سنجیدہ غزل منگل 14 اگست 2018 3:00 ڈاکٹر سعید عبدالکریم بیبانی۔جدہ عشق کا درد تھا، گزر بھی گیا ایک دریا چڑھا، اتر بھی گیا دردِ سر سے پتہ چلا سر ہے ورنہ لگتایہ تھا کہ سر بھی گیا اتناپچھتائے ما سَبَق پر ہم اب تا¿سف میں ما حَضَر بھی گیا میں نے خئد اپنی رہبری کی ہے جس سفر پر گیا، جدھر بھی گیا قیس، صحرا نشینی میں خوش ہے پھر سے لوٹا، کبھی جو گھر بھی گیا آئنہ تو کہے گا سالم ہوں میں جو کہتا ہوں میں بکھر بھی گیا اپنا ایماں بچا کے رکھ ورنہ تو اِدھر بھی گیا، اُدھر بھی گیا ادھر اُدھر بکھر سنجیدہ بیبانی شیئر: واپس اوپر جائیں