ہمارے درمیان یہ دوریاں تاحیات بر قرار رہیں گی
ناز اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی لئے شرمندگی سے رضا کو دیکھنے لگی،’’ سماج کے گھمنڈی رئیس زادے .... ثانیہ کے صبر کے پیمانہ لبریز ہوچکا تھا
ناہید طاہر ۔ ریاض
(قسط 17)
وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں دو سنگل بیڈ ، میز اور کرسی قرینے سے رکھے گئے تھے۔قریب ایک شیلف جس میں کئی کتابیں سجی نظر آئیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ ثانیہ مطالعہ کی کس قدر شوقین ہے۔ٹیبل پر لیپ ٹاپ بھی رکھا تھا جو اوپن ہی تھا اسکرین پر دادو کے ساتھ وہ کھڑی تھی دادو کسی بات پر کھل کر ہنس رہے تھے۔رضا دادو کے چہرے پر پھیلی طمانیت پر سلگ اٹھا۔
پوتے کو جہنم رسید کئے کتنے خوش نظر آرہے ہیں۔وہ زیر لب بدبدیا۔۔
ہممم۔۔۔۔۔۔!!!محترمہ کا کوئی کمرہ بھی ہے...؟ وہ ایک طنز یہ مسکراہٹ کے دوران گویا تھا۔
میں نے تو سنا تھا کہ تم متوسط طبقہ ایک ہال میں یکجا ، زندگی کا تمام سفر طے کردیتے ہیں۔ہاں جب کسی کی شادی ہوجاتی ہے تو پھر وہ پردے میں شفٹ کردیا جاتا ہے. ہا۔۔ ہا۔۔۔ہا۔ اس نے مضحکہ اْڑاتاہوا قہقہہ بلند کیا۔
ثانیہ نے سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اوراس شخص کو دیکھنے لگی جس کی نفرتیں تنہائی پاتے ہی سلگ اٹھی تھیں۔۔
کوئی اور موقعہ ہوتا تو وہ تلخ جواب دے دیتی ۔ لیکن ا س وقت وہ اس گھر کا مہمان تھا اور ان کے یہاں مہمانوں کی بہت عزت و اکرام ہوتا۔
رضا تنقیدی نظروں سے کمرے کا جائزہ لے رہاتھا۔
آپ تشریف رکھیں۔ثانیہ نے کرسی اس کی جانب بڑھا کر پنکھا آن کردیا۔ پنکھے سے غوں غوں غوں کی بڑی عجیب وغریب آوازیں آنے لگیں۔
’’یہ کہاں آ گیا۔۔۔!!! وہ دوبارہ تمسخر سے مسکراتا ہوابڑبڑایا۔ اْس کی یہ بڑبڑاہٹ ثانیہ صاف سن گئی ۔ثانیہ شرمندگی کے احساس تلے ہونٹوں کو سختی سے کچلتی ہوئی پر نم لہجہ میں گویا ہوئی۔
’’مجھے افسوس ہے آپ کومیری ذات سے وابستہ کافی زحمتیں اْٹھانی پڑ رہی ہیں...اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔
جی نہیں۔۔۔۔! زحمتیں توتم اْٹھارہی ہواور اٹھائوگی۔۔۔۔تاعمر و تاحیات….!!!‘‘ اس نے پْر خار لہجے میں جواب دیا۔
’ایک بات اور۔۔۔۔۔مجھے یوں، اپنے والد محترم کے ذریعے گھر پر مدعو کرنے کی ضرورت نہیں ،ضیافتوں سے تم اور تمھارے والدین مجھے قائل نہیں کر سکتے…اور ناہی میرے دل میں کوئی مقام پاسکتے ہیں۔۔۔۔۔ہمارے درمیان قائم یہ دوریاں تاحیات ‘ تاقیامت بر قرار رہیں گی۔۔۔۔۔ دنیا کی کوئی طاقت انھیں مٹا نہیں سکتیں ، سمجھیں!!!تنہائی ملتے ہی وہ زہر اْگلنے لگا تھا۔
اس قدر توہین……!!!ثانیہ کی آنکھیں بْری طرح برسنے لگیں۔دوسرے ہی لمحے وہ خود پر قابو پاتی ہوئی نہایت سرد لہجے میں گویا ہوئی۔یہ آپ کی سراسر خوش فہمیاں ہیں….!!!اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔کیونکہ اس وقت آپ میرے مہمان ہیں اور ہمارے یہاں مہمانوں کو بہت تعظیم و تکریم سے نوازا جاتاہے۔
’’ دیدی چائے لائی ہوں‘‘ نازنے باہر سے صدا بلند کی تو ثانیہ سر کو خفیف انداز میں جھٹکا دیتی ہوئی اْٹھی اور رضا پہلو بدل کر ثانیہ کو دیکھتا رہا۔
’’رضا بھائی میں آپ کیلئے بڑھیا چائے لائی ہوں ‘‘ادرک کی چائے،،،!
’’اس قدر گرمی میں بھلاکون کم بخت چائے پیتا ہے۔۔۔۔۔۔!!!اوسط درجے کے لوگ بھی ناں۔۔۔۔۔۔بہت عجیب ہوتے ہیں…!!!!موسم کے اعتبار سے ملبوسات کی کوئی تمیز اور نہ ہی آب و طعام کا کوئی شعور …‘‘ رضا نے جیب سے رومال نکال کر ماتھے سے پسینے کی بہتی دھاروں کو پونچھااورجھلاکر ثانیہ کے سراپے پر نظریں دوڑائی جو وزنی شرارے میں ملبوس پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ناز اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی لئے شرمندگی سے رضا کو دیکھنے لگی۔ثانیہ کا دل آرزو کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ ہمیشہ کے لئے زمین دوز ہو جائے۔
’’ نازکھڑی کیوں ہو؟بھئی جاکر کچھ ٹھنڈا لے آؤ…! ‘‘
’’ٹھنڈا …؟‘‘ ناززیر لب کہتی ہوئی بہن کو بے بسی سے دیکھنے لگی۔ ثانیہ نے بے دردی سے اپنے ہونٹ دانتوں تلے کچل لئے۔ تیز لہجے میں ناز سے کہہ اٹھی۔
’’نازرضا صاحب کے لئے مٹی کی صراحی سے ٹھنڈا پانی لے آنا۔ناز گھوم گئی۔ثانیہ تلخ لہجے میں گویا ہوئی۔
’’ سماج کے گھمنڈی رئیس زادے بزرگوں کی دولت کے جھوٹے نشے میں مبتلا مفلسی کا مذاق اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ خیررضا صاحب آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے ، ہمارے یہاں فریج نہیں ہے آپ ملک کے ایک ایسے دیانتدار کلرک کے گھر تشریف فرما ہیں جنھیں رشوت ، دھوکا، جھوٹ سے شدید نفرت ہے جب ایک مفلس متوسط انسان میں اس قسم کے جراثیم پائے جائیں تو اْس کی خانگی زندگی اسی طرح بیمار و خستہ حال ہوگی۔
رضا تیز نگاہوں سے ثانیہ کو دیکھنے لگا۔وہ اپنی سیاہ آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی۔ آنکھوں کے گوشے بری طرح بھیگ چکے تھے حْسن سوگوار تھا وہ اس وقت خوبصورتی کا شاہکار حسین مجسمہ لگ رہی تھی۔کئی ساعتیں گذر گئیں ، ثانیہ نے نگاہ اْٹھائی اور نا ہی رضا نے پلکیں چھپکائی۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭