معصوم مرادآبادی
زندگی کے ہر میدان میں ناکام ہونیوالا قیادت کا منافع بخش کاروبار شروع کردیتا ہے
شہرت اور دولت کا شوق انسان کو کبھی کبھی یوں بھی رسوا کرتا ہے کہ وہ سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسا ہی پچھلے ہفتے آسمان چھونے کے خواہش مند ایک مولوی صاحب کے ساتھ ہوا جو ایک ٹی وی مباحثے میں شریک ہونے گئے تھے لیکن وہاں ایک خاتون سے گتھم گتھا ہوگئے اور گھر واپس آنے کی بجائے جیل پہنچادیئے گئے۔
دراصل جب سے الیکٹرانک میڈیا کا دور شروع ہوا ہے، تب سے ہر شخص کو ٹی وی پر اپنا چہرہ دیکھنے کا شوق پیدا ہوگیاہے۔ پہلے ٹی وی کی اسکرین پر صرف دلکش اور خوبصورت چہرے ہی نظرآتے تھے لیکن جب سے ٹی وی چینلوں میں اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی اندھی دوڑ شروع ہوئی ہے، تب سے وہاں ایسے چہروں کی بھرمار ہوگئی ہے جو اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ اپنی وضع قطع کے اعتبار سے بھی احمق نظر آتے ہیں۔ اسٹوڈیو میں بحث ومباحثے کے دوران جب تک ہنگامہ آرائی نہ ہو تب تک دیکھنے والوں کو دلچسپی پیدا نہیں ہوتی لہٰذا نیوز اینکر اپنے پروگرام میں شرکاء کو مشتعل کرنے کیلئے ایسے سوال داغتے ہیں جن کا منفی ردعمل ہونا لازمی ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ٹی وی اسٹوڈیو ایک ایسے دنگل میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں، جہاں شرکاء کو ایک دوسرے پر ہاتھ صاف کرنے کی بھی آزادی ملنے لگی ہے اور جب کبھی اس قسم کے مناظر جنم لیتے ہیں تو وہاں ٹی وی چینل اپنا پروگرام روکنے کی بجائے اس میں مزید مرچ مسالہ شامل کردیتے ہیں تاکہ لوگ ہاتھا پائی اور دھینگا مشتی کے مناظر کو براہ راست دیکھ کر لطف اندوز ہوسکیں۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی مباحثے کے دوران ایک ڈھونگی بابا کی ایک خاتون نے خوب دھلائی کی تھی اور یہ منظر کافی دنوں تک لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ اب تازہ ترین واقعہ میں ایک مولوی صاحب نے ایک خاتون پر ہاتھ صاف کرکے اپنا نام بہادروں کی فہرست میں درج کرالیا ہے حالانکہ اس دھینگا مشتی کا آغاز خود مذکورہ خاتون نے ہی کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے انتقام لینے کیلئے خاتون کو کئی طمانچے رسید کردیئے۔ ٹی وی چینل نے اس منظر کو سینسر کرنے کی بجائے اسے براہ راست اپنے ناظرین کو دکھایا۔ ملک کے موجودہ ماحول میں کسی خاتون پر ہاتھ اٹھانا تو کجا اسے غلطی سے چھونا بھی قابل سزا جرم تصور کیاجانے لگا ہے اور اس معاملے میں قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا کہ جن مولوی صاحب کو بڑی عزت کے ساتھ ٹی وی چینل نے اپنی گاڑی بھیج کر اسٹوڈیو میں بلایاتھا، انہیں اس واقعہ کے بعد جیل تک پہنچانے کیلئے باقاعدہ پولیس کی گاڑی طلب کرلی اور مولوی صاحب فی الحال سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مولوی صاحب کے سیاسی کارناموں کی جو تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں، وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہیں۔ ان تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی عظیم دینی درسگاہوں سے فراغت حاصل کرنے والے لوگ بھی دنیا کی چاہ میں اپنے ایمان کا سودا کرنے سے باز نہیں آتے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جب سے طلاق ثلاثہ کی بحث نے زور پکڑا ہے ، تب سے داڑھی اور ٹوپی رکھنے والے بعض نام نہاد مولویوں کی بن آئی ہے اور وہ ہر روز ٹی وی چینلوں پر اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی مہم میں اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ بٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نیوز اینکر ان نام نہاد مولویوں کو محض نمائش کیلئے وہاں بٹھاتے ہیں اور انہیں پوری طرح بولنے بھی نہیں دیتے جبکہ ان پروگراموں میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والے فرقہ پرست عناصر کو بولنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ٹی وی پر نظر آنے والے اکثر مسلم چہرے ایسے ہوتے ہیںجو نہ تو بحث ومباحثے کے آداب سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کا علم اور مطالعہ اس لائق ہوتا ہے کہ وہ کسی مباحثے کی زینت بنیںلیکن ٹی وی پر اپنا چہرہ دکھانے اور پروگرام میں شرکت کا معاوضہ وصول کرنے کا شوق اتنا شدید ہے کہ وہ صبح ہوتے ہی چینلوں کے فون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ سنا ہے تازہ واقعہ کے بعد ان لوگوں نے یہ طے کیا ہے کہ وہ آئندہ اُس چینل کے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے جس نے دھینگا مشتی کرنے والے مولوی صاحب کو جیل پہنچادیا ہے لیکن اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں کیونکہ یہ چینل ان جیسی شکل وصورت رکھنے والے بعض دوسرے لوگوں کو اسی طرح کرایے پر لے کر بحث مباحثے کا بازار گرم رکھیں گے۔ چونکہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے سے پہلے ان چہروں کو بھی کوئی پہنچانتا نہیں تھا اور نہ ہی یہ باعزت لوگوں کی کسی محفل میں بلائے جاتے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان نام نہاد مولویوں اور دانش بیزار دانشوروں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ مسلم دشمنی کیلئے بد نام ٹی وی چینلوں پر جاکر مسلمانوں کی رسوائی کا سامان پیدا کریں۔ان لوگوں سے باربار کہاگیا ہے کہ وہ اس قسم کے بے ہودہ پروگراموں میں شرکت نہ کیا کریںلیکن یہ احمق کسی کی سنتے ہی نہیں ۔ ان میں سے بیشتر لوگ حکمراں جماعت اور فرقہ پرست طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کیخلاف ہونے والی اکثر میٹنگوں میں بھی فرقہ پرست طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کا آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ان کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں، ویسے ویسے ان کے خود ساختہ قائدین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ خود ساختہ قائدین ہر روز مسلمانوں کیلئے نئے مسائل پیدا کرتے ہیں اور انہیں نت نئے جھمیلوں میں الجھاتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ مسائل کی کوکھ سے صالح قیادت جنم لیتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ قیادت کی کوکھ سے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جمہوریت کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں قیادت کا نہ تو کوئی لائسنس ہوتا ہے اور نہ ہی اس کام کے لئے کوئی سند درکار ہوتی ہے۔ اس لئے جو شخص زندگی کے ہر میدان میں ناکام ہوجاتا ہے، وہ قیادت کا منافع بخش کاروبار شروع کردیتا ہے۔
********