا اس کی طرف دعوت دے رہا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد یہ آیت (الانعام163) تلاوت فرمائی:
’’بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے تم اسی راستے پر چلو۔‘‘